دین کی بابت ہمیں یہ بات اصول کے طور پر سمجھ لینی چاہئیے کہ جب کسی چیز کو بطور دین پیش کیا جائے گا تو اس کے لیے ہمیشہ استدلال خود دین ہی سے کیا جائے گا. دین سے استدلال کے معنی یہ ہیں کہ وہ بات یا تو قران مجید میں بیان کی گئی ہو گی یا رسالت مآب نے اس بارے میں کوئی تاکید,تلقین یا ہدایت کی ہوگی.
دینیاتی امور کا دوسرا اصول یہ ہے کہ دین ہمیشہ تواتر سے منتقل ہوتا ہے. اس متواتر انتقال کا مطلب یہ ہے کہ اس بات پر خود رسول اللہ, رسول کے اصحاب اور بعد کے قُرون کے تمام لوگ عامل رہے ہوں. اگر بالفرض بعد کے لوگ کوتاہ عملی کے باعث عمل پیرا نہ بھی رہے ہوں تو وہ بات کم از کم اعتقاد اور فکر و نظر کے طور پر ضرور موجود رہی ہو. یہی وہ اصول ہیں جن پر مختلف دینیاتی امور کا جائزہ لیا جا سکتا ہے.
آج ہمارے ہاں بارہ (12) ربیع الاول کو مسلمانوں کی تیسری عید کے طور پیش پر کیا جاتا ہے اور اس روز کم و بیش وہی اہتمام کیا جاتا ہے جو عموماً عیدین پر کیا جاتا ہے. لیکن اگر بارہ ربیع الاول بطور عید کا جائزہ مذکورہ بالاہ اصولوں پر لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے اس دن کی دینی حثیت میں ان میں سے کوئی ایک بات نہیں پائی جاتی ہے. رسالت مآب, آپ کے اصحاب اور بعد کے قرون کے لوگوں نے کبھی بھی آپ کے یوم پیدائش کا کوئی اہتمام نہیں کیا ہے اور نہ رسالت مآب نے اس بابت امت کو کوئی ہدایت یا تلقین کی ہے. عید میلاد النبی کا اہتمام دراصل بعد کے لوگوں بلکہ صحیح طور پر انیسوی صدی سے کیا جانے لگا ہے.
ماضی میں اس سے متعلق جو کچھ بھی موجود ہے وہ محض کچھ افراد کا انفرادی فعل تھا, لیکن دین کا معاملہ یہ ہے کہ کسی ایک بزرگ کی طرف سے چنے تقسیم کرنے سے وہ عمل دین نہیں بن جاتا ہے بلکہ اسکی حثیت فرد کی عقیدت کی ہے.
رسالت مآب سے اس بارے میں جو کچھ منقول ہے وہ صرف اتنا ہے کہ رسول اللہ عموماً ہر ماہ پیر اور پہلی دو جمعراتوں کو روزہ رکھا کرتے تھے.
البتہ اس سلسلہ میں ایک اور پہلو انتہائی اہمیت کا حامل ہے. اکیسوی صدی کا انسان ماضی کے تمام ادوار کے انسانوں سے زیادہ مصروف ہے. یہ مصروفیت بعض صورتوں میں اتنی شدید ہوتی ہے کہ انسان اس کے باعث اپنے سماجی, مذہبی اور خاندانی فرائض سے غافل ہوجاتا ہے. اس صورت میں دنوں کی تخصیص کو بامقصد بنایا جا سکتا ہے.
چنانچہ بارہ ربیع الاول کے دن کو بھی عوام کی تعلیم و تربیت اور دینی تعلیمات کے ابلاغ کا ذریعہ بنایا چاہئیے. اس یوم کو محض مسرت و جشن میں صرف کر دینے کے بجائے اولاً ریاستی سطح پر سیرت رسول کی مرکزی تقریب کا اہتمام ہونا چاہئیے لیکن اگر ریاستی سطح پر اس طرح کا کوئی اقدام نہیں اٹھایا جاتا تھا تو مذہبی جماعتوں یا دیگر اہل علم حضرات کی جانب سے اپنے تئیں مختلف ذرائع سے سیرت رسول کی مجالس کا اہتمام ہو جن میں عوام اور باالخصوص نسل نو کے لیے رسالت مآب کی سیرت, آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات اور مجموعی دین کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے. اس دن کو یوم عید بنانے اور جشن و مسرت کا ایک موقع بنانے کے بجائے تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنانا چاہئیے.
یہی صورت اس دن کے لیے موزوں ترین ہے ,دین اسلام کے مجموعی مزاج سے بھی ہم آہنگ ہے اور ایام کی تخصیص کے مقصد کو بھی پورا کرتی ہے کہ:
‘دنوں کی تخصیص کی پہلی غائیت تجدید عہد ہے’
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں