آپ اب کینیڈا اور یو کے کے جس ویزے کے لیے کلبلاتے اور دن رات خواب دیکھتے پھر رہے ہیں، وہ دونوں مجھے اکیسویں صدی کے پہلے اور دوسرے عشرے کے شروع میں مل چکے ہیں، وہ بھی کوئی پیسہ خرچ کیے بغیر۔ میں چھے ماہ کے ویزے پر آٹھ دن کی نیت سے لندن گیا تھا اور چھٹے دن واپس لاہور ایئر پورٹ پہ اُتر کر رکشہ تلاش کر رہا تھا۔ یہ میری عظمت یا وطن سے محبت نہیں، بس ساخت کا معاملہ تھا۔ اور بس۔۔ ہو سکتا ہے کہ میرے اندر وہ آگے بڑھنے اور کمانے کی صلاحیت ہی نہ ہو جو ایسے کاموں کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
شاید آپ کہیں کہ وہ پھر بھی اچھے دن تھے۔ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ وطن عزیز میں نحوست ہمیشہ متواتر اور یکساں رہی ہے۔ سو آپ کو احساس اور معلوم ہونا چاہیے کہ اگر بہت سی ممکنات پیدا ہو جائیں، جعلی یا اصلی بینک سٹیٹمنٹ بن جائے، کہیں یونیورسٹی میں فلی فنڈڈ سکالرشپ مل جائے، وغیرہ وغیرہ، تب بھی سب 25 کروڑ تو کیا 2.5 کروڑ بھی ’’باہر‘‘ نہیں جا سکتے۔
جب تک آپ باہر نہیں جاتے، یہاں کام جاری رکھنا ہی چاہیے اور اگر خود کشی نہیں کرنی تو نحوستوں کی یلغار کے اندر روشنی کی کرن بھی تلاش کرتے رہنا چاہیے۔ ول ڈیورانٹ کا لوٹس پروجیکٹ اسی طرح کی ایک کرن ہے۔ اگر میں اپنے قارئین اور چاہنے والوں کی درجن بھر مثالیں بیان کر دوں تو آپ دنگ رہ جائیں گے۔ مثلاً: ایک پوسٹ پر کوئی مالی مشکلات کا ذکر کرتا ہے اور میں انباکس میں اُس سے کہتا ہوں کہ آپ پتا بھیج دیں، میں کتاب بھیج دوں گا، آپ ادائیگی سہولت کے مطابق یا اقساط میں کر دینا۔ لیکن جواب ملتا ہے کہ نہیں، ابھی ایک یا دو ہزار بھجوا رہا ہوں، ایڈریس مکمل ادائیگی کے بعد بھجواؤں گا۔
دو قارئین کو ایسی کاپیاں چلی گئیں جن میں کچھ صفحات نہیں چھپے ہوئے تھے۔ میں نے معذرت کی اور کہا کہ نئی کاپی بھجوا دوں یا پھر ان مسنگ صفحات کی پی ڈی ایف بھیج دوں؟ جواب ملا کہ نہیں، کوئی ضرورت نہیں، میں کسی سے فوٹوکاپی کروا کر لگا لوں گا۔ ایک اور قاری نے کسی دوست کے لیے اضافی کاپی بھی منگوائی۔
یہ سب کچھ ایسے دور میں ہو رہا ہے جب میرے سمیت بہت سے لوگ کتاب چھپنے، فروخت ہونے اور پڑھے جانے کے متعلق شکوک کا شکار تھے۔ چار پانچ کے سوا کسی نے بھی مجھ سے کوئی خصوصی ڈسکاؤنٹ نہیں مانگا۔ خریدنے والوں میں سے کسی نے قیمت پر بحث نہیں کی۔ یہ دو طرفہ اور باہمی اعتماد کا ایک عجیب رشتہ اور تجربہ تھا جس کی کوئی اور مثال پبلشنگ کی حالیہ تاریخ میں تو مشکل ہی ملے گی۔نیز 1120 صفحات کی، دو کلو وزنی، 4500 روپے قیمت کی کتاب کا پانچ سو کاپیوں کا 95 فیصد ایڈیشن دو اڑھائی ماہ میں فروخت ہو جانا بھی اپنی مثال آپ ہے۔
اگر ہم کرکٹ ٹیم سے اپنی انا اور امید نہ باندھیں، سیاسی قائدین کو نجات دہندہ سمجھنا چھوڑ دیں، کھسروں کے ساتھ درختوں کے پیچھے گھات لگائے کھڑے ٹریفک پولیس اہلکاروں سے بچنا سیکھ لیں، اپنی پسند اور عادت کے معبودوں کو منوانے پر اصرار نہ کریں، لوکل ٹی وی چینلز والا وقت کتاب کو دیں، دونمبری بس کبھی کبھی کریں، دوسروں کے مقدس دنوں کی تضحیک نہ کریں، قوم پرستی کی نقلی سلاجیت نہ کھائیں تو شاید یہاں بھی باقی کی زندگی کو خوش و خرم نہ سہی، محض زندگی سمجھ کر ہی گزار لیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں