آدم خوری میں پاکستان بھی شامل/غیور شاہ ترمذی

آدم خوری کی تاریخ نسل انسانی کی تقریباً  شروعات سے ہی ملتی ہے۔ انسان نے جب شکار کے ذریعہ خوراک کی تلاش شروع کی تو تب جانوروں کے شکار کی کمیابی نے اسے اپنے ہی بھائی بندوں کو کھانے کی ترغیب دی۔ پرانی تاریخ کا تو معلوم نہیں لیکن جو دستاویزی یعنی لکھی ہوئی تاریخ آج ہمارے پاس ہے وہ کم و بیش 5 ہزار سال پرانی ہے لیکن ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ آج سے تقریباً پانچ لاکھ سے ساڑھے تین لاکھ سال (500،000 سے 350،000) پہلے کے انسانوں نے آدم خوری کی قبیحہ روایت کا آغاز کیا۔ شاکو ثقافتی قومی تاریخی باغ میں پائی جانے والے قدیم اسپین کے باشندوں کی ثقافتی باقیات سے آدم خوری کے شواہد ملے ہیں۔ اس کے علاوہ ماضی میں قبل از تاریخ یورپ میں، افریقہ ، جنوبی امریکہ ، نیوزی لینڈ، شمالی امریکہ ، آسٹریلیا، جزائر سولومن، نیو کیلیڈونیا، پاپوا نیو گنی، انڈیا، سماٹرا اور فجی میں عام طور پر ایسے جنگی قبائل موجود رہے ہیں جو آدم خوری کے عادی تھے۔ فجی کو تو آدم خوری کی وجہ سے کسی زمانے میں “آدم خوروں کا جزیرہ“ بھی کہا جاتا تھا۔دورِ جدید کے انسانوں میں بھی کئی گروہ ایسے نکلے جو اس قبیح فعل کے مرتکب ہیں۔ آج کی دنیا میں بھی فجی میں ایسے لوگ موجود ہیں جو آدم خوری کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پپوا نیو گنی (Papua New Guinea) اور امریکی ریاست فلوریڈا کے بعض علاقوں میں بھی آدم خوری کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ہمارا ہمسایہ ملک انڈیا بھی اسی فہرست میں آج کل دنیا میں تیسرے نمبر پر موجود ہے جہاں آدم خور قبیلے موجود ہیں۔ انڈیا کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہاں کے شمشان گھاٹوں پر آج بھی جادو ٹونہ کرنے والے تانترک ادھ جلی انسانی باقیات کھاتے ہیں۔ انڈیا کے بعض قبائل میں انسانی گوشت صرف ایک غذا کے طور پر کھانے کی روایت ہے، جس کے ساتھ جادو کا کوئی تعلق نہیں سمجھا جاتا۔

بدقسمتی سے پاکستان میں بھی دریائے سندھ کے قریب واقع گاؤں کہاوڑ تحصیل دریا خان ضلع بھکر میں ایک ایسا خاندان موجود تھا جس نے 8 سالوں کے دوران کم و بیش 30 انسانوں کو کھایا تھا۔ اس آدم خور خاندان کے 35 سے 40 سال کی عمر کے 2 بھائی عارف عرف اپھل اور فرمان عرف پھاما کا خاندانی پیشہ زمینداری ہے اور دریائے سندھ کے ساتھ کچے کے علاقے میں زرعی زمین کا معقول رقبہ ان کی ملکیت ہے۔ دونوں کے والد اور خاندان کے دیگر افراد علاقے میں اچھی سماجی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دونوں بھائی البتہ اپنے گھر میں تنہا رہتے تھے اور والدین اور بیوی بچے انہیں پہلے ہی چھوڑ کر جا چکے تھے (شاید انہیں پہلے سے ہی ان کی اس قبیح  عادت کے بارے میں معلوم ہو)۔ ان دونوں آدم خوروں کا گزر بسر بھی والد کی جانب سے فراہم کئے جانے والے اناج پر ہی تھا اور یہ دونوں بھائی کوئی کام یا ملازمت نہیں کرتے تھے۔

پہلی دفعہ یہ دونوں آدم خور اپنے ہمسائے کی مخبری پر پکڑے گئے تھے جس نے اپنی چھت سے ان کے صحن میں غلطی سے ٹھکانے لگانے سے رہ جانے والے 2 عدد انسانی جبڑوں کو وہاں پڑے ہوئے دیکھا۔ علاقہ کے لوگوں سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ان دونوں بھائیوں کے علاوہ ان کی دادی اور ایک کزن بھی انسانی گوشت کھاتے رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ دادی ان میں سے ایک بھائی سے بچے کے گوشت کا مطالبہ کرتی تھی ،تو عام طور پر ان دونوں بھائیوں کا وہی آدم خور کزن ہی قبرستان سے بچوں کی لاشیں چرا کے لاتا جس کو دادی پکا کر کھاتی۔ پکڑے جانے پر ان دونوں بھائیوں نے سارا الزام اپنے سر لے لیا اور باقی خاندان کو بچا لیا، جبکہ باقی خاندان نے بھی یہی کہا کہ آدم خوری صرف ان دونوں بھائیوں تک ہی محدود تھی اور ان لوگوں کو پکڑے جانے سے پہلے کبھی یہ علم نہیں ہوا کہ یہ دونوں بھائی آدم خوری کرتے تھے۔ یہ درست نہیں ہو سکتا کیونکہ دیہاتی فضا میں جہاں گھر کا بلکہ خاندان کا بھی ہر ایک فرد دوسرے فرد کی زندگی میں اس قدر دخیل ہوتا ہے، وہاں یہ بات ممکن ہی نہیں ہو سکتی کہ گھر کے 2 افراد قبرستان سے لاشیں چرا کر لاتے ہوں اور پکا پکا کر کھاتے رہتے ہوں اور کسی کو گھر میں پتہ ہی نہ چلے؟۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق اس نے اپریل 2011ء میں ان دونوں بھائیوں کو قبر سے ایک خاتون کی لاش نکال کر اس کےگوشت کو پکا کر کھانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اس جرم میں عدالت نے دونوں بھائیوں کو صرف 2 سال قید کی سزا بھی سنائی تھی کیونکہ پاکستان میں ’آدم خوری‘ جیسے جرم سے متعلق کوئی قانون نہیں ہے۔ پولیس کے مطابق دونوں بھائیوں محمد فرمان علی اور محمد عارف علی نے کسی کا قتل نہیں کیا تھا اور انہیں صرف اس بات کی سزا ملی کہ انہوں نے ایک قبر کی توہین کی تھی۔ جیل میں 2 سال کی یہ سزا کاٹنے کے بعد رہا ہوئے تو دوبارہ یہی قبیح  فعل شروع کر دیا اور سنہ 2014ء میں دوسری دفعہ پھر پکڑے گئے۔

دوسری مرتبہ گرفتاری کے بعد دونوں بھائیوں پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا جس میں 4 مختلف دفعات درج کی گئی تھیں۔ تھانہ صدر، دریا خان نے بتایا تھا کہ دونوں بھائیوں کے خلاف 295 اے، 297، 201، 16 ایم پی او اور 7 اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ اس مقدمہ میں ان آدم خوروں کو 12 بارہ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ دوسری دفعہ پکڑے جانے کے بعد ان آدم خوروں  کو  ایک 2 سالہ بچے کی لاش کو قبر سے نکال کر اس کا قورمہ بنا کر کھانے کے جرم میں سرگودھا کی خصوصی عدالت نے 12 سال قید کی سزا کا حکم سنایا تھا۔ سنہ 2020ء میں سزا مکمل ہونے کے بعد ان آدم خوروں کو مزید 3 مہینوں کے لئے نظر بند کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد انہیں ڈسٹرکٹ جیل بھکر سے رہائی کے بعد ان کے بھائی انتظار اور بھتیجے کامران کے حوالے کر دیا گیا جو انہیں لاہور لے گئے تھے۔ تب کے بعد سے آج تک ان آدم خوروں کا کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں یا زندہ بھی ہیں یا نہیں۔

julia rana solicitors london

بھکر کے ان آدم خوروں کے طریقہ واردات کے بارے میں غالب قیاس یہی ہے کہ وہ قبروں سے لاشیں نکال کر کھایا کرتے تھے۔ البتہ ہمارے ملک میں ایسے آدم خور ارباب اختیاران بھی کثرت سے موجود ہیں جو باہر تو انسانی گوشت نہیں کھاتے لیکن انہوں نے اپنے اقتدار اور اپنی آسائشیوں کی ہوس میں 25 کروڑ لوگوں کو مختلف چورن بیچ کر ان کی روحوں کی آدم خوری پچھلے 76 سالوں سے شروع کر رکھی ہے۔ عارف عرف اپھل اور فرمان عرف پھاما کو جب آدم خوری جیسے قبیحہ جرم کے تحت سزائے موت صرف اس وجہ سے نہیں دی جا سکی کہ پاکستان کے قانون میں آج تک آدم خوری کے لئے ایسی کوئی سزا   سِرے سے  موجود  ہی نہیں ہے تو پھر یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ ان ارباب اختیاران کو کوئی سزا دی جا سکے جو جعلی تاریخ اور ایک مخصوص مذہبی فکر کی تعلیم دے کر قوم کو ذہنی مفلوج بنا کر مذہبی دہشت گرد بنانے، لسانی قاتل بنانے، اپنے الگ تعصبی گروہ بنانے پر لگائے رکھتے ہیں جبکہ دوسری طرف کرپشن کے لامحدود وسائل سے اپنے لئے دوسرے ممالک میں جزیرے خریدنے یا مشہور برانڈ کے پیزا ہوٹل بنانے یا دوسرے منافع بخش بزنس ایمپائر کھڑے کرنے میں لگاتار مصروف رہتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply