عدم برداشت اور ہمارا معاشرہ/شہزاد احمد رضی

اپنے مشہور مضمون ToleranceمیںE.M.Forster تعمیر نو کی بنیاد بردباری پر رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ وہ اسے “Dull virtue”قرار دیتے ہوئے بھی تعمیر نو کے لیے واحد مضبوط بنیاد سمجھتے ہیں۔موجودہ دور اور حالات کے تناظر میں Forsterکا یہ نظریہ بہت صائب نظر آتا ہے۔ دنیاایک عجیب موڑپر آکھڑی ہوئی ہے۔عدم برداشت ہر طرف سرایت کرچکی ہے۔ مختلف مذاہب کے پیروکار، مختلف مسالک کے ماننے والے ، ایک جیسی زبان نہ بولنے والے، ایک نسل سے تعلق نہ رکھنے والے باہم دست و گریبان ہیں۔عدم برداشتorder of the dayبن چکی ہے۔نفرت، تشدد اور قتل و غارت کا عفریت دنیا کو جکڑ چکا ہے۔

وطن عزیز کو دیکھتے ہیں تو صورتحال اور زیادہ گھمبیر نظر آتی ہے۔ مذہب کے نام پر دنگا کرنا، دوسروں کی عبادت گاہوں کو جلانا، وقتی جذبات کی رو میں آکر پوری دنیا میں تماشہ بن جانا ہمارا وطیرہ بن چکاہے۔قائداعظم محمد علی جنا ح کی 11اگست1947ء کی تاریخ کو جو بھی معنی  دئیے جائیں، وہ تمام قومیتوں کے لیے زندگی اور مساوات کی گارنٹی تھی۔ جڑانوالہ کا سانحہ ہویا جوزف کالونی کا  واقعہ، ہمارا ہر فعل بانی ء پاکستان کے وعدے کا تمسخر اُڑاتا نظر آتا ہے۔سیاست کے کھلاڑیوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اور مذہبی رہنماؤں نے اپنی مذہبی دکانداری چمکانے کے لیے پوری قوم کو اس قدر انتشارکا شکار کردیا ہے کہ ہر ساعت کوئی نہ کوئی خنجر سیاست یا مذہب کے نام پر کسی نہ کسی کی گردن پر رہتا ہے۔ کف اُڑاتے، ہاتھوں میں خنجر لیے، آستین چڑھائے ہم ہر اس شخص کو ‘‘جہنم واصل ’’ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں جو ہمارے نظریات و عقائد سے متفق نہیں۔اختلاف برداشت کرنا توہین سمجھا جاتا ہے۔بڑا لیڈر وہ ہے جو دوسروں کی پگڑیاں اُچھالتا ہے۔ بڑا عالم وہ ہے جوبات بات پر دوسروں پر تکفیری فتوے لگاتا ہے۔اختلافی امور کو جتنا مرچ مسالہ لگا کرجو پیش کرے گا اس کے followersاور viewersاتنے ہی زیادہ ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں ہر اس شخص سے نفرت ہے جس کی زبان ہماری زبان سے مختلف ہے۔ سوشل میڈیا کو دیکھ لیں۔ سیاسی ومذہبی جماعتوں کے کارکنان اور ہمدرد ایک دوسرے کو ایسے ایسے القابات سے نوازتے ہیں کہ الامان! الحفیظ!غلیظ گالیوں سے لتھڑی پوسٹیں شیئر کرنا،غداری کےtitles سے نوازنا اور تکفیری فتوے دینا ہماری فطرت ِ ثانیہ بن چکی ہے۔کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ عدم برداشت کا یہ کلچر ہمارے لیے لامتناہی مسائل پیداکررہا ہے؟کیا ہم اپنے بچوں کو ایسا پاکستان دے کرجائیں گے جہاں ہر ایک کے ہاتھ میں خنجر ہوگا اور وہ اختلاف کرنے والے کی گردن پر ہوگا؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply