• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • شہید بابری مسجد کی جگہ مجوزہ مسجد کانام پیغمبر اسلام ﷺ سے منسوب

شہید بابری مسجد کی جگہ مجوزہ مسجد کانام پیغمبر اسلام ﷺ سے منسوب

 بابری مسجد تنازعہ پر سپریم کورٹ کے دیئے گئے فیصلے کے تحت ایودھیا میں مسلم فریق کو دی گئی۔ 5 ایکڑ اراضی پر مجوزہ ‘مسجد ایودھیا’ کا ڈیزائن اب تبدیل کر دیا گیا ہے۔مسجد اب مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک میں تعمیر کی جانے والی عظیم الشان مساجد کی طرز پر تعمیر کی جائے گی اور اس کا نام حضرت محمد ﷺ کے نام پر رکھا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق  ایودھیا کے دھنی پور میں 5 ایکڑ اراضی پر مسجد، اسپتال اور دیگر سہولیات کی تعمیر کے لیے بنائے گئے۔ ‘انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن’ ٹرسٹ کے چیئرمین ظفر فاروقی  کا کہنا تھا کہ  کہ مسجد ایودھیا کا ڈیزائن اب تبدیل کر دیا گیا ہے۔
فاروقی نے کہا کہ مسجد کا نام پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کے نام پر رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ پہلے اس کا ڈیزائن  بھارت میں بنائی گئی مساجد کی طرح سادہ تھا لیکن اب اسے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب اسے مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک میں تعمیر ہونے والی عظیم الشان مساجد کی طرز پر تعمیر کیا جائے گا، پونے کے آرکیٹیکٹ نے اس کا ڈیزائن تیار کیا ہے۔ ممبئی میں ہونے والی میٹنگ میں اسے حتمی شکل دی گئی۔ سابقہ ڈیزائن کے مقابلے مسجد کی صلاحیت میں بھی اضافہ کیا گیا ہے،اب اس میں 5000 سے زائد نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکیں گے۔
ممبئی میں منعقدہ اجلاس میں تمام مسلم فرقوں کے تقریباً ایک ہزار علماء بشمول سنی، شیعہ، بریلوی اور دیوبندی اور مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ انہوں نے بتایا کہ مسجد میں 300 بستروں کا کینسر ہسپتال بھی بنایا جائے گا۔ بین الاقوامی فارما کمپنی ووکارڈ گروپ کے چیئرمین ڈاکٹر ہابیل خوراکی والا نے ہسپتال کو خیراتی بنیادوں پر قائم کرنے اور چلانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

نومبر 2019 میں سپریم کورٹ نے ایودھیا کیس میں تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے متنازعہ جگہ کو ہندو فریق کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی یوپی حکومت کو حکم دیا گیا کہ وہ مسلم فریق کو ایودھیا میں ایک اہم مقام پر مسجد بنانے کے لیے زمین فراہم کرے۔
یادرہے بابری مسجد  کو1528میں ایک غیر متنازعہ اراضی پر تعمیر کیا گیا جسے 22 دسمبر 1949 تک مسلمانوں نے اپنے سجدوں سے منور کیا تھا۔  تاہم بابری مسجد 6دسمبر 1992کو دن کے اجالے میں شہید کردی گئی۔ جس وقت نام نہاد کارسیوکوں نے مسجد کو شہید کیا تو وہاں نظم ونسق کی پوری مشینری موجود تھی اور صوبے کے وزیراعلیٰ نے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں حلف نامہ داخل کرکے مسجد کے تحفظ کی ذمہ داری بھی لی تھی۔ تمام قانونی تحفظات کے باوجود مسجد کے گنبدوں پر چڑھنے والے کارسیوکوں کو روکا نہیں گیا اور انھوں نے پانچ سوسالہ قدیم تاریخی عبادت گاہ کو زمیں بوس کردیا۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply