یہ جسمانی اعضاء مجھ پر قرض ہیں /احسن رسول ہاشمی

اس وسیع و عریض کائنات میں ناجانے کتنے ستارے، سیارے اور جاندار جنم لیتے ہیں اور ایک وقت کے بعد اس ظاہری وجود کو خیرباد کہہ کر کسی انجان وجود کا حصہ بن جاتے ہیں کروڑوں میل دور آسمان پر چمکتے ایک نیلے نوجوان ستارے کو ہی دیکھ لیں جو رفتہ رفتہ زرد رنگ اوڑھ کر بڑھاپے میں داخل ہوتا ہے اور پھرسرخی مائل ابلتے گولے کا روپ دھار لیتا ہے یہ سرخ رنگ اس کے اختتام کی علامت ہے، وقت مرگ جب وہ اس وجود سے آزاد ہوتا ہے تو ایسے عناصر کا روپ دھار لیتا ہے جو نئے ستارے یا سیارے کے بننے کے کام آتے ہیں۔ ہمارے جسم میں موجود ، نائٹروجن ، آئرن سے لیکر کیلشیم تک ہرعنصر ایسے ہی کسی فنا ہو جانے والے ستارے کی دین ہے۔

مادر ارض پر ہر جاندار اسی اصول کو اپنائے ہوئے ہے اور کسی نہ کسی صورت حیات کا موجب بنتا ہے۔ میں بھی اسی سفر سے گزرنا چاہتا ہوں، ایک فنا ہو جانے والے ستارے کی مانند کہ میرے اعضاء کسی وجود کو حیات بخشیں، میں ایک پھول سے جدا ہو جانے والے بیج کی طرح بننا چاہتا ہوں جو اصل سے جدا ہو کر دفن ہوتا ہے تو اس سے ننھی ننھی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور باغ پھر سے مہکنے لگتا ہے۔

میری خواہش ہے کہ جب وقت مرگ آئے تو میں پھر سے جی اٹھوں، کسی کی آنکھ بن جاؤں تو کسی کا دل بن کر دھڑک اٹھوں، کسی کی زبان بن کر نئی داستان سناؤں تو کسی کے جگر سے پیوست ہو جاؤں۔ کوئی اپنے وجود کا ایسا انگ بنائے کہ وہ سانس لے تو میں خوشی سے پھول جاؤں تو کبھی اس کے لہو میں بہتے زہر کو چھان کر اس کے بدن سے نکال دوں وہ مجھے اپنی جلد کے خلیوں میں سما لے اور میں اس کا سایہ بن جاؤں وہ مسکرائے تو میں اس کا غرور بن جاؤں وہ چلے تو میں اس کا سہارا بن جاؤں وہ آنکھ بند کرے اور میں اس کا تخیل بن جاؤں گویا میں پھر سے انسان بن جاؤں۔

julia rana solicitors

——————————————————————
دور حاضر میں میڈیکل سائنس کے شعبے میں ترقی کے بعد یہ ممکن ہوا ہے کہ اب ہم اعضاء کو عطیہ کر سکتے ہیں اور بے شمار جانیں بچا سکتے ہیں۔ ناجانے کتنے معصوم محض وسائل کی کمی یا اعضاء کی عدم دستیابی کے باعث انتقال کر جاتے ہیں، ان میں سے بیشتر کی جان بچائی جا سکتی ہے۔ سو میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنے اعضاء کو عطیہ کروں گا۔ اگر میرے اس عمل سے ایک بھی جان بچ جائے تو تو شائد میرا قرض ادا ہو جائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply