مجھے نہیں لگتا کہ اسرائیل نے ہسپتال پر حملہ کیا ہو!۔ یہ کام اسرائیل کے مخالفین کا ہوگا۔ امریکی صدر نے یہ کہہ کر اپنے انسانی حقوق کے دعووں پر خود ہی بجلیاں گرا دیں۔ جتنی ہمدردی امریکی صدر کو اسرائیل سے ہے، کاش اتنی مسلمانوں کو بھی فلسطینیوں سے ہوتی۔ ہمیں ہمدردی کیا ہونی ہے، ہمیں تو یہ یقین ہی نہیں آتا کہ کبھی فلسطینی بھی آزادی حاصل کر پائیں گے؟ ہمیں یہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ حماس نے یہ حملہ کیوں کیا؟ ہمیں طوفان الاقصیٰ میں فلسطینیوں کا نقصان ہی نقصان دکھائی دیتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ بینڈ ویگن تھیوری کا جادو اس وقت ہمارے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہمارے ہاں اب لوگوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فوائد بتائے جانے لگے ہیں۔ اسرائیل کی طاقت کے رعب نے ہمارے اندر ڈیرے ڈال لئے ہیں۔
یہ خوف و رعب ویسے ہی لوگوں کے اندر نہیں بسا، اس کیلئے ماضی میں المعمدانی ہسپتال کی طرح کئی مرتبہ فلسطینیوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ اس قتل و غارت کی تصاویر و خبریں اور تجزیات منصوبہ بندی کے ساتھ دنیا میں پھیلائے جاتے رہے۔ لوگ ان تصاویر اور تجزیات سے خوفزدہ ہوتے گئے۔ آج وہی خوف ہمارے چہروں سے بھی ٹپک رہا ہے۔ ہم اب یہ سمجھنے کیلئے تیار ہی نہیں کہ ہسپتالوں، سکولوں، لوگوں کے گھروں اور سڑکوں و پلوں پر حملے کرنا کوئی بہادری نہیں بلکہ ایک گھٹیا جنگی حکمتِ عملی ہے۔ اس کے دو مقصد ہیں، ایک فلسطینیوں کی تعداد کم کرنا اور دوسرے خوف و ہراس پیدا کرنا۔ یہ وحشیانہ قتل و غارت دراصل فلسطینیوں کو مار کر یا ہجرت پر مجبور کرکے اُن کی تعداد میں کمی کی ایک شعوری کوشش ہے۔
اسرائیل سے ڈرنے والوں کو یہ اندازہ نہیں کہ جمہوری اور عددی اعتبار سے اس وقت فلسطینیوں کی آبادی اسرائیل کو نگل رہی ہے۔ اگر دنیا کسی بھی وقت مسئلہ فلسطین کے جمہوری حل کو قبول کرے تو اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر بھی فلسطینی اسرائیل کو چت کرسکتے ہیں۔ فلسطینی اسرائیل سے نہیں بلکہ اسرائیل فلسطینیوں سے خوفزدہ ہے۔ وہ ایک طرف بلاوقفہ فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے، انہیں علاقے خالی کرنے اور ہجرت پر مجبور کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف مزید یہودیوں کو فلسطین میں لاکر ان کی نئی بستیاں بسا رہا ہے۔ یہ خواتین اور بچوں کو قتل کرنا یہودیوں کا پرانا وطیرہ ہے۔ ان کی تاریخ پڑھ کر دیکھئے۔ یہ فلسطین میں یہودیوں کا کوئی نیا کام نہیں۔ اس شریر قوم نے اسرائیل سے پہلے ہی پانی کی ٹینکیوں میں زہر ملانے، بچوں کو اغوا کرنے، جادو اور شعبدہ بازی، دوسروں کی زمینوں اور گھروں پر قبضے، لوگوں کے باغات اور فصلیں تباہ کرنے، جھوٹے مقدمات اور اغوا برائے تاوان جیسی گھناونی حرکتوں سے سب کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔
مغربی اقوام نے تنگ ہو کر انہیں مغرب سے نکالا اور عربوں کے بیچ میں پھنسایا۔ باالفاظِ دیگر مشرق میں فلسطین کی سرزمین کو اسرائیلیوں نے اہلِ غرب کو بلیک میل کرکے حاصل کیا۔ فلسطین میں بھی ان کی عادتیں نہیں بدلیں۔المعمدانی ہسپتال پر حملہ، یہ اُن کی عادات کے مطابق اپنی طاقت کو منوانے اور خوف پھیلانے کی ایک چال ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ حماس نے حملہ کرکے فلسطینیوں کو مروا دیا، وہ دراصل فلسطین کی اندرونی صورتحال سے باخبر ہی نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ فلسطین میں شب و روز نہتے لوگوں پر اسی طرح مظالم جاری رہتے ہیں۔ حماس کے حملے سے فقط اتنا ہوا ہے کہ اسرائیلی جرائم کو میڈیا میں کوریج ملی ہے۔
ہمارے کچھ احباب ان دنوں میڈیا میں اسرائیلی جرائم کو دیکھ کر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیّت سے ہی محروم ہوگئے ہیں۔ انہوں نے جب اسرائیل کا ظلم دیکھا تو اُسے اسرائیل کی طاقت سمجھ بیٹھے۔ اُن کی اطلاع کیلئے یہ عرض ہے کہ اسرائیل کتنا طاقتور ہے، اس کا اندازہ آپ کو حماس کے حملے سے ہوجانا چاہیئے۔ حماس وہ تنظیم ہے کہ جس کے پاس کسی قسم کے جدید ہتھیار، کوئی جہاز، ٹینک اور پیشرفتہ میزائل تک نہیں۔ ٹریننگ اور ہتھیاروں کے اعتبار سے یہ حزب اللہ سے بھی کمزور ہے۔ اگر یہ چھوٹی سی اور کمزور تنظیم اسرائیل کو چکمہ دے گئی تو کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اسرائیل کی طاقت ایک حقیقت نہیں بلکہ ایک ڈھونگ ہے۔
ہمیں ڈرانے کیلئے بینڈ ویگن تھیوری یا آسان لفظوں میں اسرائیل کی طاقت کا ڈھول پیٹ پیٹ کر اُسے ایک خوفناک جِن بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس جِن سے مسلمان خصوصاً عرب سہمے ہوئے ہیں۔ جیسے بچوں کو جنات سے ڈر لگتا ہے، ویسے ہی مسلمانوں کو اسرائیل سے خوف ہے۔ ورنہ سید حسن نصراللہ کے بقول اسرائیل مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے اور یہی بات طوفان الاقصیٰ سے بھی ثابت ہوئی۔ ہمارے ہاں عام طور پر طالبان، القاعدہ، لشکر جھنگوی، سپاہِ صحابہ اور داعش وغیرہ کو مجاہدین سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے ہمارے ہاں کے لوگ حماس اور حزب اللہ کی طرف سے طالبان و داعش کی مانند درندگی پر مبنی جوابی حملے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ خواہش سرآنکھوں پر، لیکن اگر حماس اور حزب اللہ بھی وہی کچھ کریں، جو اسرائیل کرتا ہے تو پھر مسلم و غیر مسلم میں فرق کیا رہے گا۔؟
راہ چلتے ہوئے عام لوگوں، عورتوں و بچوں، ہسپتالوں اور نہتے شہریوں پر حملے کرنا یہ بہادری نہیں بلکہ انتہائی بزدلی، کمینہ پن اور انسانی شرافت و غیرت کے خلاف ہے۔ اگر عام بچوں اور خواتین کا مسئلہ نہ ہو تو اسرائیل کو تو کہیں سے بھی ایک ایٹم بم ہی راکھ بنا دے۔ کسی بھی غیرت مند مسلمان کو اُس کا ضمیر یہ اجازت ہی نہیں دیتا کہ وہ عام لوگوں کا تعاقب کرے یا اُن کے گھروں پر حملے کرے۔ مخالفت اور لڑائی کے دوران ہی تو یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ کتنے صاحبِ ایمان، بہادر، مہذّب، شریفُ النّفس، متحمل مزاج اور باکردار ہیں! طوفانُ الاقصیٰ کی وجہ سے اسرائیل کی طاقت کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ گیا ہے۔

اسرائیل کتنا بہادر و کتنا غیرت مند ہے اور فلسطینی کتنے شجاع و دانا ہیں! اب کچھ بھی مخفی نہیں رہا۔ بےشک اسرائیل کی طاقت کا ڈھول پیٹنے والے ڈھول پیٹتے رہیں۔ جاتے جاتے اپنے طالبان بھائیوں کی بھی خبر لیتا چلوں۔ پاکستان کو تو انہوں نے خون میں نہلایا، لیکن جب سے افغانستان میں اُن کی امارت اسلامیہ اور خلافت قائم ہوئی ہے، کوئی جہادِ کشمیر کیلئے دستہ، کوئی جہاد فلسطین کیلئے لشکر۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔ خیر تو ہے کیا دین سے جہاد کا حکم حذف ہوگیا ہے یا فلسطینی ماوں بہنوں کی چیخیں کابل تک نہیں پہنچ رہیں!؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں