مذہب فوبیا یا ذہن پر جمی کائی؟ -ثنا فرزند نقوی

ویسے تو فوبیا ایک نفسیاتی بیماری کی حیثیت رکھتا ہے اور نفسیات کی رو سے اس کی متعدد اقسام ہیں، لیکن فلسفیانہ، فکری اور سائنسی ترقی اور دیگر علوم نے جہاں انسان کو شعور و آگاہی سے ہمکنار کیا ہے وہیں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو شعور و آگاہی اور مذہب فوبیا کے بیچ باریک خط دیکھ پانے سے قاصر رہا ہے۔ اس طبقے کے لیے شعور و آگاہی اور مذہب فوبیا یا مذہب مخالف مہم جوئی میں فرق تحلیل ہو چکا ہے۔ ایسے طبقے کی نظر میں شعور و آگاہی اور مذہب فوبیا ہم معنی الفاظ کی حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ درحقیقت ان میں واضح فرق ہے۔

مذہب فوبیا محض اسلامو فوبیا تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں دنیا بھر کے تمام مذاہب و عقائد اور قدیم ترین تہذیبوں کے عقائد بھی شامل ہیں جن کے جنونیت کی حد تک منافرت پر مبنی رد کے لیے بعض افراد اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کو تیار ہیں، تو کچھ شدت پسند عناصر کے ہاتھوں اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو اپنے پیاروں سے قطع تعلقی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے، بعض کو جلاوطنی کاٹنی پڑی، بعض کی بقیہ پوری زندگی دوسروں کو اپنے عقائد کی وضاحتیں دینی پڑتی ہیں اور ثبوت فراہم کرنے پڑتے ہیں اور بعض کو صبح و شام خاندان و جاننے والوں کی جانب سے لعن طعن کی صورت ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اتنا سب برداشت کرنے کے بعد مذہب فوبیا میں کمی تو خیر کیا ہی آنی ہے کہ اس حوالے سے تو اکثر موزوں ماحول میسر آتا ہی نہیں کہ اس میں کمی کا امکان ہو، بلکہ یہ ہمارے اذہان میں مزید شدت اختیار کرنے لگتا ہے۔ ایسے اذہان آٹے میں نمک کے برابر ہیں جو مذہب فوبیا میں مبتلا رہنے کے بعد اس جیسے عفریت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہو پائے ہوں۔ اگر آپ کو اپنے اردگرد ایسے اذہان میسر آئیں تو ان کے ذہن میں جھانکنے کی کوشش کریں کہ آخر وہ دنیا سے چاہتے کیا ہیں یا دراصل کچھ “چاہتے” بھی ہیں یا نہیں؟

یہ یاد رکھ لیجیے کہ ایک مہم جُو انسان کبھی بھی مذہب فوبیا سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا۔ ایک مہم جُو انسان ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ اس کے نقطہ نظر کو قبول کرنے والے حامیوں کی تعداد کسی بھی طرح بڑھائی جا سکے۔ اور جہاں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا تو وہ کوفت و بے چینی اور غم و غصے کا شکار ہوتا ہے اور ایسے اقدامات اٹھا لیتا ہے جو اس کے لیے کئی مشکلیں اور خطرات کھڑے کر دیتے ہیں۔ اس بحث سے برطرف کہ کون سا مکتب فکر راہِ راست پر ہے اور کون سا گمراہ، زیادہ اہم بات یہ سمجھنے کی ہے کہ کون سا عمل فطری طور پر کسی انسان کی بقا کے لیے موزوں ہے اور کون سا عمل اس کی بقا کے لیے خطرے کا باعث بن رہا ہے۔ کیونکہ ذاتی یا انفرادی بقا سے بھی کُلی طور پر منہ نہیں موڑا جا سکتا۔ کیا کسی انسان کا خطرے کو بھانپ کر بھی وہ خطرہ دانستہ طور پر مول لینا فطری طور پر مناسب عمل کہلایا جا سکتا ہے؟ کیا یہ شعور و آگاہی اور دانش مندی کی بات ہے کہ آپ جانتے اور اچھے طریقے سے سمجھتے ہیں کہ ایک چیز آپ کے لیے کسی خطرے کا باعث بنے گی اور پھر بھی آپ اس عمل سے گریز نہ کریں؟ اور پھر اسی عمل کو شعور و آگاہی بھی گردانیں؟ یہ ممکن ہے کہ آپ جن نظریات کا پرچار کر رہے ہوں وہ شعور و آگاہی پر مبنی ہوں لیکن کیا اس کے لیے سازگار ماحول میسر آنے کی ضرورت و اہمیت کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟

چلیے ازراہِ  تفنن ان عظیم سائنسی نظریات کا ہی ذکر چھیڑ لیتے ہیں جن کے باعث نوجوان نسل اپنی زندگی اجیرن کیے ہوئے ہے۔ ہمارا قابل عزت و توقیر نظریہ ارتقاء اور کائنات کے عظیم پھیلاؤ، “بگ بینگ” کا نظریہ، جن کی خاطر ہم لڑنے، مرنے کو تیار ہیں۔ جن کی خاطر ہم اپنے محبوب والدین، بہن، بھائیوں، شریک حیات و بچوں، دوستوں سب سے قطع تعلقی اختیار کرنا گویا قابل فخر کارنامہ سمجھتے ہیں۔ کیا نظریہ ارتقا ہمیں سازگار و موزوں ماحول کے متعلق نہیں سکھاتا؟ کیا ارتقا بذات خود سازگار ماحول کی عدم موجودگی میں ممکن ہے؟ گو کہ اس پیرائے میں خالص سائنسی نظریات سے متاثر ہوتے ہوئے غیر سائنسی انداز میں ان کی تشریح کرنا انتہائی مضحکہ خیز اور غیر منطقی عمل ہے؛ لیکن آخر جھنجھلاہٹ میں اور کیا کریں کہ کچے اذہان کو حضرت سائنس کے علاوہ کوئی دوسری بات سمجھ ہی نہیں آتی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سائنس ہماری پیر و مرشد ہے اور ہم اس کے مرید۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ سائنس جیسے معتبر علم کا دراصل کوئی قصور نہیں۔ بلکہ اصل مسئلہ ہم اور ہمارے ذہن کی انتہا درجے تک جانبدارانہ سوچ کی عادت اور ذہن سازی ہے۔ ہم ایک ایسا ذہن رکھتے ہیں جس کو غریب الغربا ء سائنس بھی غیر جانبداری نہ سکھا پائی۔ ہم نے سائنسی نظریات تو اپنا لیے ہیں لیکن سائنسی، منطقی اور غیر جانبدارانہ انداز میں سوچنے کا طریقہ نہ سیکھ پائے۔ ہم ٹیکنالوجی سے انسانی زندگی کو بہتر بنانے اور آسانیاں پیدا کرنے کے متعلق گن گاتے نہیں تھکتے مگر دوسری جانب اپنی ذاتی زندگیوں کو بجائے آسان بنانے کے انھیں دشوار تر کرنے کے در پر رہتے ہیں۔ یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ خواص کی محفل میں ہونے والی بحثیں عوام میں چھیڑی جائیں؟ اور وہ بھی اس تعفن زدہ معاشرے کے بند اذہان رکھنے والے عوام میں، جن کو کبھی اس قدر سازگار ماحول بھی میسر نہ رہا ہو کہ وہ اس قسم کی کسی بحث کے متعلق گمان بھی کر پائیں کہ بھلا دنیا کے کسی کونے میں کچھ لوگ اس نوعیت کے سوالات بھی اٹھاتے ہوں گے؟

خود سوچیے کہ کیا ہم عام طور پر کبھی کسی نمازی کو کلب میں جائے نماز پچھائے دیکھتے ہیں؟ یا کہیں کوئی شرابی اکثر مسجد میں مئے نوشی کرتا پایا گیا ہو اور نمازی حضرات اس کی اس حرکت کو خوش دلی سے قبول کریں؟ ہر چیز جگہ، وقت، دستیاب مواقع و ماحول کی مناسبت سے ہی مناسب لگتی ہے (اس کا مطلب یہ ترغیب دلانا نہیں کہ مئے نوشی کی عادت اپنانا درست ہے)۔ تو پھر ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ابھی ہمارے اردگرد ایسا سازگار ماحول میسر نہیں ہے کہ ہم کوئی ایسی بات کہیں جو ہمارے نقطہ نظر کے مطابق ہر خاص و عام کو جاننی “چاہیے”۔ ہمیں اس حقیقت کا سامنا کرنے اور اسے قبول کرنے میں اس قدر دقت کیوں ہے کہ دانش وری ادھار کی نہیں ہو سکتی۔ نہ ہی یہ زبردستی کسی پر مسلط کی جا سکتی ہے۔ دانش وری بازاروں میں بکنے والی کوئی ایسی پڑیا نہیں جس کا آپ ٹھیلا لگا کر گاہک اکٹھے کریں گے اور آپ کا مال ہاتھوں ہاتھ بکنے لگے گا۔ بت فروشوں کے بازار میں آپ بت شکنی کا سہولت کار ٹھیلا آخر لگائیں بھی کیوں؟ یہ بات سمجھنی کس قدر مشکل ہے؟ یا شاید ہم سمجھنا ہی نہیں چاہتے؟

ہمارا ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم بہت بڑے ٹھیکیدار ہیں۔ ہمارے کندھے چاہے جتنے ناتواں ہوں لیکن ان پر بوجھ ہم منوں لادنے کو تیار بیٹھے ہوئے ہیں۔ جب کہ ہماری نوجوان نسل کی جیبیں خالی اور سر پیر ننگے ہیں؛ وہ اپنے اوڑھنے بچھونے کے لیے بھی کسی دوسرے انسان کے محتاج ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم نے اپنے طور پر دنیا کی “مرمت” کا ٹھیکا لے رکھا ہے۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس عظیم و وسیع کائنات کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس میں موجود کسی سیارے پر کوئی شخص کس قسم کا ٹھیکا اٹھانے میں مصروف ہے۔ چلیے کائنات تو کوئی زندہ و باشعور شے نہیں جو یہ باتیں سوچتی پھرے، مگر ان عقل و فہم رکھنے والے انسانوں کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ ان کو اپنی دانست میں باشعور بنانے کے لیے کون سی قید و بند کاٹ رہے ہیں یا کون سی مہم جوئی میں مصروف ہیں۔
اب تک جو بات سمجھ آئی وہ یہ کہ زمانے بھر کی مرمت سازی اور اس کی ٹھیکیداری کی خواہش مہم جو رویے اپنانے پر اکساتی ہے اور مہم جو رویے ہم سے غیر دانستہ طور پر ایسے عمل سرزد کرواتے ہیں جو بعض اوقات ہمارے لیے مختلف خطرات اور نقصانات کا باعث بنتے ہیں۔ مذہب فوبیا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ دنیا کو بدلنے کی خواہش، اسے اپنی دانست میں “ٹھیک” کرنے کی خواہش، اور سامنے سے ہونے والی مزاحمت پھر ہمیں مذہب فوبیا کی جانب مزید دھکیلتی ہے اور بعض اوقات ہمیں اس لائق بھی نہیں چھوڑتی کہ ہم دنیا میں کسی قسم کی بہتری کی خاطر کچھ مثبت کردار نبھا پائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مذہب فوبیا کا شکار ذہن اور ٹھہرے پانی پر جمی کائی میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ خاص طور پر اگر یہ فوبیا سالوں تک اپنی شدت برقرار رکھتا ہے تو۔ کیا ایسے ذہن کو مثبت انداز میں نشو نما پانے والا ذہن کہا جا سکتا ہے جو نوجوانی سے بڑھاپے تک بس ہر وقت اسی متعلق بات کرتا رہتا ہو کہ کون سا مذہب سچا ہے اور کون سا جھوٹا؟ آپ نے کچھ چیزیں پڑھ یا سمجھ لی ہیں تو کیا اب یہ لازم ہے کہ جب تک سانس نہیں اکھڑتی آپ نے زندگی بھر محض یہی واحد راگ الاپنا ہے؟ کیا معاشرے میں دیگر کوئی مسائل نہیں جن پر خاطر خواہ بات ہونی چاہیے اور مہذب و علمی انداز میں ہونی چاہیے؟ کیا معتبر و معیاری پلیٹ فارمز آپ کے ایسے کسی راگ کو چھاپنے کے لیے تیار ہوں گے؟ اگر تو تیار ہوتے ہیں تو ضرور اپنی آواز دنیا تک وسیع پیمانے پر پہنچانی چاہیے۔ لیکن ایسی گفتگو اور تنقید کا بھی ایک علمی معیار ہوتا ہے۔ جو راگ ہم اپنے دوستوں کی محفلوں میں الاپتے ہیں اسے ہم اگر پاکستان کے کسی معتبر ترین اخبار کے ایڈیٹر کو ای-میل کی صورت ارسال کریں گے تو وہ ردی کی زینت بنانے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ لیکن ہم معیاری لٹریچر پڑھتے ہی کہاں ہیں؟ معیاری لکھنے کے لیے پہلے معیاری پڑھنا اہم ہے، مطالعہ و سوچ وسیع کرنا اہم ہے، اپنے جانبدارانہ رویوں کی درستی اہم ہے۔ دنیا سے پہلے اپنی درستی سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ ہمارا اختیار اپنی ذات پر ہے۔ خود کو بدلنا سیکھیے، زمانہ بدلے گا۔ ٹھہرے پانی پر جمی کائی کی طرح سال ہا سال زندگی کے کسی ایک دور کا قیدی بن کر فکری و نظریاتی طور پر اٹکے رہنے سے محض ذہن پر کائی ہی جم سکتی ہے اور مذہب فوبیا ہمارے اذہان پر جمی اسی کائی کی ایک علامت ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply