ہم دنیا کو کیا بیچتے ہیں؟ – ڈاکٹر حفیظ الحسن

پچھتر سالوں سے یہ لطیفہ سنتے کان پک گئے کہ دنیا بس ہمارے خلاف سازش میں لگی ہے۔ ورنہ ہم ترقی کر کے کیا کچھ ہو جاتے۔

پاکستانی عوام کا ایک بڑا حصہ ہمیشہ کھوکھلے نعروں اور سازشوں کو حقیقت سمجھ کر عقل سے پیدل کیوں رہا؟
ایک دور میں یہ مرض غریب اور ناخواندہ عوام کو لاحق تھا مگر اب اس ذہنی استحصال کا عارضہ پڑھے لکھے مڈل کلاس طبقوں اور ڈھیٹوں کی پلٹون اشرافیہ میں بھی بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ یہ نعرے اور سازشوں کی بو ہمارے معاشرے میں پنپتی کیوں یے؟ اسکی ایک وجہ ہمارا تعلیمی نظام ہے جس میں شارٹ کٹس، رٹا اور بِنا کچھ سوچے سمجھے سوالوں کے آسان سے جواب لکھ کر نمبر حاصل کرنا ہے۔

معاشرتی رویوں کو من و عن اپنانا، ہجوم کی طرح سوچنا اور پاپولریزم کی روش میں بہنا ایک آسان عمل ہے، اس میں دماغ صرف نہیں ہوتا۔ بس آپ ایک نظریے یا ایک شخص کے پیچھے چل پڑیں، سوال نہ کریں، غیر مشروط تقلید کئے جائیں آپکو ہمنوا مل جائیں گے۔ دلیل دینا، حقائق بیان کرنا اور دلیل سے بحث کرنے سے بہتر آپ کنویں کے مینڈک بنے رہیں اور اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور ناکامیوں کا الزام دوسروں پر دھر دیں۔ بونوں کے اس معاشرے میں قدآور سوچ رکھنا گناہ ہے۔ جب آپکے پاس دنیا کو دکھانے کو کوئی شے نہ ہو تو آسان راستہ یہ کہ ڈیفنس میکینزم کے طور پر ایک خوش فہمی اور فریب کا جال بچھا دیں کہ دنیا آپکو کامیاب نہیں ہونے دیتی، کہ وہ آپکی کامیابی سے ڈرتی ہے، اِسی لئے آپکو ہر وقت یہ بے اعتمادی رہتی ہے کہ ہر کوئی آپکے خلاف سازش کر رہا ہے۔
کیا ہم دنیا کے لئے اس قدر اہم ہیں؟ اور اگر ہیں تو کیوں؟

اسکے لئے ہم دیکھتے ہیں کہ اقوامِ عالم میں ہم اس وقت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کہاں کھڑے ہیں۔ ہم دنیا کو کیا بیچتے ہیں۔
مختلف اعدادو شمار کے مطابق:

1. جی ڈی پی 367 بلین ڈالر (2022)
دنیا کے 195 ممالک میں جی ڈی پی کے اعتبار سے پاکستان کا نمبر 42واں ہے۔ ڈنمارک اور سنگاپور جیسے چھوٹے ممالک کا جی ڈی پی ہم سے کہیں زیادہ ہے۔

2. پاکستان میں قریب 38 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔ غربت کی لکیر اقوامِ متحدہ کے مطابق روز کی 3.2 ڈالر فی کس آمدن ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان میں ساڑھے آٹھ کروڑ سے زائد افراد کے پاس کھانے کو دو وقت کی روٹی مشکل ہے۔

3. پاکستان کا شرح خواندگی کا تناسب تقریباً 62 فیصد ہے۔ دنیا کےکئی ترقی پذیر اور غریب ممالک کا شرحِ خواندگی پاکستان سے بہتر ہے۔ مثال کے طور پر یوگانڈا ، گھانا اور روانڈا وغیرہ۔

4. برآمدات کا حجم ، قریب 31 بلین ڈالر جو کی GDP کا 9 فیصد تک بنتا ہے۔ درآمدات کا حجم 2022/2022 کے اعداد و شمار کے مطابق 80 ارب ڈالر یعنی GDP کا 21 فیصد۔ ہم دنیا کو کیا بیچتے ہیں؟

5.بھوک کے حوالے سے پاکستان 120 ممالک میں 99 نمبر پر ہے جہاں خوراک کی قلت اور خوراک میں غذائیت کی قلت پیش پیش ہے۔

6. پاکستان کا ہیومین ڈیولپمنٹ انڈکسHDI 0.55 ہے جو دنیا میں 154 ویں نمبر پر ہے۔ HDI ایک پیمانہ ہے جس میں مختلف انسانی زندگی بہبود و ترقی کو ماپنے کا، جس میں مختلف عوامل شامل ہیں جیسا کہ تعلیم و صحت کا معیار، فی کس آمدنی وغیرہ۔ افسوسناک رینکنگ؟

7. پاکستان کا گلوبل انویشن انڈکس جو ایک طرح سے کسی بھی ملک یا معاشرے میں سائنسی اور ٹیکنالوجیکل جدت کے معیار کو ماپتا ہے، 99 ہے۔ یعنی ہم سے اس اعتبار دنیا کے آدھے سے زائد ممالک آگے ہیں۔

8. پاکستان میں ہر ایک ہزار میں سے 55 بچے پیدائش کے وقت ہی مر جاتے ہیں۔

9. اسی طرح پاکستان میں ایک عام آدمی کی اوسط زندگی 67 سال ہے جو دنیا کے 146 ممالک سے کم ہے۔

10. ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کرپشن کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر دنیا میں 140 ہے۔

ان تمام اعداد و شمار کی روشنی میں دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ہمیں کونسی بیرونی سازشوں کی ضرورت ہے اور دنیا کو کیا پڑی ہے کہ ہم جیسے جاہلوں، کرپٹ، بے فائدہ اور لاغر لوگوں کو نیچا دکھائے۔ بہتر ہے کہ ہم اس خوش فہمی سے نکلیں کہ ہم کوئی توپ چیز ہیں کہ دنیا باؤلی ہوئی جاتی ہے ہماری دشمنی میں اور جدید علوم حاصل کر کے دنیا میں اہنا مقام کمائیں جیسے کہ سنگاپور، ملائیشیا یا دیگر ممالک کما رہے ہیں۔

رہی بات بموں، میزائلوں کی تو آج کے دور میں جنگیں میزائلوں سے زیادہ معاشی اور سفارتی سطح پر لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ لہذا بہتری اسی میں ہے کہ انسانوں والے کام کریں اور ہوش کے ناخن لیں۔ کب تک جہالت کے سمندر میں ڈبکیاں لگا لگا کر خود کو دنیا کے سامنے رسوا کرتے رہیں گے؟ کب تک کھوکھلے نعروں سے اپنا مذاق اقوامِ عالم میں اُڑواتے رہیں گے؟ دنیا آپ سے ڈرتی نہیں، بلکہ آپکو گھاس بھی نہیں ڈالتی اور آپ ہیں کہ اس خوش فہمی اور تہذیبی نرگسیت میں مبتلا کہ کوئی توپ چیز ہیں۔ آپ اپنی مدد تو کر نہیں سکتے دوسروں کی کیا کریں گے۔ خدارا دنیا کے سامنے اپنا مذاق بنوانا بند کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: ان اعداد و شمار میں کمی بیشی یا غلطی کا امکان موجود ہے کہ یہ مختلف ذرائع جیسا کہ ورلڈ بینک، statista وغیرہ سے لئے گئے اور راؤنڈ کر کے لکھے گئے ہیں۔
مگر پھر بھی یہ اُس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں جس سے ہم برسوں سے آنکھیں چراتے آئے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply