• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دنیا کے ظالموں کو بے نقاب کرتی فلسطینی قربانیاں/ڈاکٹر ندیم عباس

دنیا کے ظالموں کو بے نقاب کرتی فلسطینی قربانیاں/ڈاکٹر ندیم عباس

ابھی کچھ دوستوں سے فلسطین کے موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی، ایک دوست نے موبائل نکالا اور دو سطریں پڑھیں، سچی بات ہے، ابھی تک ان کے حصار سے نہیں نکل پایا۔ لکھا تھا مجھے ڈاکٹر نے کہا آپ کے بچے کے بچنے کی امید ہے، میں تیزی سے ہسپتال پہنچا، وہاں نہ بچے تھے، نہ ڈاکٹر تھے اور نہ ہی ہسپتال تھا۔ ظلم، بربریت اور جبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظیم یہ ٹویٹ کرتا ہے کہ یہ جنگ اندھیرے اور اجالے کے بیٹوں کے درمیان ہے، جب آپ کا نظریہ یہ ہو تو بچوں کو مارنا آسان ہو جاتا ہے اور شرم بھی نہیں آتی۔ اسرائیل کا عہدیدار کہتا ہے کہ یہ انسانی شکل میں جانور ہیں۔ افسوس اس پر دنیا کوئی نوٹس نہیں لیتی اور اسے روٹین کا معاملہ قرار دیتے ہوئے آگے بڑھ جاتی ہے۔

میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ امریکی بالادستی کی آخری جنگ ہے۔ خود بائیڈن بہت عرصہ پہلے کہہ چکے ہیں کہ جو لوگ اسرائیل کو تین ارب ڈالر دینے پر تنقید کرتے ہیں، انہیں سمجھ لینا چاہیئے کہ ان تین ارب کا دینا ہمارے لیے بہتر ہے یا وہاں ایک فوج رکھنا۔ یعنی یہ طاقت کے اظہار کا امریکی طریقہ ہے، جہاں خود نہیں، وہاں اپنی پالیسی کے لیے کوئی مقامی چوکیدار رکھ لیا۔ اگر مقامی دستیاب نہیں ہیں تو ایک خود ساختہ ملک بنا کر دنیا بھر سے اس میں لوگ بسا دیئے۔ مقامی لوگوں کا کیا؟ وہ جہاں مرضی جائیں، یہ خطہ امریکی پالیسی میں دے دیا گیا تو دے دیا گیا۔

قارئین کرام ہمارے لیے کسی بھی سرزمین کے اصلی باشندے قابل احترام اور زمین پر پہلا حق رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کی تاریخ ہے، یہ لوگ اصل زمین زادوں کو زمین کا بوجھ قرار دے کر انہیں زیر زمین اتار دیتے ہیں۔ آپ امریکہ کی تاریخ پڑھ لیں۔ کیسے ان اصلی باشندوں کی نسل کشی کی گئی۔ وہ لوگ جو پورے امریکہ کے مالک تھے، انہیں پناہ گزین بنا دیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ وہ ایک دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے اور جو نکلتے انہیں قتل کر دیا جاتا، اگر خاتون ہوتی تو اس کے ساتھ اجتماعی ریپ کیا جاتا۔ آج بھی ان کی بچی کھچی آبادیاں دیہی زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ نسل نسل در آنے والی ظلم کی روایات کی وجہ سے اب خود ہی غلامی اور پسماندہ رہنے پر راضی ہوگئے ہیں۔

میڈیا پر آپ کبھی امریکہ کا یہ چہرہ نہیں دیکھیں گے۔ اسی طرح آسٹریلیا کو دیکھ لیں، مقامی باشندوں کی نسل کشی کرکے سفید چمڑی والوں کے لیے زمین دستیاب کر لی گئی، آج آسٹریلیا کے اصلی باشندے کہاں ہیں۔؟ جی جو بچ گئے ہیں، وہ بھی وحشت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور انہیں دال چاول دے کر ان پر احسان کر دیا جاتا ہے۔ آپ کینڈا کی صورتحال دیکھ لیں، آپ کو وہاں ہر سال لاکھوں لوگ جاتے نظر آئیں گے، مگر آپ نے کبھی یہ سوچا کہ آخر کینڈا کی اصل آبادی کہاں گئی؟ تو جناب وہ بھی اسی طرح صاف کر دی گئی، جیسے دنیا بھر سے صیہونی لا کر فلسطین کی زمینیں ان کے حوالے کی گئیں۔

ایک بات کی وضاحت ضروری ہے، یہاں مسئلہ یہودیوں اور مسلمانوں کا نہیں ہے۔ایسا بالکل نہیں کہ دو مذاہب کی لڑائی ہو بلکہ بہت سے باعمل یہودی اسرائیل کے شدید خلاف ہیں۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ای کے یہ الفاظ ہماری پالیسی ہونے چاہیں، جس میں آپ فرماتے ہیں، ہمیں یہودیوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمیں عیسائیوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمیں دنیا میں مذاہب کے ماننے والوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن ہمیں فلسطینی سرزمین کے غاصبوں سے مسئلہ ہے۔ یہ جنگ بھی انہی غاصبوں سے ہے، جو سمجھتے ہیں، جیسے انہوں نے صدیاں پہلے امریکہ، کینڈا اور آسٹریلیا کے مالکوں کو ختم کر دیا تھا، آج فلسطین کے مالکوں کو بھی ختم کر دیں گے، مگر اب ایسا نہیں ہوگا، دنیا کے انسان بیدار ہوچکے ہیں۔

ویسے تو یہ معجزہ ہی لگتا ہے، مگر رپورٹ ہوا ہے اور بعض اوقات اس ظلم و بربریت پر کوئی اقدام نہ کرنے سے ہونے والی تنقید سے بچنے کے لیے بھی ایسی خبریں اڑا دی جاتی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ سے سعودی کراون پرنس محمد بن سلمان نے ملاقات سے پہلو تہی کی، شام کا وقت دیا، انتظار کرایا اور پھر صبح ملاقات کا کہہ کر صبح ملاقات کی اور اس میں بھی جنگ بندی کا مطالبہ ہی دہرایا۔ اس بات کو یوں بھی سمجھ لیں، ہمارے گاوں کے ایک آدمی جیل میں تھے، افواہ اڑ گئی کہ وہ آزاد ہوگئے ہیں، کے کزن سے کسی نے پوچھا سنا ہے چوہدری صاحب آزاد ہو کر آرہے ہیں۔؟ اس نے کہا یہ بات تو جھوٹ ہے، مگر خدا کرے کہ سچ ہو جائے۔ ہمیں بھی یہ بات چوہدری کے کزن کی طرح سو فیصد جھوٹ لگتی ہے، مگر خدا کرے سچ ہو جائے۔

البتہ اسی طرح کی بات شاہ عبداللہ بادشاہ اردن کے بارے میں بھی میڈیا میں آرہی ہے۔ ایک طرف اردگان عالم اسلام کے رہنماء بننے کی فکر میں ہیں تو دوسری طرح جب غزہ پر ہر طرح کی ناکہ بندی نافذ ہے، اسرائیل میں پھلوں اور سبزیوں کی قلت پیدا ہوگئی، جس کو پورا کرنے کے لیے سوشل میڈیا کی خبروں کے مطابق ترکی نے ایک بحری جہاز بھیجا ہے۔ اس کے مقابل ترک عوام کا ردعمل دیکھیے، اسی میڈیا پر آرہا ہے کہ عوام نے اسرائیلی سفارتخانے کو آگ لگا دی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اصل جنگ مزاحمتی فورسز اور اسرائیل کے درمیان ہی ہے۔ اسی لیے آئے روز اسرائیلی قیادت ہرزہ سرائیاں کرتی رہتی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کی ہرزہ سرائی پر دفتر رہبر کے انچارج آیت اللہ محمدی گلپائیگانی کا جواب بڑا دلچسپ ہے۔ جب نیتن یاہو نے کہا کہ سانپ کا اصل سر ایران میں ہے تو جواب میں محمدی گلپائیگانی نے کہا یہ سانپ کا سر نہیں موسیٰ کا عصا ہے، جو تمام سانپوں کو نابود کرے گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply