کھمبے/محمود اصغر چوہدری

سہیل وڑائچ پہلے شخص نہیں ہیں جنہوں نے اوورسیز پاکستانیوں کو کَس کے جوتا رسید کیا ہے بلکہ ان کے علاوہ دیگر صحافی اور سیاستدان بھی ایسا کرتے رہتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ بیرون ملک موجود ان کی جی حضوری کرنے والوں میں کمی آہی نہیں سکتی ۔تماشائے ذات کی تسکین کی خواہش اوورسیز کو ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی کر دے گی۔

موصوف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سمندر پار پاکستانی ہمیں پاکستان چلانے کے مشورے نہ دیں بلکہ انہیں ہم نے پیسے کمانے کیلئے باہر بھیجا ہے،بس وہ وہی کام کریں اس بیان کے بعد انہوں نے ایک قہقہہ لگایا ہے اور اس قہقہے کے بعد سننے والوں کا بھی ایک قہقہہ بپا ہوا ہے ۔۔

سہیل وڑائچ یہ قہقہہ لگا سکتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ان کے ساتھ فوٹو کھنچوانے کی حسرت میں کئی اوورسیز پاکستانی گھنٹوں ان کا انتظار کرتے ہیں ۔موصوف کی گرمیوں کا زیادہ وقت برطانیہ یورپ اور دیگر ممالک میں سیاحت سے لطف اندوز ہوتے گزرتا ہے اور یہ سارے سفر وہ اپنی جیب سے نہیں کرتے بلکہ ناشتہ تک اوورسیز پاکستانیوں کے جیب سے کرتے نظر آتے ہیں ۔

سہیل وڑائچ سے میری پہلی ملاقات مانچسٹر میں ایک پروگرام میں ہوئی ۔ میں نے سمندر پار مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کے بارے سوال کیا تو موصوف بولے کہ وہ سمندر پار مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کے حق میں نہیں ہوں ۔ میں نے کہا لیکن آپ ان کے زرمبادلہ وصول کرنے کے حق میں تو ہیں ۔ میرے اس جوابی سوال پر بظاہر بڑے مہذب لہجے میں گفتگو کرنے والے سہیل وڑائچ بڑے برہم ہوگئے اور غصے میں کہنے لگے دنیا کا کون سا ملک بیرون ملک مقیم شہریوں کو ووٹ کا حق دیتا ہے ۔ وہ غصے میں آئے تو میرے ہی ساتھ کھڑے کیمرہ مین صحافی بجائے میرا ساتھ دینے کے سہیل وڑائچ کی جی حضوری کیلئے قہقہہ لگانا شروع ہوگئے ۔

میں نے نہایت ادب سے گذارش کی کہ آپ جیسے بڑے صحافی سے اس قسم کی کم علمی کی توقع  نہیں تھی آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ دنیا میں سو کے قریب ایسے ممالک ہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے بیرون ملک شہریوں کو ووٹ کا حق دیتا ہے ۔ فرانس وہ ملک ہے جو کوئی شرط ہی نہیں رکھتا اور اٹلی تو بیرون ملک شہریوں کو باقاعدہ پارلیمنٹ کا ممبر بناتا ہے ۔ میری بات سن کر موصوف کا رنگ سرخ ہوگیا اور ان کے لہجے سے تہذیب رخصت ہوئی اور غصے سے انٹرویو چھوڑ کر باہر نکل گئے ۔

یہ صحافی ، یہ سیاستدان اور پاکستان سے آئے ہوئے یہ بیوروکریٹ نجی محفلوں میں ہمارا جس طرح مذاق اڑاتے ہیں وہ کوئی نہیں بات نہیں ہے اب سوشل میڈیا کی برکات سے ان کی ایسی بکواسیات باہر آجاتی ہیں اور وہ وضاحتیں دینا شروع  ہو جاتے ہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ سمندر پار مقیم پاکستانیوں کے دل میں سیلفی اور ان کے ساتھ فوٹو کی شدید خواہش ہی انہیں متکبر بنا تی ہے ۔ سمندر پار مقیم پاکستانیوں میں میزبانی کا و ہ جنون ہوتا ہے کہ یہ پاکستان سے آنے والے مہمانوں کو ائیر پورٹ سے ہی اغوا ء کرتے ہیں اور ان کے لئے ناشتوں ، ظہرانوں اور اعشائیوں کا وہ اہتمام کرتے ہیں کہ اتنی خاطر تواضع دیکھ کر یہ لوگ ہم سے خوش نہیں ہوتے بلکہ یقین کر لیتے ہیں کہ یہ سمندر پار مقیم پاکستانی انتہائی بے وقوف اور شہرت کے بھوکے ہیں ۔ وہ ایسا کیوں سوچتے ہیں ؟ کیونکہ ان کے میزبانوں میں سے اکثر ایسے بھی ہوتے ہیں جنہوں نے ان کا ایک کالم ، ایک لائین تک نہیں پڑھی ہوتی ان کا رجحان کیا ہے ، ان کا نظریہ کیا ہے اوورسیز پاکستانیوں کے بارے ان کی رائے کیا ہے۔ میزبان کو کچھ پتہ نہیں ہوتا ۔ ہماری جی حضوری دیکھ کر یہ صحافی یہ سیاستدان یہ بیوروکریٹ اپنے آپ کو دانشور سمجھ لیتے ہیں ہمار ا مطالعہ چونکہ ہوتا نہیں ا سلئے وہ سمجھتے ہیں کہ جو بھی بونگی ماریں گے لوگ قہقہہ ہی لگائیں گے

پاکستان سے ہی آئے ایک اور صف اول کے صحافی سے میری جب اس بات پر بحث ہوئی کہ رومیو جیولیٹ ایک فرضی کہانی ہے اور شکسپئیر کبھی ویرونا اٹلی نہیں گیاتو وہ غصے سے لال پیلے ہوگئے اور جب وہ مجھے جھوٹا ثابت کر رہے تھے اس وقت میرے اردگرد کھڑے صحافی پچھتا رہے تھے اور میرے بارے میں ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے اس کو بڑا شوق ہے اپنی علمیت جھاڑنے کا اس کو خوامخواہ اتنے بڑے صحافی سے ملایا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسے ہی پاکستان سے آئے ایک اور دانشور ایک نجی محفل میں اپنی علمیت جھاڑتے ہوئے فرما رہے تھی کہ پنجابی کبھی لڑہی نہیں سکتا ۔ اس نے آخری لڑائی راجہ پورس کے زمانے میں لڑی تھی اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجابی دھوتی پہنتا ہے ۔ اس کے بعد اس نے ایک قہقہہ لگایا اور حیرت کی بات ہے سب پنجابی اس کی بات پر قہقہہ لگا رہے تھے ۔ مجھے ہنسی بالکل نہیں آئی ۔ مجھ سے رہا نہیں گیا ۔میں نے کہا جناب تھوڑا تاریخ پر نظر دوڑائیں اور جا کر دیکھیں کہ موہنجودوڑواور ہڑپہ پنجاب میں نہیں ہیں ۔ لیکن وہاں کے پانچ ہزار سالہ پرانے کھنڈرات اور آثار قدیمہ میں سے جو چیزیں نکلیں ان میں سے ایک بھی تلوار نہیں ہے ۔ اس کا مطلب ہے صرف پنجاب نہیں بلکہ اس تمام خطے کے لوگ امن پسند تھے ۔ میرا جواب سن کر موصوف کی ہنسی غائب ہوگئی اوروہ غصے سے پاؤں پٹختے باہر نکل گئے
پاکستان سے آئے سیاستدانوں اور صحافیوں کے بعض میزبان تو اتنے بھولے ہوتے ہیں کہ وہ میٹنگ میں موجود مہمانوں کو کہہ دیتے ہیں کہ میزبان سے کوئی سیاسی سوال نہیں کرنا مبادا کہ ان کے نازک دل پر گراں نہ گزرے ۔ اگر ہم اسی طرح ان دانشوروں، سیاستدانوں ، اور بیوروکریٹس کی جی حضوری کرتے رہیں گے تو یہ ہمارے ساتھ یہی سلوک کریں گے ۔ جو گلی میں گھومنے والے جانور کھمبے کے ساتھ کرتے ہیں کوئی جانور اس کھمبے کے ساتھ اپنی کمر کھجاتا ہے ۔ کوئی اس کھمبے کے ساتھ ٹانگ اٹھا کر اپنا کام کر دیتا ہے ۔۔ ہمیں خود بتانا ہوگا کہ ہم کھمبے نہیں ہیں ۔ ہم بے وقوف اور سادے بھی نہیں ہیں اگر ہم آپ پر خرچ کرتے ہیں تو یہ ہماری مہمان نوازی ہے ۔ اور ہاں ہم جاہل بھی نہیں ہیں کہ آپ کے بیانات کو سمجھ نہ سکیں

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply