سکرانے کا     ”سر کڈھ“کیانی۔۔۔ فیصل عرفان فیصل

تاریخ کی اکثر کتابوں میں کیانی یا گکھڑ”ڈانگ مار“مشہور ہیں اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے،لیکن سکرانہ کلر سیداں کے ہمارے بزرگ دوست،شاعر،محقق اوربراڈ کاسٹر یاسر کیانی بالکل بھی ”ڈانگ مار“ نہیں،لیکن یہ بات ضرور ہے کہ بظاہر انتہائی شریف،سادہ مزاج اور معصوم دکھائی دینے والے ہمارے اس دوست نے پوٹھوہاری زبان و ادب کی خدمت کا جھنڈا کچھ اس انداز سے بلند کیا ہوا ہے کہ مخالفین کا ہر وار یہ اپنی چھاتی پر برداشت کر رہا اور دائیں بائیں سے ہونے والے ہر حملے کا منہ توڑ جواب دیتا ہے۔
یاسر محمود کیانی 23اگست 1963کو سکرانہ میں شیر زمان کیانی المعروف باوافقیرشیر زمان مرزاکے گھر پیدا ہوئے،باوافقیرشیر زمان مرزا پوٹھوہار کے بڑے صوفی شاعر تھے جن کا کلام خطہ پوٹھو ہار اور آزادکشمیر بھر میں بیت کے عشاق ذوق و شوق اور محبت و عقیدت سے گاتے اور سنتے ہیں،آپ کی پیروی میں ایک کثیر تعداد میں شعرا ء نے لفظ”فقیر“ تخلص کیساتھ استعمال کیا،لوگ عقیدتاََ آپ کو باوا فقیر مرزا سرکار علیہ رحمت کے نام سے یاد کرتے ہیں،تمام شعر خوان حضرات نے آپ کو گایا، بے شمار لوگوں کو آپ کے ابیات زبانی ازبر ہیں،معروف شعر خوانوں راجہ عابدآف مانکراہ،باوا محمد رزاق،چوہدری اکرم گجر، راجہ ابراہیم، صدیق اعوان، صوفی عارف و دیگر نے بہت محبت اور عقیدت سے آپ کے ابیات گائے،یاسر کیانی نے فقیر باوا جی شیر زمان مرزا کا کچھ کلام 2003 میں ”عشق رمزاں“کے نام سے مرتب کیا، اپنے والد گرامی سے عقیدت ومحبت کے باعث پوٹھوہاری زبان کی رائج الوقت ترتیب دی گئی پٹی کوانہی کے نام سے منسوب کرتے ہوئے”زمانی پٹی“کا نام دیا۔
بی اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعدیاسر کیانی نے شہری دفاع(سول ڈیفنس) راولپنڈی میں بطور ریسکیوئرملازمت کا آغاز کیا تو لفظوں کیساتھ ساتھ بموں اور بارودی مواد سے بھی کھیلنے لگے،شہری دفاع میں ملازمت اور بم ڈسپوزل سکواڈ راولپنڈی کے اہم رکن کے طور پر پیشہ ورانہ ضرورت کے تحت متعدد بار اپنی جان پر کھیل کر بموں کو ناکارہ بنایا اور کسی انسانی جانیں بچائیں،مختلف ہنگامی حالات بم دھماکوں،سیلاب اور مشکل میں پھنسے لوگوں کو جان کی پرواہ کیے بغیر ریسکیو کیا،اسی طرح محکمہ سول ڈیفنس پنجاب کی نمائندگی کرتے ہوئے راولپنڈی سٹیشن پر بطور انسٹرکٹر، انسپکٹر، ایمرجنسی آفیسر اور فوکل پرسن فرائض انجام دیے،اس آل راونڈ اعلی کارکردگی پرحکومت پاکستان نے انہیں 2009ء میں ”تمغہ امتیاز“سے نوازا۔50سال کی عمر میں یکم مارچ 2014ء کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔
گذشتہ کئی دہائیوں سے تقریباََ روزانہ کی بنیاد پرسکرانہ(کلر سیداں) سے موٹر سائیکل پر راولپنڈی کا سفر کرنا معمول رہا،اب بھی پوٹھوہاری پروگرام کیلئے ریڈیو سٹیشن راولپنڈی آتے ہیں مگر مجال ہے جو کبھی خیال بھی آیا ہو مستقل بنیادوں پر راولپنڈی منتقل ہونے کا،بچیوں کا تعلیمی سلسلہ بھی راولپنڈی اسلام آباد سے جاری رہا لیکن کبھی اپنا گھر،اپنا گاؤں اپنا علاقہ چھوڑنے کاتصور بھی نہ کیا۔
شیر زمان مرزا پوٹھوہاری پرہیوں اورادب اکادمی پوٹھوہارکے ناموں سے پوٹھوہاری ادبی تنظیمیں قائم کیں اورانہی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے شیر زمان مرزا پوٹھوہاری ادبی ایوارڈ کا اجزاء کیا اوروالد گرامی کی برسی پر50کے لگ بھگ پوٹھوہاری ادبی شخصیات کوشیر زمان مرزا پوٹھوہاری ادبی ایوارڈ دیئے جن میں راجہ انور،افضل پرویز،ڈاکٹر رشید نثارمرحوم،شیراز طاہر،دلپذیر شاد مرحوم،اختر امام رضوی مرحوم،سید حبیب شاہ بخاری،طارق ملک مرحوم،شاہد لطیف ہاشمی،عظمت مغل،عابد جنجوعہ ودیگر شامل ہیں،سنگی رسالہ کے زیر اہتمام دینہ میں پوٹھوہاری زبان کانفرنس کی نظامت کی،پوٹھوہاری ادبی رسالہ”پراء“کا نام بھی انہی کا تجویز کردہ ہے،لسانی اعتبار سے رسالے کے ایڈیٹر بھی ہیں اور اسکے سرورق پر لکھا شعر
چینیز کھاؤ پڑھو انگریزی
پر ہیک آپنڑاں فرض نہ پہھلو
پوٹھوہار نے رہنڑیں آلیو
ما بولی ناں قرض نانہہ پہھلو
بھی انہی کا ہے،نوائے ادب کلر سیداں کے سینئر نائب صدر رہے ہیں،2018ء میں مرزا غالب کی کتاب”قادر نامہ“کا پوٹھوہاری میں ترجمہ کیا،پوٹھوہاری چو مصرع،غزل اور نظم کے قادرالکلام شاعر ہیں،بیت کی طرز پر غزل لکھ چکے،مختصر پوٹھوہاری نظم ”لوہکی“کا بھی تجربہ کر چکے۔ریڈیو پاکستان راولپنڈی سٹیشن پر طویل عرصے سے معروف پوٹھوہاری پروگرام”جمہور نی واز“،”پوٹھوہار رنگ“”سخن مشالاں“ اور ”وسنے رہنڑ گراں“پیش کررہے،ریڈیو کیلئے ڈرامہ اور فیچر نگاری بھی کر رہے۔نجی و سرکاری ٹی وی چینلز پر بطورپوٹھوہاری شاعرشرکت کر چکے،ابتدائی پوٹھوہاری قاعدہ 2005ء میں مرتب کیا، پوٹھوہاری زبان کی قدامت کے حوالے سے متعدد اخبارات میں مضامین اور کالم شائع ہوچکے،پوٹھوہاری زبان وادب کے حوالے سے ایک مستند تحقیقی کتاب اور تین کے لگ بھگ شعری مجموعے اشاعت کیلئے تیار ہیں،پوٹھوہاری زبان کی قدامت کے حوالے سے انکی تحقیقی تصنیف تیاری کے آخری مراحل میں ہے اور شدت سے منتظر ہونے کے باوجود یاسر کیانی ابھی تک ہم پوٹھوہاریوں کو اسکی ہوا بھی نہیں لگنے دے رہے،امیر مینائی کے اس شعر کی شکل میں ہم بجا طور پر یہ گلہ کر سکتے ہیں کہ
آنکھیں دِکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب!
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
ہم گوجر خانیوں سمیت متعدد محققین بھی اپنی دانست میں تحصیل گوجر خان کوہی ”پوٹھوہار کادل“سمجھتے ہیں اور سمجھنا بھی چاہیے کہ فوجی خدمات ہوں یا پوٹھواری زبان و ادب کا فروغ،تحصیل گوجر خان کے باسیوں کا حصہ اس میں سب سے زیادہ نظر آتا ہے اور گوجر خانوی ہی فرنٹ فٹ پر کھیلتے نظر آتے ہیں، ہمارے فاضل بزرگ دوست یاسر کیانی بھی اس بات کو تسلیم کرتے اور انکا موقف ہے مہھاڑا تہھاڑا تہھواڑاپوٹھوہاری کا مرکزی و ٹکسالی لہجہ ہے،یہی لہجہ کلر سیداں اور گوجر خان میں بولا جاتا ہے اس لیے یہ دونوں علاقے پوٹھوہار کے مرکزی علاقے ہیں۔
سول ڈیفنس میں خدمات کے باعث تو حکومت پاکستان نے انہیں ”تمغہ امتیاز“سے نواز رکھا ہے،دوسری طرف لفظوں سے کھیلنے کے ہنر میں یکتا ہونے کے باوجود ابھی تک سرکاری سطح پر انکی پذیرائی نہیں ہوئی،مجھ سمیت پوٹھوہاری اور پوٹھوہار سے محبت رکھنے والے تمام دوست بجا طور پر خواہش اور توقع رکھتے ہیں کہ ادبی خدمات کے عوض بھی انہیں کسی بڑے حکومتی اعزاز سے نوازا جائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply