میں اچھا ہوں، برا ہوں، کس طرح کھل پائے گا مجھ پر
ہزاروں چاہنے والے، مخالف بھی ہزاروں ہیں
یہ تو وہ بات ہے جو رفیع الدین راز صاحب نے کہی لیکن راز صاحب کی شخصیت کچھ ایسی مرنجاں مرنج ہے کہ ان لوگوں کو دیکھنے کا جی چاہتا ہے جو ان کے بھی مخالف ہوسکتے ہیں۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں، اس کے لیے دلیل خود راز صاحب ہیں جنھیں دیکھ کر کوئی ان کا خلاف ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ محبّت کرتے ہی نہیں، لکھتے بھی ہیں۔ یہاں تک کہ جہاں کسی پہ سوال اٹھاتے ہیں تو بھی ان کا لہجہ بہت نرم ہوتا ہے۔ راز صاحب کی شاعری کا لہجہ بھی ان کے اپنے لہجے کی طرح ملائم ہے۔ وہ مجسّم شکر ہیں اور قناعت ان کی طاقت ہے، ہمیں کہیں نہ کہیں حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے مگر حالات سے شکوہ کرتے رہنے کے بجائے وہ آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں
سلجھا رہا ہوں ذہنِ پریشاں کی گتھّیاں
اپنے خیال و فکر کو الجھن میں ڈال کر

راز صاحب کی شاعری میں آپ کو اس دنیا کی جھلکیاں صاف نظر آتی ہیں جس میں ہم اور آپ زندہ ہیں یا زندہ رہنے کی جدّوجہد میں ہیں۔ ان کی شاعری میں بدلتی زندگی کے مسائل اور کرب کا اظہار بہت دردمندی کے ساتھ ملتا ہے۔ وہ انسان کی خواہش گزیدگی کا نوحہ بھی لکھتے ہیں اور اسے آئینہ بھی دکھاتے ہیں۔ تہذیب کا زوال ہم میں سے بہتوں کا مشترکہ دکھ ہے اور راز صاحب کی شاعری ہمارے اس دکھ کو زبان دیتی ہے۔ راز صاحب کی شاعری انسانی رویّوں اور نفسیات میں چھپے مسائل کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔ بچپن میں بڑے ہونے کی جلدی اور بڑے ہو کر بچپن کی خواہش۔ دوسروں کی حدِّ نظر پہ سوال اٹھانا اور اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنا، خواہشوں کے پیچھے بھاگتے لوگ، زندگی کی بازاری رنگت، رعونت، بے گانگی۔ یہ اور ایسے بہت سے مرض جو انسانوں کو لاحق ہیں وہ ان پر کھل کر بات کرتے ہیں۔ انا اور غرور کی کھُلی اور چھپی شکلوں کو انھوں نے بارہا اپنا موضوع بنایا ہے۔ عاجزی کے بھیس میں اپنی بڑائی اور اس پر غرور کا پہلو انسانی نفسیات کا حصّہ ہے جو بڑا دھوکہ دیتا ہے۔ ان کی شاعری میں یہ سب موضوعات ان کے اندازِ فکر کے غمّاز ہیں
۔ گھول سکتا ہوں انا کا طنطنہ میں عجز میں
نرم خُو ہوتے ہوئے مغرور ہوسکتا ہوں میں
۔ زعم ہائے پارسائی کا مرض کس کو نہیں
شہر کا ہر آدمی اب آئینہ بردار ہے
۔ حسنِ سادگی بھی ہے، نرم خو بھی ہے لیکن
بے حسی نمایاں ہے آدمی کی فطرت میں
۔ روشنی میں ہر کسی کی اک الگ پہچان تھی
تیرگی نے کر دیا ہے سب کا چہرہ ایک سا
رفیع الدین راز صاحب کی شاعری اور زندگی ہمّت اور حوصلے سے عبارت ہے۔ ان کے ہاں مستقل جدّوجہد کے ساتھ ثابت قدمی کا عزم ملتا ہے جو ہم جیسوں کی ہمّت بڑھاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ شاعری نہیں ان کی زندگی کا منظرنامہ ہے بلکہ اسے ان کا منظوم تاثراتی سفرنامہ ہی سمجھیے۔ آگہی رکھنے والے اور سوچنے والے لوگ زندگی کا کوئی نہ کوئی فلسفہ ضرور رکھتے ہیں جس کے تحت وہ زندگی گزارتے ہیں یا گزارنا چاہتے ہیں۔ راز صاحب کی شاعری ان کی زندگی کے فلسفے کو مختلف رخوں سے پیش کرتی ہے۔ کہتے ہیں
۔ معتدل موسم میں کٹتی ہے مری اک ایک سانس
اپنے طرزِ زندگی کو ایک سا رکھتا ہوں میں
۔ رنگِ حسرت آنکھ میں، چہرے پہ بھی گردِ ملال
اک مکمّل تبصرہ ہے زیست کے احوال پر
رفیع الدین راز تھک کر بیٹھنے والے نہیں ہیں۔ وہ تھکن سے گھبراتے نہیں ہیں بلکہ اس سے بھی مہمیز حاصل کرتے ہیں اور اسے اپنی قوّت بنا لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تھکن ہی تھکن کا علاج ہے۔ یہ بہت حوصلے کی بات ہے۔ ان کے اعصاب تھکن نا آشنا ہیں۔ یہ محض لفّاظی نہیں بلکہ حسرتوں اور مشکلوں سے لطف اٹھانا اور انھیں اپنا اسباب گرداننا دراصل ان کا ذوقِ خوش نگاہی ہے۔ وہ چہرے کی جھرّیوں میں ڈھلتی عمر کا خوف نہیں دیکھتے بلکہ انھیں اطلس و کمخواب سے تعبیر کرتے ہیں۔
۔ بڑھ رہی ہیں گردشِ خوں میں تھکن کی شورشیں
اک تھکن نا آشنا اعصاب کے ہوتے ہوئے
۔ زیست افروز غم کی رعنائی
ہر نظر کو نظر نہیں آتی
انسان اور خدا کا تعلّق ہمیشہ فنونِ لطیفہ کا موضوع رہا ہے۔ انسان ہمیشہ خدا سے طرح طرح مخاطب ہونے کی کوشش کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ راز صاحب کے کلام میں آپ کو جابجا اس تعلّق کے خدوخال کی جستجو ملے گی۔ بلکہ وہ آپ کو اس پر سوالات اٹھتے ہوئے بھی نظر آئیں گے۔ وہ تشکیک کے پہلو اجاگر کرتے ہوئے شرماتے نہیں ہیں۔ خدا اور کائنات کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بھی وہ آدمی کے مقام اور عظمت کے پہلو کو پسِ ِپشت نہیں ڈالتے بلکہ کھل کر اس کا اظہار کرتے ہیں اور کیوں نہ ہو کہ جس کے لیے زمین مسخّر ہوئی، جس کے قدم سیاروں کی طرف ہوں، جسے زمین و آسمان پر غور کی دعوت دی گئی ہو وہ کوئی معمولی شے تو نہیں ہو سکتا۔ دیکھیے
۔ ہم پر کسی کی بزم کی تزئین شرط ہے
خاکے میں اس کے رنگ تو بھرنا ہے عمر بھر
۔ کون سا غصّہ؟ کہاں کی برہمی؟ کیسا جلال؟
حظ اٹھاتا ہے وہ میری شوخیٔ گفتار سے
۔ اپنی وسعت پر نہ اترا اس قدر اے بزمِ کن
پیکرِ خاکی میں بھی موجود ہے یہ کائنات
۔ قطرے پہ سمندر کی نگاہیں تو ہیں، لیکن
ہر آن سمندر بھی ہے قطرے کی نظر میں
تمام تر تباہ کاریوں کے باوجود انسان نے دنیا اور زندگی کی جو شکل بدلی ہے تو کیا ان فرشتوں کو ان کا جواب نہیں مل گیا ہوگا جنھیں مٹّی کے پیکر کے آگے سجدہ کرتے وقت خدا سے سوال کرنا پڑا تھا۔ اس کلام میں اسی عظمت کا ذکر ہے۔ وہ دراصل محض آدمی کے وجود سے سجی اس بزمِ زندگی کی پسندیدہ باتوں کو عظیم نہیں سمجھتے بلکہ وہ اس کی خامیوں کی بھی قدر کرتے ہیں۔ ایک ڈگر پہ اچھے بچوں کی طرح چلتے رہنے سے کیا کچھ دریافت ہونے سے رہ جاتا ہے اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم معمول سے ہٹیں یا راستہ بھول بیٹھیں۔ راز صاحب اس راز کے محرم ہیں اس لیے وہ گمراہ ہونے کو بھی ایک وصف سمجھتے ہیں۔ وہ گمرہی میں بھی عظمت دیکھتے ہیں۔ آپ چاہے جتنا برا مانیں مگر یہ انسان کی سرشت میں ہے بلکہ رکھا گیا ہے، جبھی تو جنّت سے نکالا گیا تھا۔ اسی کے طفیل تو یہ دنیا سجی ہے۔ شعر دیکھیے
۔ آگہی کے در کھلا کرتے ہیں کب ہر ایک پر
گمرہی کی دلربائی سب کی قسمت میں کہاں
۔ میرے پائے شوق نے روشن کیے ہیں رہ گزر
میری آنکھوں سے بڑھا ہے روشنی کا مرتبہ
۔ آواز مری سن کے نکل آیا ہے گھر سے
صد شکر یہاں مجھ سا گنہگار کوئی ہے
میں نے راز صاحب کی شاعری میں ازل سے جڑی باتوں کا ذکر واقعات کی طرح کر تو دیا ہے لیکن ان کے بارے میں راز صاحب کا نظریہ یہ ہے کہ وہ ازل سے ابد تک کے معاملات کو حکایات کے بجائے استعاروں کی طرح برتنے اور ان سے معنی کشید کرنے کے قائل ہیں، مثلاً
ہماری عقلِ ناقص کی سمجھ میں کیوں نہیں آتا
نصابِ زندگی لکھا گیا ہے استعاروں میں
راز صاحب کے نزدیک اپنی غلطیوں پر شرمندگی اور ندامت کا احساس بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ان کے دیگر مجموعوں میں، میں نے زخم کی مہک سے محبوبیت کا اظہار دیکھا تو اس مجموعے میں ندامت کے احساس اور اس کی خوشبو کی تراکیب نظر آئیں
کیسے نہ معطّر ہو سراپائے نفس رازؔ
نکہت ہے ندامت کی رگِ دیدۂ تر میں
وہ روایت سے بہت عمدہ اور خاص اپنے انداز سے استفادہ کرتے ہیں۔ مثلاً نمک کے استعارے کو جس جس طرح انھوں نے استعمال کیا ہے وہ پڑھنے سے تعلّق رکھتا ہے۔ ایک پھول کے مضمون کو کئی رنگ میں باندھنے کا مزہ آتا ہے۔ وہ دریا اور سمندر کے مضامین میں نئے نئے پہلو تلاش کرتے ہیں۔ ان کی کئی تراکیب ایسی ہیں جنھیں وہ ندرت کے ساتھ استعمال کرتے رہتے ہیں جیسے عروسِ غم، عروسِ زیست یا روشنی کی تراکیب جیسے قامت کی ضیا، ضیائے زندگی، قناعت کی ضیا، ندامت کی ضیا وغیرہ۔ یہ تراکیب اور ان سے جو ابلاغ ہوتا ہے وہ ان کی سوچ اور ان کے شعر کے جمالیاتی رنگ کو ظاہر کرتا ہے۔
۔ شبنم کا گہر ریز بدن تا دمِ آخر
انوارِ سحر گھولتا رہتا ہے سحر میں
۔ فطرت کے خدوخال بھی آنکھوں پہ کھلیں گے
ہاں پہلے مگر زلفِ گرہ گیر کھلے گی
۔ سکوتِ لب نہیں ہے رازؔ تو پھر
جمالِ گرمیٔ گفتار ہے کیا
رنگ رنگ کے مضامین شاعری میں باندھنا کوئی کھیل نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جمالیات کو ہاتھ سے جانے نہ دینا، ایک اور پل صراط پہ چلنے کے مترادف ہے۔ آپ نے ان کے کسی بھی مجموعۂ کلام کا مطالعہ کیا ہو تو آپ میری اس بات سے اتّفاق کریں گے کہ آج کے دور میں ایسا استادانہ کلام ملنا آسان نہیں جو بیک وقت مشقِ سخن کا ایسا جاندار ثبوت ہو، فکر اور اظہار کی پختگی اور مضامین کی ندرت بھی رکھتا ہو اور ساتھ ساتھ جمالیات سے بھرپور بھی ہو۔ مضامین کی یہ ندرت ان کے کلام کا ایک مجموعی تاثر ہے۔ مانوس اسالیب میں مانوس مضامین ایک عام بات ہے مگر ان میں نئے نئے مضامین نکالنا مشکل کام ہے۔ ’’ابھی کپڑے بدن پر ہیں‘‘ ان دعووں کی ایک اور دلیل ہے۔ ہم اس وقت اپنے اطراف اسکولوں اور دیگر مقامات پر جن آزمائشوں سے گزر رہے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، ان کے اندیشوں کا بھرپور خلاصہ ان کا یہ شعر ہے
ابھی کپڑے بدن پر ہیں ابھی انسان باقی ہے
بشکلِ پیرہن یہ آخری پہچان باقی ہے
یہاں میں یاد دلاتا چلوں کہ راز صاحب نے غالب کی زمینوں میں دو سو غزلیں کہی ہیں جو ان کے مجموعے ’’بر بساطِ غالب‘‘ میں شامل ہیں۔ ان غزلوں کو نظر میں رکھیں تو ہمیں ان کے ہاں روایت کے رنگ ملتے ہیں اور بہت نکھار کے ساتھ ملتے ہیں مگر راز صاحب ماضی میں رہنے والے نہیں ہیں سو یہ جو روایت کی نیرنگی ان کی گھٹّی میں پڑی ہے وہی ان کے کلام کو جدید رنگ میں بھی سنوارتی ہے۔ ان کے ہاں آج کی دنیا کے مشاہدات، تجربات اور خیالات و نظریات جابجا ملتے ہیں کیونکہ وہ مستقبل پر نظر رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ دیکھیں
۔ ہمیں بیدار رہنا ہے سو زخموں پر نمک چھڑکیں
یہ لفظوں سے بنے مرہم مرے سرکار رہنے دیں
۔ ہے نزولِ ضعفِ پیہم مہر کی تنویر میں
میں پرانا ہو رہا ہوں ہر نئی تصویر میں
رفیع الدین راز نئی نسل کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں اور قدر بھی بلکہ وہ نوجوانوں کو اس دور کا رہنما مانتے ہیں۔ ان کی شاعری محض جمالیاتی حس کی تسکین کی شاعری نہیں ہے بلکہ یہ ہمیں اچھا انسان بننے کی ترغیب بھی دیتی ہے۔ ان کے ہاں شعر میں پیغام تو ہے مگر وہ اتنا ابہام رکھتے ہیں کہ ادھ کھلی گرہ کا لطف اپنی جگہ رہے اور شعریت پوری طرح قاری اور سامع کے ساتھ انصاف کرے۔ کچھ مثالیں دے کر میں اجازت چاہوں گا۔ آپ ان میں مضامین کی پرواز اور استعاروں سے لطف اُٹھائیے:
۔ مزاجِ اہلِ سخن میں بہ رنگِ حسنِ غزل
طلسمِ لذّتِ ابہام چھوڑ آیا ہوں
۔ محبت ہو تو پھر خوئے جنوں پرور نہیں جاتی
کبھی پتھر کو تنہا چھوڑ کر ٹھوکر نہیں جاتی
۔ ہے گراں تر زندگی کا بوجھ، اس کے باوجود
شانۂ ہستی کو کچھ بارِ دگر بھی چاہیے (بارِ دگر کا استعمال دیکھیے)
۔ رنگ و خوشبو کے تبسّم سے نکھر اٹھتا ہے دشت
آبلے اشعار جب لکھتے ہیں نوکِ خار سے
۔ تھی گرد تو آئینے کے چہرے پہ بھی لیکن
تصویر کا ہر رخ کہاں ہوتا ہے نظر میں
۔ آنکھوں کے سامنے سے وہ تصویر کیا ہٹی
اس گھر کے سارے آئنے ویران ہوگئے
۔ کچھ اس ادا سے اس نے چھڑایا تھا اپنا ہاتھ
اپنے قریب بھی میں دوبارہ نہیں گیا
۔ وسعتِ زنجیرِ پا سے اتنی آگاہی تو ہے
جانتا ہوں کتنے حلقے ہیں مری زنجیر میں
۔ تیز چلنے کے سوا چارہ نہیں ہوتا کوئی
وہ بڑھا دیتا ہے اکثر وقت کی رفتار کو
۔ دوسروں کو اجال دیتی ہے
روشنی خود نظر نہیں آتی
(
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں