تہذیب کی داستان/شاکر ظہیر

انسان شکار کے دور سے نکل کر کاشتکاری کے دور میں داخل ہوا تو اسے رہنے کےلیے مستقل ٹھکانہ تعمیر کرنا پڑا ۔ خاندان بنے اور پھر قبیلے ۔ آپس میں خیالات کے تبادلے کےلیے زبان وجود میں آئی۔ قابل کاشت زمین کے حصول کےلیے جنگیں لڑی گئیں ۔ ان جنگوں کے قصوں کو اپنی آئندہ نسل کو منتقل کرنے کےلیے سر اور لے کا سہارا لیا گیا ۔ جہاں قصہ سنانے والا جملہ غلط بولتا ردہم ٹوٹ جاتا ۔ اس لیے یہ قصے کو یاد رکھنے اور ہو بہو منتقل کرنے کےلیے سر اور ردہم بہترین طریقہ تھا ۔ ان قصوں میں اس کا اپنا قبیلہ بہت بہادر اور حق پر ہوتا تھا ۔ مزید آگے بڑھتے ہوئے اپنی اور اردگرد کی زمین کی تخلیق کی ابتداء کےلیے بھی فلسفے دیے گئے ۔ کچھ داستانون اور فلسفوں کو زمین کی زرخیزی ، فصل کی کمی زیادتی نے وجود بخشا ۔

موت خاتمہ ہے یہ تسلیم کرنے کو کوئی تیار نہیں اس لیے دیوتا بھی تخلیق کیے گئے جو موت کے بعد بھی حاکم رہے ۔ ان دیوتاؤں کو راضی رکھنے کےلیے قربانیاں بھی پیش کی گئیں ۔ یہیں سے مذہبی طبقے کی پیدائش ہوئی جو ان دیوتاؤں کے نمائندہ تھے اور مصیبت کے دنوں میں امید اور خوشحالی کے دنوں میں ڈر خوف پیدا کر کے اپنے وجود کو لازم ثابت کرتے تھے ۔ نظم اجتماعی جب وجود میں آیا تو سربراہ کو خود کو دیوتا کا نمائیدہ بتانا پڑا جسے دیوتا نے اختیارت سونپے ۔

زبان کو تحریر میں لانے کے بعد تہذیب کی ابتداء ہوئی ۔ پتھروں پر اپنے فن تحریر کو امر کیا گیا ۔ یا تصویریں کے ذریعے خود کو آئندہ کےلیے محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ۔
خود کو مستقبل کےلیے محفوظ کرنے کےلئے تعمیر ، تصویر ، ادب سائنس , ریاضی ہر طرح سے کام لیا گیا ۔ مصری جہاں فن تعمیر اور ریاضی کو کام میں لا رہے تھے وہاں ہندی فلسفے سے یہ کام لے رہے تھے ۔ بابلی اپنے قانون کو امر کرنے کی کوشش میں تھے اور چائنیز اپنی ایجادات اور جمالیات سے یہ کوشش کر رہے تھے ۔ حس جمالیات کے اظہار کےلیے خوبصورتی عورت کے بناؤ سنگھار سے ظاہر ہو رہی تھی کبھی تصویر کشی سے ، کبھی برتنوں سے اور کبھی مورتیوں سے ۔کوئی بنا رہے تھے اور کوئی بنے بنائے کو لوٹنے کی کوشش میں ۔ یہ کوشش اسی وقت کامیاب ہوتی جب وہ تہذیب اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہوتی ۔ اور مزید اس میں نمو کی گنجائش نہیں ہوتی پھر کوئی تازہ پرجوش خون اس پر قبضہ کرکے اسے آگے بڑھاتا ۔ ہر تہذیب دوسرے کے علم سے استفادہ کر کے اسے مزید ترقی دے رہی تھی ۔ یہ علم انسانیت کا مشترکہ ورٹہ تھا ہے اور رہے گا ۔

julia rana solicitors london

ول ڈیورانٹ نے اس داستان کو خوبصورتی سے ترتیب دیا اور یاسر جواد صاحب نے ترجمے کا حق ادا کر دیا ۔ اسے پڑھنے اور سمجھنے کےلیے مذہب کے دائرے سے باہر کھڑے ہو کر ساری داستان کو دیکھنا ضروری ہے ۔ مصنف کی ہر بات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں ہوتا لیکن جہاں سے وہ معاملات کو دیکھ رہا ہے اسے سمجھنا ضروری ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply