پاکستان ایک ریاست ہے بھی یا نہیں؟ اسمگلنگ اور رشوت سے بھی بھلا ریاستیں چلا کرتی ہیں؟ عام شہری کی جان اور مال کو کہیں بھی کوئی تحفظ نہیں۔ آپ کو یہاں چوبیس گھنٹے اسمگلنگ کے تیل سے بھرے ہوئے ٹرک سڑکوں پر دوڑتے نظر آئیں گے۔ ناکارہ مسافر گاڑیوں پر لوگوں کو مویشوں کی طرح لادا جانا تو معمول ہے۔ ساتھ ہی ان مسافر گاڑیوں کی سیٹوں کے نیچے اب تیل اسمگلنگ کی ٹینکیاں بھی بن گئی ہیں۔ دن ہو یا رات خطرہ عام لوگوں کے تعاقب میں ہے۔ گذشتہ روز پاکستان منرل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کے پراجیکٹ مینیجر شبر مرزا ایک دھماکے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ واقعہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے نواحی علاقے سورینج کی کوئلہ کان فیلڈ کے نزدیک پیش آیا۔ یہ بھی عام پاکستانی کا خون تھا، سو رزقِ خاک بنا۔
اسی طرح تفتان بارڈر پر حسبِ سابق امیگریشن کے عملے کی طرف سے طلباء و زائرین کے ساتھ ناروا سلوک اور رشوت خوری کی اطلاعات ہیں، بارڈر پر صوفی صاحب اینڈ کمپنی لوگوں سے انٹرویو کے نام پر اُنہیں مسلسل ہراساں کئے جا رہی ہے۔ پاکستان میں تو عید میلادالنبی ؐ کے دن بھی عوام پر عجب قیامت ٹوٹی۔ مستونگ (بلوچستان) اور ہنگو (خیبر پختونخواہ) میں ہونے والے خودکش حملوں میں کم از کم 55 بے گناہ مسلمان شہید ہوئے۔ زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، جو بتائی گئی۔ ان کے پسماندگان اور لواحقین خصوصاً لاوارث بیواوں اور یتیموں کی اب کیسے گزر بسر ہوگی! ان باتوں سے ہمیں کیا غرض۔ ہمیں تو بس یہ پتہ ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ وہ ہمارے قیمتی ایسٹس ہوتے ہیں۔ البتہ دو سال ہوئے کہ ہمارے قیمتی ایسٹس نے بھی ہم سے نظریں پھیر لی ہیں۔
جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی ہے، تب سے پاکستان میں جرائم، سرحد سے باڑ کاٹنے اور دراندازی کی شکایات بھی کچھ زیادہ ہی ہوگئی ہیں۔ اب طالبان تو کشمیر کی بات ہی نہیں کرتے۔ گذشتہ دو سالوں میں طالبان سے ہم تو اپنی کوئی بات نہیں منوا سکے، البتہ بہت سارے طالبان کو جہاں ہم نے جیلوں سے رہا کیا، وہیں انہیں افغانستان سے پاکستان واپس آنے کا موقع بھی فراہم کیا۔ ہماری ان خدمات کا نتیجہ 5 اکتوبر 2023ء کو آئی جی خیبر پختون خواہ اختر حیات خان کے اس بیان کی صورت میں سامنے آیا۔ انہوں نے بیان دیا کہ “صوبے کے مختلف اضلاع میں ہونے والے خودکش حملوں میں 75 فیصد خودکش حملہ آوروں کا تعلق افغانستان سے تھا۔” اس کے ساتھ ہی نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی سربراہی میں اور چیف آف آرمی اسٹاف کی موجودگی میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں افغان شہریوں کے حوالے سے ہونے والا حالیہ فیصلہ بھی آپ کو یاد ہوگا۔ ایپکس کمیٹی کے فیصلے کے مطابق بغیر دستاویزات کے پاکستان میں رہنے والے تمام افغان شہری 31 اکتوبر تک پاکستان چھوڑ دیں، ورنہ انہیں قید یا ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔
اس وقت پاکستان میں سترہ لاکھ افغان شہری ایسے ہیں، جن کے پاس افغانی پاسپورٹ یا شناختی کارڈ تو ہے، لیکن پاکستان میں وہ کہیں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ اسی طرح دمِ تحریر ساڑھے سات لاکھ افغانی باشندے افغانی دستاویزات کے بغیر ہی پاکستان میں ہی کہیں روپوش ہیں۔ یہاں اُن افغانیوں کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جنہوں نے رشوت دے کر اپنے لئے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا لئے ہیں۔ اب ان سب افغانیوں کے خلاف کارروائی کی کوئی ایک وجہ نہیں۔ ملک میں غذائی اجناس کی ذخیرہ اندوزی، اشیائے صرف کی قلّت، چھوٹے بچوں کی چوری، ڈالر کی اسمگلنگ، منشیات کا دھندہ، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائمز، نیز خودکُش دھماکوں نے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے۔دوسری طرف ہمارے ایسٹس یعنی طالبان نے پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کے بجائے اس مسئلے کو لے کر پاکستان کی خوب درگت بنائی ہے۔ طالبان حضرات پاکستان کو ایک ریاست ہی نہیں سمجھتے کہ وہ کسی قانونی دستاویز کے قائل ہوں یا پاکستانی حکمرانوں و قانونی اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔
یہ ملک عدمِ استحکام کے جس مقام پر پہنچ چکا ہے، وہاں سے سلامتی کے ساتھ واپسی ناممکن ہے۔ آج اس ملک کو افغانی یلغار سے صرف حُب الوطنی کا جذبہ بچا سکتا ہے۔ پاکستان کے سارے بارڈرز خصوصاً افغانستان و ایران کے ساتھ ملحقہ سرحدوں پر اسمگلنگ اور رشوت کو جذبہ حب الوطنی کے تحت فوری طور پر ایمرجنسی لگا کر روکا جانا چاہیئے۔ اسمگلنگ و رشوت رُکے گی تو ملکی خزانے میں پیسہ جمع ہوگا۔ بارڈرز پر رشوت خوری، مشکوک افراد نظر آنے یا امیگریشن عملے میں موجود صوفی اینڈ کمپنی جیسے بداخلاق اور بداعتماد لوگوں کی شکایات وصول کرنے کیلئے فوری شکایات مراکز قائم کئے جائیں۔ یہ شکایات سنٹر قائم ہونگے تو عوام اور سکیورٹی اداروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوگی۔ یہ ہم آہنگی ملکی استحکام، قومی خزانے کو بھرنے اور امنِ عامہ کیلئے ضروری ہے۔
آپ اپنے سامنے سعودی عرب کی مثال رکھیں! سعودی عرب کی طالبان نوازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس کے باوجود سعودی عرب اپنی سرزمین پر طالبان کو کوئی انسان کُش سپاہ، لشکر یا جتھہ نہیں بنانے دیتا۔ پاکستان بھی اپنے قیمتی ایسٹس کے ساتھ سعودی عرب کی طرح برتاو کرے۔ اُنہیں اُن کی حدود میں رکھے۔ افغانی مجرموں کو آئین کے مطابق سخت سزائیں دی جائیں، طالبان کو پاکستان میں انسان کُشی سے سختی کے ساتھ روکا جائے اور قاتلوں سے قصاص لیا جائے، پشاور اور کوئٹہ میں کرنسی مارکیٹ کو وقتاً فوقتاً حسبِ ضرورت سیل کرکے ڈالر اسمگل کرنے والوں سے ڈالر اُگلوائے جائیں۔ ملک میں مشکوک افراد، اسمگلروں اور اسمگلنگ نیز رشوت خوری کے خلاف شکایات مراکز قائم کئے جائیں، عوامی شکایات پر ایکشن لیا جائے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ شہریوں کے تحفظ کیلئے سعودی عرب کی طرح اقامہ سسٹم کا اجرا کرکے افغانیوں کیلئے پاکستانیوں کو اپنا کفیل بنانا لازمی قرار دیا جائے۔
ہر پاکستانی کفیل اپنے متعلقہ افغانی شہری کی ساری حرکات و سکنات پر نظر رکھے۔ شک و شبہے یا مشکوک سرگرمیوں کی صورت میں کفیل ملکی سلامتی کے اداروں کو باخبر کرے۔ جس طرح سعودی عرب کے کفیل حضرات پاکستانیوں سے اچھے خاصے ماہانہ چارجز لیتے ہیں، اسی طرح پاکستانی کفیل بھی افغانیوں سے قانونی طور پر معقول معاوضہ لیں۔ بات یہ نہیں کہ پاکستان کے حوالے سے طالبان اور افغان شہری بے لگام ہیں بلکہ بات یہ ہے کہ اگر ہم رشوت خوری اور اسمگلنگ کے حوالے سے اپنی اصلاح کر لیں تو دوسروں کی اصلاح خود بخود ہو جائے گی۔ ہم اگر افغان شہریوں کو اپنے ملک سے نکال نہیں سکتے تو کم از کم اُن کی افرادی قوت سے پاکستانی عوام کو تو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ سعودی عرب سے فقط قرض مانگتے رہنا ہی عقلمندی نہیں، ہمیں اُس سے طالبان کو لگام دینے کا ہُنر بھی سیکھنا چاہیئے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں