نیلسن منڈیلا اور بہت سے دوسرے مفکرین یہ بتاتے ہیں کہ بچے نسلی تعصب سے پاک ہوتے ہیں ، وہ جلد کی نگت دیکھ کر فیصلہ نہیں کرتے
میں خود اسی فکر کو مانتا آیا تھا لیکن پچھلے دنوں ایک تحقیقی دستاویز نظر سے گزری جس نے اس من پسند تصوراتی محل کو مسمار کردیا. دستاویز میں بہت سے سیاہ فام اور سفید فام بچوں سے سوالات کئے گئے۔ بچوں کی عمر پانچ سے بارہ سال کے درمیان تھی. ان سب کو ایک ایک کرکے بلایا گیا اور ان کے سامنے دو گڑیایں رکھی گئیں، دونوں گڑیاؤں کے خد و خال بالکل ایک جیسے تھے مگر ایک کی رنگت سفید تھی اور دوسری کی سیاہ۔
ان بچوں سے انفرادی سطح پر تنہائی میں باری باری کچھ سوالات کئے گئے جیسے وہ کون سی گڑیا رکھنا چاہتے ہیں؟ ان میں سے کون سی گڑیا اچھی ہے اور کون سی بری ؟ کون سی گڑیا نیک ہے اور کون سی مجرم ؟ کون سی گڑیا ذہین ہے اور کون سی احمق ؟
دل توڑنے والا انکشاف یہ تھا کہ تمام سیاہ فام اور سفید فام بچوں نے سیاہ گڑیا کو برا، مجرم اور احمق کہا جب کہ سفید گڑیا کو اچھا، نیک اور ذہین قرار دیا۔
جب پوچھا گیا کہ ایسا کیوں ؟ تو جواب ملا کہ گڑیا کی جلد، بالوں اور آنکھوں کا رنگ اسے اچھا یا برا بناتا ہے پھر پوچھا گیا کہ وہ کون سی گڑیا جیسا بننا چاہتے ہیں؟ تو سب بچوں کا تنہائی میں انفرادی جواب سفید گڑیا کے حق میں تھا۔
جب بچوں نے سیاہ گڑیا کو برا، خراب، مجرم وغیرہ کہہ دیا تو صرف سیاہ بچوں سے ایک ایک کرکے اکیلے میں پوچھا گیا کہ وہ خود کو کون سی گڑیا جیسا دیکھتے ہیں؟ تو سیاہ بچوں نے شرم سے سر جھکا کر سیاہ گڑیا کی طرف اشارہ کیا۔
میرے اپنے لئے یہ بہت ہی اداس کرنے اور چونکا دینے والا انکشاف تھا، یعنی نسلی تعصب بچپن میں ہی بچوں کے ذہن میں آجاتا ہے؟
اس دستاویز پر کافی سوچتا رہا اور بہت سوچنے کے بعد اسکی جو توجیہہ سمجھ آئی وہ یہ ہے کہ انسان روشنی کو پسند کرتا ہے اور اندھیرے سے گھبرا جاتا ہے۔ اس حقیقت کا مشاہدہ بچے بہت کم عمر میں ہی کرلیتے ہیں، وہ کسی بھی اندھیری جگہ پر جانے سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔ اندھیرا چونکہ سیاہ ہوتا ہے غالباً اسی لئے وہ سیاہ فام رنگت کے بارے میں منفی گمان قائم کرلیتے ہیں، یہ تجربہ سیاہ فام بچوں کو بھی ہوتا ہے لہٰذا انکا نتیجہ بھی رنگت کے اعتبار سے سفید کے حق میں اور سیاہ کی مخالفت میں نکلتا ہے،اندھیرے میں کیونکہ انسان کو کچھ نظر نہیں آتا اور اسکی بنیادی صلاحیتیں معطل ہو جاتی ہیں چنانچہ ایسے میں گھبراہٹ طاری ہونا عین فطری ہے۔
یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ اگر اس پسند ناپسند کی بنیاد اندھیرے کے جبلی خوف پر ہے تو پھر یہ رویہ دوسری اشیاء کے بارے میں کیوں نظر نہیں آتا؟ مثال کے طور پر اگر گڑیا کی جگہ سفید اور کالی کھلونا گاڑی رکھ دی جائے تو نتیجہ یقیناً مختلف ہوگا. پھر سمجھ آیا کہ بچے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں کہ گاڑی مختلف رنگوں کی ہوتی ہیں جیسے سرخ، سبز، کالی، سفید وغیرہ لہٰذا وہ اندھیرے کے اس خوف کا اطلاق ان اشیاء پر نہیں کرتے. یہ ان کے لئے محض چیزیں ہیں، جبکہ گڑیا کی شکل میں وہ اپنے وجود کو دیکھتے ہیں۔
اب تواس پر بھی شک ہونے لگا ہے کہ ‘حسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے’ ، یہ بات انفرادی یا ایک محدود درجہ میں تو درست ہوسکتی ہے مگر عمومی و مجموعی مشاہدہ اس کی نفی کرتا ہے۔ لہٰذا کوئی چینی اپنی دبی ہوئی چھوٹی آنکھوں کو حسن نہیں سمجھتا اور نہ ہی دنیا میں کوئی اور اسکی گواہی دیتا ہے. کوئی افریقی موٹے لٹکے ہونٹوں کو حسن کی معراج نہیں کہتا اور نہ ہی دنیا میں کسی اور کو ایسا گمان ہوتا ہے۔ کوئی جاپانی چھوٹے ناٹے قد کو خوبی نہیں بتاتا اور نہ ہی دنیا میں دیگر افراد کو کوئی ایسا مغالطہ ہوتا ہے۔ہاں اگر انفرادی طور پر کسی کی طبیعت عمومی رویہ کے برخلاف مائل ہوجائے تو اسے استثنا سمجھا جائے گا لیکن عمومی نتیجہ عمومی رویہ کو دیکھ کر ہی اخذ کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال یہ موضوع نہیں تھا بلکہ موضوع وہ نسلی تعصب تھا جو بچے بچپن میں ہی اپنا لیتے ہیں۔ باقی رہی بات یہ کہ پھر حسن راقم کی دانست میں ہے کیا ؟ تو وہ پچھلی پوسٹ میں بیان کردیا ہے۔
ساتھ ہی یہ دھیان رہے کہ مندرجہ بالا مضمون میرا ذاتی احساس ہے جو الفاظ کی صورت لے کر یہاں درج ہوگیا. اس میں یقیناً غلطی کا احتمال ہے اور قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی رائے اپنے غور و تدبر سے قائم کریں. ممکن ہو تو مجھے بھی مستفید کریں.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں