پہلی قسط کا لنک
کٹاس راج کمپلیکس
طرزِ تعمیر ؛
اس پورے کمپلیکس میں ستگرہ (سات قدیم مندروں کا مجموعہ)، ایک بدھسٹ اسٹوپا کی باقیات، قرون وسطی کے پانچ دیگر مندر، ہندؤو ں کا مقدس تالاب اور اس کے ارد گرد بکھری ہوئی حویلیاں شامل ہیں۔ ستمبر 1948 میں ہونے والی قیامت خیز بارشوں نے کمپلیکس کو کافی نقصان پہنچایا تھا۔ ہم پوِتر تالاب کو کمپلیکس کا مرکز مانتے ہوئے مشرق سے مغرب فرداً فرداً ان سب مندروں کا جائزہ لیں گے۔
ہَوَن کُنڈ/بارہ دری/ گردوارہ؛ یہ تالاب کے مشرق میں واقع ایک بارہ دری ہے جو چبوترے پر بنائی گئی ہے۔ اس کی تعمیر رنجیت سنگھ کے دور میں ہوئی جس میں پتھر سمیت دالوں کا استعمال کیا گیا تھا۔
مؤرخ اقبال قیصر جی نے اپنی مشہور کتاب، پاکستان میں تاریخی سکھ عبادت گاہیں، میں کٹاس راج میں ”گوردوارہ پہلی پاٹ شاہی” کا حوالہ دیاہے۔
اگرچہ مصنف اس گردوارے کے مقام کا تعین کرنے سے قاصر رہے ہیں، لیکن سکھ تاریخ پر تحقیق کرنے والے ”مرزا صفدر بیگ” صاحب کا ماننا ہے کے یہ بارہ دری ہی اصل میں ماضی کا سکھ گردوارہ ہے۔
پٹیالہ کے دِنا سنگھ (جنہوں نے 1930 سے 1934 تک اپنے کیمرے کے ساتھ سائیکل پر گردواروں کا دورہ کیا اور انہیں ایک ڈائری میں ریکارڈ کیا) لکھتے ہیں کہ:
بابا گرونانک کی یہ زیارت گاہ پہلے سوتھرا شاہی (اُداسی سے مشابہ ایک ہم آہنگ فرقہ) کے قبضے میں تھا جنہوں نے اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کی کمی کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا۔ اب دھرمسال (نومبر 1933 میں) لال سنگھ، دلیپ سنگھ اور سورت سنگھ کے کنٹرول میں ہے جو بھائی متی داس (کریالہ گاؤں، ضلع چکوال کے) کی اولاد ہیں”
موجودہ بارہ دری کے بارہ دروازوں میں سے کچھ کو کھلا چھوڑا گیا ہے جبکہ کچھ پہ لکڑی کے دروازے لگائے گئے ہیں۔ چھت پہ ایک گنبد ہے۔ اس کی دیواریں تو پرانی ہی ہیں لیکن لکڑی کے دروازے اور فرش نیا بنایا گیا ہے۔ اندرونی کمرے کی دیواروں اور گنبد پہ نقش و نگار دیکھے جا سکتے ہیں جو زیادہ پرانے نہیں ہیں۔
محکمہ اوقاف کو چاہیئے کہ اس جگہ پر تحقیق کر کے گردوارے کا پتہ چلائے اور اسے گردوارے کے نام سے موسوم کرے ۔
شیو مندر؛
بارہ دری کے مشرقی چبوترے پر شیو مندر واقع ہے جس میں یہاں کا قدیم ”شیو لِنگ” رکھا گیا ہے۔ روایت کے مطابق یہ زمین سے نکلا ہے اور تقریباً پانچ ہزار سال پرانا ہے۔
پاکستان میں تین قدیم شیو لنگ ہیں جو کٹاس کے علاوہ مانسہرہ کے چٹی گھاٹی مندر اور سکھر کے سادھو بیلا مندر میں رکھے ہیں۔ اِس کے دیگر حصے نیپال، سری لنکا اور بھارت میں موجود ہیں۔ ہندو زائرین اسے دودھ، عرقِ گلاب اور دہی سے نہلا کر تلک لگاتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں۔ شیو لنگ کے سامنے نندی کی مورتی رکھی گئی ہے۔ نندی ایک بیل ہے جسے شیو یعنی بھولے ناتھ کی سواری بھی کہا جاتا ہے۔ اسی مندر میں شیشے کے بکسوں میں دیگر بھگوانوں کی مورتیاں، تصاویر، آرتی کا سامان اور دیپک بھی رکھے گئے ہیں۔
شری رام چندر مندر؛
تالاب کی مغربی سمت دو منزلہ قدیم رام مندر واقع ہے۔ نچلی منزل پہ مختلف جہتوں کے آٹھ کمرے ہیں اور جنوب میں پہلی منزل تک جانے والی سیڑھیاں ہیں۔ منڈیر میں دو جھروکے (بالکونیاں) ہیں جو بس گرنے کی حالت میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کے یہ دو ہزار سال سے بھی زیادہ پرانا ہے اور پتھر و چونے سے بنایا گیا ہے۔
راما چندر مندر کے احاطے میں ایک پتھر کا چبوترہ ہے جو سکھوں کے جھنڈے، نشان صاحب کے چبوترے سے ملتا جلتا ہے،
مرزا صفدر بیگ صاحب کے مطابق اس مندر کی زمینی منزل میں ہندو فن تعمیر ہے جس میں دیوتاؤں کی مورتیوں کے لیے متعدد مقامات شامل ہیں۔ تاہم، اوپری منزل پر موجود کمرے کے 4 دروازے تھے، گوردوارے کی طرح ہر سمت میں ایک۔
اس کے تین دروازے اب بند کر دیئے گئے ہیں۔ اس خطے میں جہاں ہندو اور سکھ ایک اقلیت تھے، تو کبھی کبھی وہ مشترکہ جگہ عبادت کر لیتے تھے جیسے یہاں نیچے مندر اور اوپر گردوارہ ہو سکتا ہے۔
کیونکہ آج کل یہ جگہ استعمال میں نہیں ہے سو موجودہ حالت ناقابلِ بیان ہے۔ اوپری منزل کے جھروکوں میں پرانے نقش و نگار دم توڑتے نظر آتے ہیں جبکہ نچلی منزل کی دیواروں پر پاکستانی جوڑوں کی محبت کی داستانیں رقم ہیں۔ بیرونی دروازے کی محراب میں لال پتھر استعمال کیا گیا ہے۔
ہنومان مندر؛
یہ رام مندر کے جنوب میں اونچائی پر واقع ہے جو اب بھی پاجا کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مندر کو چوبیس سو سال پرانا بتایا جاتا ہے جس کی خاص بات اسکا فریسکو اور باہر بنی محرابیں ہیں۔ مرمت شدہ اندرونی کمرے میں بھگوان ہنومان کی مورتی رکھی ہے جس کے آس پاس دیواروں پر قدیم نقش و نگار کو دوبارہ سے تازہ کیا گیا ہے۔ ان میں انسانوں مختلف جانوروں کی اشکال کو واضح طور پہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اندرونی گنبد پہ نقش و نگار کو بھی دوبارہ سے تازہ کیا گیا ہے۔ مرکزی کمرے سے باہر والے کمرے میں قدیم فریسکو کا کام اب بھی قدرے بہتر حالت میں موجود ہے جو لگ بھگ سن گیارہ سو میں کیا گیا تھا۔ اِسے وال چاکنگ سے بچانے کے لیئے بند رکھا جاتا ہے۔ مندر کے باہر سنگِ مرمر کے فرش پہ پرانی طرز کی خوبصورت محرابیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ مندر قدیم و جدید آرٹ کا حسین امتزاج ہے۔
بُدھ سٹوپا؛
ہنومان مندر کے جنوب مغربی میدان میں ایک سٹوپے کے آثار ملتے ہیں۔ یہ غالباً وہی سٹوپا ہے جس کا ذکر چینی سیاح نے کیا تھا۔ آج کل اسے چار دیواری میں محفوظ کیا گیا ہے۔ جارج کننگھم نے یہاں بعض ایسے مندروں کے آثار بھی دیکھے جو مانکیالہ کے سٹوپوں جیسے تھے لیکن وہ یقین سے نہیں بتا سکا کے آیا یہ بودھوں کے سٹوپے تھے یا نہیں۔
قلعہ و حویلی ہری سنگھ نلوہ؛
کٹاس راج میں رام مندر کے مغربی جانب ایک چھوٹی پہاڑی پر ہری سنگھ نلوہ (سکھ خالصہ فوج کا کمانڈر) کے دور میں ایک قلعہ نما حویلی تعمیر کی گئی تھی جسے رہائش کے ساتھ ساتھ دفاعی مقاصد کے لیئے استعمال کیا جاتا تھا۔
اونچائی پہ ہونے کے باعث یہاں سے مندروں پر با آسانی نظر رکھی جا سکتی تھی۔ مستطیل عمارت کے چاروں کونوں پہ بُرج بنائے گئے ہیں۔ قلعہ کے مرکزی حصے میں ایک چھوٹا صحن ہے، جس کے ارد گرد ایک محرابی برآمدہ اور کمرے ہیں۔
اندرونی کمروں کی لکڑی کی چھت، صحن و کمروں کا فرش اور رنگ روغن سب نیا کیا گیا ہے تاکہ اس جگہ قدامت کا کوئی سراغ نہ لگایا جا سکے۔
کسی دور میں یہاں ایک عجائب گھر بنایا گیا تھا لیکن ایک سابقہ چیف جسٹس نے اپنے دورے پر اسے ختم کرنے کا حکم دیا کہ عجائب گھر کی الماریوں اور مصنوعی چھجوں کی وجہ سے اس عمارت کا اصل حسن متاثر ہو رہا تھا۔
یہ قلعہ آج کل بند رہتا ہے لیکن گائیڈ کو ”مٹھائی” دے کے کھلوایا جا سکتا ہے۔
سَتگرہ؛
قلعے کے مغرب میں کمپلیکس کا آخری حصہ ”سَتگرہ” یا ”سَت گڑھ” ہے جو سات مندروں کا مجموعہ ہے۔ روایت ہے کہ یہ مندر پانڈوؤں نے اپنے بن باس کے دوران تب تعمیر کیئے تھے جب وہ کورؤں سے شکست کھا کر یہاں رہ رہے تھے۔ یہ مجموعہ ایک پہاڑی پہ واقع ہے جن میں سے دو کے صرف آثار باقی ہیں۔ پانچ مندروں میں سے درمیان والا سب سے بڑا ہے جبکہ قدیم اور منفرد طرزِ تعمیر کا حامل مندر اس کے شمال میں ہے۔ یہ طرز تعمیر کشمیر کے ورما شاہی خاندان (625 تا 939ء) کے زمانے میں رائج تھا۔
اِن سات مندروں کو کشمیری مندروں کی طرح تراشیدہ پتھروں سے بنایا گیا تھا جن کی چنائی چونے سے کی گئی۔ شِکن دار ستونوں، خوبصورت محرابوں اور نوکیلی چھتوں سے آرائش کا کام لیا گیا تھا۔ ان کے منفرد نقش و نگار اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
یہاں تالاب کے پاس مختلف کوٹھیاں و محرابی کمرے بھی ملتے ہیں جو ماضی میں یہاں رہنے والے پجاریوں کی رہائش گاہیں ہو سکتی ہیں۔
کمپلیکس کے اندر موجود مقامات کا ذکر ختم ہوا اب ہم سڑک کی دوسری جانب چلتے ہیں جہاں پانڈوؤں کی غاریں اور دیگر نئے پرانے، چھوٹے مندر موجود ہیں۔
پانڈؤں کی غاریں؛
یہ غاریں مندر کمپلیکس کے باہر سڑک کے دوسری جانب ریسپشن کے پاس ایک پہاڑی میں واقع ہیں جنہیں پانڈؤں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ غور سے دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کے یہ غار انسانی ہاتھوں کا کام نہیں ہے بلکہ ہزاروں سال کے قدرتی عمل سے وجود میں آئے ہیں۔ چونکہ دور دراز کی گفائیں سادھوؤں اورمذہبی عالموں کی پسندیدہ جگہ رہی ہیں سو غالب گمان ہے کہ انہیں مراقبے یا عبادت کے لیئے استعمال کیا جاتا ہو گا۔

حوالہ جات ؛
پاکستان کے آثارِ قدیمہ (شیخ نوید اسلم)
تاریخِ چکوال (اجمل خان نیازی)
The Forgotten Gurdwara ; Guru Nanak At Katas Raj, Pakistan (Inderjeet Singh) May 2022.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں