خوبصورت لوگوں کے تذکرے پر مشتمل منفردکتاب
نئی نسل کمپیوٹر کی زبان میں بات کرتی ہے۔ہیڈ فون کے ذریعے سنتی ہے۔کیمرے کی آنکھ سے دیکھتی ہے۔آئس پر چلتی ہے اورون ویلنگ کرتی ہے۔ ایسی مخلوق کے لیے لکھنا اور پھر خاکے لکھنا، کتنی دلیری کا کام ہے، یہ کوئی مجھ سے پوچھے۔ پچھلے کم و بیش بیس سال سے جب کوئی قابل ذکر شخصیت ہم سے جدا ہوتی ہے، میں اس کے ماتم میں اپنے ساتھ مرحوم کا حلیہ بھی بگاڑ دیتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ بگڑے ہوئے یہ حلیے میری ایک ہارڈ ڈرائیو میں محفوظ و مامون ہیں۔ بعینہ میں بھی اپنے کمفرٹ زون میں محفوظ و مامون ہوں۔کم ہی لوگ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلنا پسند کرتے ہیں۔پروفیسر ایاز کیانی جرأت مند اور بے قرار لوگوں کے اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔اس نسبت سے وہ خاص آدمی ہیں۔ لیکن ان کی نظر ہر خاص و عام پر ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب کی بار انہوں نے شخصی خاکوں یا مضامین پر کام کیا ہے۔
ان سے میری جان پہچان چند ایک ملاقاتوں تک محدود ہے۔ ورنہ خاکے کی مشق کے لیے ان سے موزوں اور بے ضرر شخصیت کا ملنا محال ہے۔ سادگی میں کم ہی لوگ ان تک پہنچ پائیں گے۔ عام سے کپڑے،عام سے جوتے، عام سے ہاتھ، عام سی چال اور عام سی ہی بول چال۔بلکہ چپ چاپ یا کم گو، آنکھوں سے حیا، پیشانی سے شرافت، چہرے سے عاجزی ٹپکتی ہوئی۔ درمیانے قد پہ موٹاپے کی طرف مائل،شلوار قمیص اور واسکٹ میں ملبوس پروفیسر ایاز کیانی میں کوئی خاص بات ضرورہے۔ وہ خاص بات کیا ہے،میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پایا۔وہ ان کی عاجزی بھی ہو سکتی ہے۔ان کے اندر کا غباریاکیفیت بھی ہو سکتی ہے جسے وہ دو کتابیں لکھ لینے کے باوجود شاید بیان نہ کر پائے ہوں۔ان کی زندگی میں رہ جانے والی کوئی کمی بھی ہو سکتی ہے جس کا ملال ان کے گول بڑے چہرے پہ سجی داڑھی اور ناک پر رکھے چشمے میں چھپنے کی کوشش کر رہا ہو۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی اب تک کی کامیابیوں پر مطمئن رہنے کی کوشش کر رہے ہوں۔لیکن بظاہر مطمئن نظر آنے والے چہرے پر اطمینان کم اضطراب کے اثرات زیادہ ہیں۔دراصل یہی اضطراب ان کی تحریر و تقریر کا محرک ہے۔
ان کی نئی تصنیف ”لوگ اور لوگ بھی کیسے کیسے“ملی تو پہلا سوال ذہن میں یہ آیا کہ ان سے پوچھوں یہ کتاب انہوں نے کیوں لکھی ہے؟لیکن مختصر ملاقات میں اتنی بات نہ ہو سکی۔ البتہ ایک ہی نشست میں آدھی کتاب پڑھ لینے کے بعد مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا۔39شخصیات کے خدو خال،حال احوال، تاریخ، جغرافیے، حدود اربعہ، تعارف اور تعریف و تو صیف پر مشتمل یہ تحریریں خاکے ہیں یا مضامین،اپنی رائے ضرور دیتا، اگرخود پتہ ہوتا۔اپنا تعلق قلم کاروں کے اس خاندان سے ہے جنہوں نے پڑھا کم اور لکھا زیادہ ہے۔ سیاست، ثقافت، سماج اور تاریخ پر اپنی رائے کا بے دھڑک اظہار کرنا مجھے خوب آتا ہے۔کہ میرا شمار وقت کے ان دانشوروں میں ہوتا ہے جو سنتے کم اور بولتے زیادہ ہیں۔لیکن کتاب کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ اس لیے کہ اسے پڑھنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کئی ایک کتابوں پرمیں نے ’بے پڑھے‘ تبصرے لکھے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ایسے تبصرے پسند بھی کیے گئے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ لکھنے لکھانے کا کوئی بھی موقع مل جائے بے پڑھی باتیں میں نے تول کر رکھی ہوتی ہیں۔
پروفیسر صاحب نے جن شخصیات پر ہاتھ اٹھایا ہے ان میں سے چند ایک کو میں ذاتی طور پر، چند ایک کو بالواسطہ طور پر اور اکثر کو بالکل نہیں جانتا۔خاکہ نگاری اور شخصیت نگاری کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ خاکہ نگار کا اپنے کردار کے ساتھ دن ہی نہیں راتیں بھی گزری ہوں۔ ڈاکٹر صغیر صاحب پر انہوں نے اچھا لکھا ہے۔ ڈاکٹر ممتاز صادق صاحب پر ان کی تحریر سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ ان کے ماتحت ہیں۔ پروفیسر ذوالفقار احمد ساحر صاحب کے حسن و جمال، جوانی اور رنگ و روپ کی مکمل کوریج ہو جاتی تو ان کی عمرعزیز ترمیں مزید دوچار سال کی کمی آجاتی۔وہ اس کتاب کو اپنی لائبریری میں خاص جگہ عطا کرتے اور دوستوں میں اس کا چرچا کرتے۔ میں دون دن راولاکوٹ کالج میں جاتا رہا،ان جیسا سمارٹ اور خوبصورت نوجوان نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی جوانی میں برکت عطا کرے۔ کاغذی عمر پر ریٹائر منٹ بڑا ظلم ہے۔ساحر صاحب کو دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ محکمہ تعلیم واقعتاً نابینا ہے۔ پروفیسر سید حسین صاحب پر ان کی تحریر سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ انہیں زندگی میں پہلی بار سردی لگی اور اسی دن وہ فوت ہو گئے۔ اس حادثے کی پیشین گوئی ہم، ان کے شاگرد، اپنے زمانہ ’بے علمی‘ میں کر چکے تھے۔عمران عزیز کو انہوں نے سب کا عزیز بنا دیا ہے۔ شاید یہ خطاب دیتے وقت وہ بھول گئے ہیں کہ عمران عزیز کو کسی کا عزیز ہوئے کافی وقت گزر چکا ہے۔ عمران صاحب کے کاروبار اور ناموری بارے جب ایس پی اکبر صاحب نے موصوف کی پیدائش سے قبل پیشینگوئی کر دی تھی تو پھر عمران صاحب کا کاروبار یا ناموری میں اپنا کیا کمال ہے؟ لہٰذا وہ اگلے ایڈیشن میں اس عزیز داری کی وضاحت ضرور کریں۔
میں حسب نسب کی بنیاد پر افراط و تفریط کا قائل نہیں ہوں۔ لیکن کسی مخصوص علاقے، قبیلے یا خاندان کی اچھائیوں کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ ضروری ہے۔ کیانی خوبصورت اور خوب سیرت لوگ ہیں۔پونچھ کے حلقہ نمبر پانچ کے کیانیوں میں (میری معلومات کے مطابق) تین بڑے لوگ گزرے ہیں۔ایس پی اکبر کیانی صاحب، جسٹس راجہ خورشید کیانی صاحب اور ڈاکٹر شبیر کیانی صاحب۔ ایس پی اکبر صاحب کے بارے میں ہم نے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ لیکن جو معلومات اس کتاب کے ذریعے ہم تک پہنچی اس سے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔ ان کی تعریف ہم نے اپنے بزرگوں سے سنی ہے۔ وہ اپنے دور کے بڑے آدمی تھے۔ جسٹس خورشید صاحب میرے نانا کے دوست تھے۔ان کی مجلسوں میں جسٹس صاحب کا تذکرہ رہتا تھا۔ڈاکٹر شبیر کیانی اتنے خوبصورت انسان تھے کہ مریض انہیں دیکھ کر آدھا ٹھیک ہو جاتا تھا اور راہ چلتے لوگ انہیں رک کر دیکھتے تھے۔ لال رنگ کی شیراڈ گاڑی میں لگتا تھا وہ کسی فلم کی شوٹنگ کے لیے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر شبیر کیانی آج بھی ہزاروں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ کہتے ہیں انسان مر جاتا ہے، کتاب زندہ رہتی ہے۔ ایاز کیانی صاحب ابھی ’جوانی کے امیدوار‘ ہیں۔ ان کے قلم سے اللہ کرے کئی ایک شاہکار تخلیق ہوں۔ لیکن میرے نزدیک ان کی یہ کاوش سب سے اہم ہے۔ اور اس کتاب میں بھی یہ تین لوگ سب سے اہم ہیں جن کے نام سے کیانی فیملی آزاد کشمیر میں جانی اور پہچانی جاتی ہے۔میں ان کی اس خدمت پر نہ صرف انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں بلکہ ان کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کرتا ہوں۔ کہ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں۔ جن کا اس سے قبل تذکرہ نہ کر کہ ہم سے زیادتی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر شبیر کیانی صاحب ہمارے لڑکپن کے دور میں راولاکوٹ میں رہے۔ ان کے جنازے پر میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ ان پر کچھ لکھوں لیکن میری معلومات بہت کم تھیں۔

سوانح نگاری، خاکہ نگاری اور لوگوں پر لکھی جانے والی دیگر تحریریں ادب کی وہ اصناف ہیں جو بالواسطہ طور پر نئی نسل کی رہنمائی کا باعث بنتی ہیں۔سوشل میڈیا کے وور میں یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ادب میں شعر و شاعری کے دور میں نثر نگاری بیگار کے مترادف ہے۔ لیکن ادیب وہی ہوتا ہے جو حالات سے متاثرہو کر لکھتا ہے لیکن جب لکھنا شروع کر دیتا ہے تو پھر حالات سے متاثر نہیں ہوتا۔پروفیسر ایاز کیانی صاحب کی یہ تصنیف ایک خوبصورت کاوش ہے۔ اس میں ایک خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے کسی کو بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کیا۔جس کو جیسا دیکھا ویسا لکھا۔بلکہ شاید کچھ کمی رہ گئی ہو۔ لیکن یہ کمی(اگر رہ گئی ہو) تواس نے انہیں مبالغہ آرائی سے بچا لیا ہے۔ایاز کیانی ایک دیانت دار، سنجیدہ، سادہ بیاں اور خوش اسلوب لکھاری ہیں۔ اپنے لوگوں پر لکھ کر انہوں نے وہ حق ادا کیا ہے جو ان سے پہلے لکھنے والوں سے ادا نہ ہو سکا۔میری معلومات کے مطابق غیر سرکاری سطح پر اس کتاب کی رونمائی نہیں ہوئی جو حلقہ پانچ کی ذمہ داری ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں