میں اپنی بیٹی فاطمہ اسد کی مختصر بیماری سے موت کے ایک ہفتہ بعد شدید ڈپریشن میں چلا گیا (حالانکہ اس کے انتقال کے وقت اللہ نے مجھے بہت مضبوط اور باایمان رکھا اور شُکر گزاری ہی کی توفیق دی)حتی کہ شیطانی وسوسہ سے حیات بعد از موت کا تصور نعوذ باللہ خطرہ میں پڑ گیا تھا۔تو میں ڈاگما (پیدائشی ایمان) ختم ہونے سے ایک نئے سِرے سے خدا کی جستجو میں بے قراری سے پڑا،تیس سال بعد قرآن مجید کھولا جس کا بچپن میں صرف ثواب کی غرض سے عربی ناظرہ ہی پڑھ رکھا تھا، مذاہب پر کئی کتابیں لے آیا،حتی کہ گھر والوں اور قریبی دوستوں کو میری دماغی حالت پہ شک ہونے لگا۔۔
گر مانگا نہیں تو کچھ نہ مانگا
اب مانگ رہا ہوں تو خدا مانگا
کچھ سُجھائے نہ سُوجھے، ایسے لگنے لگا کہ جیسے پچھلا سارا پیالہ ہی خالی ہو گیا ہو،مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔۔
تو ایک شام اپنے گھر کے ٹیرس پہ بیٹھا تھا کہ وسوسہ آیا اسد انٹرنیٹ کھول اور دیکھ کتنے ہی مریض بچ جاتے ہیں ،بلڈ کینسر کے،تجھ سے ہی کوئی غلطی ہوئی ہو گی،میں نیٹ کھول کر ایک بار پھر بلڈ کینسر کا ڈیٹا سرچ کرنے لگا اور پھر سرچ کرتے کرتے رونے لگا پڑا،گڑگڑا کر خدا سے ہی دعا مانگی یا اللہ میری بس ہوگئی، تیرا کہنا ہے کہ تیرے سوا کسی جگہ پناہ نہیں ملنے والی ،تو ہی مجھے قرار دے اور میں نے کہا کہ کوئی پاک خواب ہی دکھا دے۔۔
اسی دن ہفتہ کی رات وقت تہجد خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک جہاز ہے جو ایمرجنسی لینڈنگ کرتا ہے اور اسکی ایمرجنسی ایگزٹ سلائیڈ کھلتی ہے اور مجھے اس پہ بٹھا کر دھکا دیا جاتا ہے اور میں سلائیڈ لے کر اترتا ہوں ،سیدھا مسجد الحرام کے سامنے اور مجھے کہا جاتا ہے چلیں چل کر عمرہ کریں ،میں چل پڑتا ہوں پھر آواز آتی ہے کہ رک جائیں، یہاں سے آپ کو خانہ کعبہ پہلی دفعہ نظر آنے والا ہے
مانگیں کیا مانگتے ہیں؟ exactly یہی الفاظ تھے ۔۔
میں اپنی آنکھوں پر فوراً ہاتھ رکھ لیتا ہوں کہ دعا سوچ تو لوں ۔۔۔
ابھی مانگتا نہیں ،دل ہی میں سوچتا ہوں کہ میں اپنی بیٹی کی بخشش کی دعا مانگوں گا۔۔
آواز آتی ہے او بھائی وہ بخشی ہوئی ہے(یاد رہے کہ وہ وقت نزع باآواز بلند کلمہ پڑھ کر گئی تھی )۔تُو اپنی فکر کر۔۔۔پھر تو میں فاطمہ کی فکر بھول ہی گیا۔
ہاتھ ہٹاتا ہوں تو سامنے کعبہ شریف۔۔نور کی شعائیں ۔۔
Every thing else in the background faded and I was standing stunned and “I talked to my self”
مجھے تو عمرہ کے مناسک ہی نہیں آتے ،مجھے تو پہلی دفعہ ایمرجنسی میں بھیجا گیا ہے،ہاں البتہ اتنا دیکھا سنا ہے کہ لبیک اللھم لبیک پڑھتے ہیں۔۔۔
میں بھی پڑھنے لگتا ہوں یا اللہ میں حاضر ۔۔میں حاضر
پھر منظر بدلتا ہے اور میں مطاف میں آ جاتا ہوں اور آخری سین دیکھتا ہوں کہ سمندر سے ایک پانی کی لہر چھلک کر آتی ہے اور میں احرام میں اپنے پاؤں پانی میں دیکھتا ہوں۔
میں روتا ہوا اٹھا، کیونکہ مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ کیا دعا مانگ کر سویا تھا اور میرے ذہن میں دور دور تک بھی کہیں عمرہ کا خیال تک نہیں تھا،آدھی دنیا گھوم چُکے تھے لیکن ادھر جانے کا کبھی خیال نہیں آیا تھاکہ میرے مائنڈ کی پروجیکشن ہوتی،میری دعا قبول کر لی گئی تھی بارگاہ الہی میں،نفل پڑھے بیگم کو جگایا ۔۔۔
پاسپورٹ نکالو بلاوا آگیا ہے۔۔۔
ہم نے دو دنوں میں فلائی کیا اور پاکستان سے سیدھے عمرہ کرنے کے بعد ہم رات گئے جب حرم سے باہر آ کر کھانا کھا رہے تھے کہ میں نے سر اٹھایا تو فضا میں چند بدلیاں نظر آئیں،میں نے اپنی وائف سے کہا “میں ہوٹل نہیں جاؤں گا مجھے لگتا ہے کہ آج رات یہاں باران رحمت برسے گی،میری وائف بولی یہاں بارش کم کم ہی ہوتی ہے چل کے ریسٹ کرتے ہیں، بہت تھک گئے ہیں،میں نے برجستہ کہا آج تو ہوگی انشااللہ ،تو ہم سب واپس حرم میں آگئے،سبحان اللہ جب وقت فجر نماز کیلئے کھڑا تھا تو اتنی طوفانی بارش ہوئی کہ ہر طرف پانی پانی ہو گیا اور میں احرام میں اپنے پاؤں پانی میں دیکھ کر زاروقطار رو رہا تھا۔
یہی تو میں نے اپنے خواب میں دیکھا تھا آخری منظر~
سچا خواب سبحان اللہ!
اس دن ایسی ٹھنڈک پڑی غم دِل پہ ہمیشہ کے لئے، کہ جو ساری دنیا کے انسان مل کر بھی نہ ڈال سکے تھے ،اسی کے بعد پھر ۱۸۰ ڈگری پہ زندگی میں ٹرانسفارمیشن آئی،ڈاکٹر کی ڈائری کی آمد بھی تب سے ہی ہوئی۔
پھر حاضری کیلئے روضہ ء رسول ﷺ پہنچا تو دربار رسالت میں پہنچ کر سب ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے،مجھے کچھ ہوش نہیں رہا کہ صحیح بات کر رہا ہوں یا نہیں اور میں اپنی بپتا سنانے لگ گیا “یا رسول اللہ ﷺ آپ نے تو خود اولاد کی جدائی کا غم جھیلا ہے لیکن آپ تو اللہ کے نبی ہیں کہاں آپ کی شان اقدس لیکن میں تو ماڑا بندہ ہوں میری دلجوئی کریں پلیز ۔۔۔
میں روتے ہوئے روضہ اقدس سے باہر نکلا ہی تھا کہ ایک بچہ شاید دس سال کا،بھاگ کر آ کر میرے ساتھ لپٹ گیا،جپھی ڈال لی
میرے ایک ہاتھ میں بیگ تھا،مجھے لگا کہ اسے شاید غلطی لگ گئی تھی اور مجھے اپنا کوئی عزیز نہ سمجھ بیٹھا ہو،اس کا سر نیچے کی طرف تھا،اس نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا تو مجھے لگا کہ اب اس کی غلط فہمی دور ہو گئی تو مجھے چھوڑ دے گا،لیکن وہ تو میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگا،اور میں نے کہا ایان تم (میرے بھانجے ایان کی پوری کاپی,فاطمہ اسے مذاق میں جنت کا فرشتہ کہہ کر گئی تھی)میں بھی بیگ نیچے رکھ کر اس کا سر سہلانے لگا،اس نے میرے ہاتھ کی بند مُٹھی کھولی اور خدا کی قسم میرا ہاتھ سہلانے لگا اور پھر مسکرا کر بھاگ گیا، میں اسے دیکھتا رہا اور وہ سیدھا اپنے باپ کے پاس گیا ۔
میری روح کانپ گئی کہ یہ کیا ہو؟
حضوری ﷺ اور وہ بھی موقع پر ہی
ایسے جپھی تو مجھے میرے بچوں میں صرف فاطمہ ہی ڈالتی تھی بلکہ اب وہ بڑی ہو رہی تھی تو میں اسکی اس عادت سے کھِچتا تھا کہ فاطمہ کیا تم مجھے چمٹ ہی جاتی ہو۔۔۔
I don’t know if it was a Random thing or had a purpose,nothing like that happened with with me before
میں نے یہ باتیں کوئی خود کو برگزیدہ ظاہر کرنے کیلئے نہیں بلکہ جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا من و عن امانت سمجھ کر ایمان افروزی کی نیت سے آج کے دن کی مناسبت سے آپ سے شیئر کی ہیں،میری امی بھی اس روحانی سفر میں ہمارے ساتھ تھیں انہیں بھی فاطمہ کیساتھ ہی کینسر کی تشخیص ہوئی اور بارہ ربیع الاول کو وقت تہجد اپنے خالق کی طرف بے مثال صبر اور سکون کیساتھ انتقال کر گئیں،بطور ڈاکٹر لوگ اپنی اپنی آزمائشوں کے دُکھڑے سناتے ہیں،ابھی کل ہی فاطمہ اسد ویلفیئر کلینک پہ ایک نادار مریض تشریف لائے جن کا دل صرف بیس فیصد کام کر رہا تھا،روتے ہوئے بتانے لگے ڈاکٹر صاحب میری ایک ہی بیٹی تھی چودہ سال کی کرنٹ لگنے سے مر گئی،مجھے کسی نے آپ کے بارے بتایا تو چلا آیا،میں سوچ میں پڑ گیا؛لگتا ہے غم بانٹنے کی ڈیوٹی لگ گئی ہے !
کبھی نہ بھولیں اُس کا وعدہ ہے
فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِیۡ وَ لَا تَکۡفُرُوۡنِ ۱۵۲﴾
لہٰذا تم مجھے یاد رکھو ، میں تمہیں یاد رکھوں گا ، اور میرا شکر ادا کرو ، کفرانِ نعمت نہ کرو۔
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ
اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں