جبلت ِ مرگ (2)-احمر نعمان

پہلے حصّے کا لنک

دوسرا حصّہ

شکیب جلالی  
ڈاکٹر وزیر آغا نے شکیب کے آخری دنوں پر لکھا کہ وہ ان دنوں روز انکے پاس آ کر گھنٹوں بیٹھتے۔ بارہا موت کے بارے میں پوچھتے کہ موت کے بعد کی زندگی پر آپ کا ایمان ہے تو بتائیے کہ انسان کہاں چلا جاتا ہے، یا کبھی پوچھتے کسی بدروح نے آپ کا پیچھا کیا ہے؟ شکیب کی آنکھوں میں چھائی وحشت کا بیان کرتےہیں کہ اس دن وہ پوچھتے پوچھتے رہ گئے کہ کہیں ارادہ خودکشی کا تو نہیں؟ ایسے میں شکیب ایک کاغذ کا ٹکڑا بڑھاتے ہیں اور ایک مجروح سی ہنسی کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ میری زندگی کا حاصل ہے۔ وہ ذہنی امراض کے ہسپتال کی ڈسچارج سلپ تھی۔

پھر لکھتے ہیں کہ شکیب ایک دن نہیں آیا، دو دن نہیں آیا اور تیسرے دن معلوم ہوا کہ صبح اپنے مکان کی چھت پر جا کر گھنٹوں روتا رہا، دوپہر نئے کپڑے پہن کر ریلوے لائن چلا گیا اور ٹرین کے آگے ایسے کودا کہ اس کے اعضا کٹ کر دور دور جا گرے۔ جنازہ میں تاخیر ہوگئی کیونکہ کٹے اعضا اکٹھے کرنا ایک کام رہا۔

احمد ندیم قاسمی صاحب نے ان کی زندگی میں ان کی تعریف کرتے انہیں جدید غزل کی امید قرار دیا اور کہا کہ اس عشرے کا وہ بہترین شاعر ہے۔ اس کی علامات/سمبل نہ روایتی ہیں اور نہ ہی جدید؛ ناصر کاظمی، شہزاد احمد اور فراز کے ہوتے ایک نوآموز کا خود کو منوانا شکیب ہی کا کمال ہے۔ شہزاد احمد نے شکیب کو ٹریجک ہیرو قرار دیا۔

شاعری پر اب مختصرا ً بات کرتے ہیں۔ شکیب کا کمال لفظ سے تصویر بنانے کا فن ہے؛ امیجری؛تصویر کشی یا منظر کشی، جو بھی کہہ لیں۔
آ کر گرا تھا کوئی پرندہ لہُو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر
(شکیب کی زندگی میں یہ شعر کبوتر کے ساتھ ملتا ہے؛ ‘آ کر گرا تھا کوئی کبوتر لہو میں تر’ )

یا یہ شعر جیسے؛
جھکی چٹان، پھسلتی گرفت، جھولتا جسم
میں اب گرا ہی گرا تنگ و تار گھاٹی میں

شکیب کا کوئی شعر پڑھیں تو منظر آنکھوں میں گھومنے لگتا ہے جیسے آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ ان کی زندگی دردناک ہے، مگر شاعری محض درد کی نہیں، انتہائی خوبصورت شاعری ہے، جیسا  کہ پہلی قسط کی پوسٹ پر صدیق منظر صاحب کا کمنٹ تھا کہ “شکیب نے اقبال کے بعد اردو شاعری کو ایک لہجہ دیا ہے جو سب سے مختلف، ہمہ گیر اور ایک جہان بسیط و بیکرانی کا احساس دیتا ہے۔”

ان کے یہ اشعار بھی ہیں
وہ اس کا عکس بدن تھا کہ چاندنی کا کنول
وہ نیلی جھیل تھی یا آسماں کا ٹکڑا تھا

پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں
پھر آئینے میں چوم لیا اپنے آپکو

انداز خموشی میں ہے گفتار کا پہلو
گویا نہ سہی، چپ بھی کہاں ہیں تری آنکھیں

موتی کیا کیا نہ پڑے ہیں تہہِ دریا لیکن
برف لہروں کی، کوئی توڑنے والا ہی نہیں

اسی طرح ایک ان کی غزل جو روشنی اے روشنی میں نہیں، شاید قاسمی صاحب کی اپنی ایک غزل جو کافی ملتی جلتی ہے، اس وجہ سے انہوں نے شامل نہ کی ہو؛
اس گل بدن کی بوئے قبا یاد آ گئی
صندل کے جنگلوں کی ہوا یاد آ گئی

یاد آ گئے کسی کے تبسم خراش لب
کھلتے ہوئے کنول کی ادا یاد آ گئی(شکیب)

کس کی خوشبوئے بدن یاد آئی
شام کو صبح چمن یاد آئی

یاد آئے ترے پیکر کے خطوط
اپنی کوتائی فن یاد آئی(قاسمی)

اسی طرح   ان کا ایک اوور  باکمال شعر اتفاق سے ناصر کاظمی کے شعر سے کافی ملتا ہے؛
وہ خموشی انگلیاں چٹخا رہی تھی اے شکیب
یا یہ کہ بوندیں بج رہی تھیں رات روشن دان پر

ناصر کاظمی کا شعر زیادہ معروف ہے،
خموشی انگلیاں چٹخا رہی ہے
تری آواز اب تک آ رہی ہے

توارد یا خیال ٹکرانے کی بحث چھوڑ کرصرف شعر دیکھیے تو ناصر کا شعر چھوٹی بحر میں ہے مگر  بقول شمس الرحمان فاروقی، شکیب کا کام ہے کہ انہوں نے ‘آواز’ کا لفظ استعمال نہیں کیا، بوندوں کی ٹپ ٹپ سے آواز کی منظرکشی کردی۔

اسی طرح غالب کا ایک مصرع ہے'” تھا زندگی میں موت کا کھٹکا لگا ہوا”؛ شکیب کہتے ہیں
جینے کے ساتھ موت کا ڈر ہے لگا ہوا
خشکی دکھائی دی ہے سمندر کو خواب میں

Advertisements
julia rana solicitors london

غالب کا ایک اور شعر ہے؛ ‘اس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن’
شکیب کہتے ہیں
آیا ہے ہر چڑھائی کے بعد اک اتار بھی
پستی سے ہمکنار ملے کوہ سار بھی
( جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply