دیارِحبیب/محمد عثمان کھوکھر(5)

گزشتہ اقساط

میلاد النبی 
اس فتنہ گر دنیا میں کچھ مستقل نہیں, سکھ دکھ سب وقت کی گردش میں ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے مقام کے سفر پہ ہیں ۔ہر منظر کا ناظر الگ روداد لیے ہے،چشم تصور ایسا وقت اور ماحول دیکھ رہی ہے کہ جہاں بد فطرت آتش زاد نے ذہن ہی نہیں لوگوں کے دل تک جکڑ لیے ہیں۔تہذیب  و تمدن، فکر ،نظر سب تاریک رسمیں جہالتوں کی نذر ہو نہیں رہیں بلکہ  ہو چکی ہیں ۔ کیا مشرق اور مغرب ،شمال اور جنوب کے رہنے والے سب کے سب تاریکی   میں ڈوب رہے ہیں؟ عمیق دریا کے اندھیروں جیسی تاریکی؟
تاریکی۔۔
عمیق العمیق ۔ ۔۔۔
تاریکی!

بہتے دریا کے اندھیرے جس پر لہر چڑھی چلی آئے اور اس پر ایک اور لہر اس کے اوپر بادل غرض اندھیرے ہی اندھیرے ہوں، ڈوبنے والا ہاتھ تک نہ دیکھ پائے ۔ایسے وقت میں  کچھ مجبور سب محکوم اور کئی فطرت شناس منتظر ہیں، صحرا میں آنے والی اس بہار کے جو اپنے ساتھ بارش لیے  آتی ہے اور اسے جہاں ریت سے خالی زمین ملے اسے سرسبز اور شاداب کر کے رکھ دیتی ہے۔
ارض کعبہ میں گھر موجود ہے
آہ ۔۔۔۔۔
عبداللہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔
مشقت میں بسر کی زندگی سے پانچ اونٹ بکریوں کا ایک ریو ڑ اور اُمِ ایمن جیسا ترکہ بی بی آمنہ کے لیے چھوڑا ہے۔مگر ان سب سے بڑھ کر وہ اثاثہ حیات بطن میں جو دل کی طرح دھڑکتا ہے، جو جدائی کے احساس کو کچھ اور بڑھوتری  دے رہا ہے ۔
وقت قریب آ رہا ہے  اور بی بی آمنہ کی آنکھیں صحرا کی مسافتیں عبور کرتی جانے دن اور رات میں کب کب مرقد شوہر کا طواف کرنے جاتی ہوں گی!
مکہ نہیں یثرب کے 8 سالہ باشندے حسان بن ثابت نے دیکھا ،ایک یہودی نسل آدمی بلند مقام پہ کھڑا  چیخ رہا ہے،
اے گروہ یہود۔
لوگ جمع ہونے لگے جب سب آگئے تو بتانے والے نے کہا
آج رات احمد کا ستارہ طلوع ہوگیا ہے جس میں وہ پیدا ہوگیا!

عبدالمطلب احطیم میں بیٹھے ہیں جس کے معمار خلیل اللہ تھے اور جسکی رونقوں کی نویدیں سناتے ابن مریم سفر آسمان ہوئے ۔
دوشنبہ اور ربیع الاول کی 9 تاریخ کا دن آمنہ کے لیے باعث مسرت ہے !
تخیل اور کسی تصور میں اتنی بساط کہاں کہ اس نو مولود بچے کی خوبصورتی کو پا لے۔حسن کی سب تشبیہات   بہتا دریا کنول آسمان اور وہ چاند سب اسکے سامنے پھیکے اور بے نور ۔۔لوگ جوق در جوق عبداللہ کے گھر بڑھ رہے ہیں، خوشبو ہے کہ پھیلتی جا رہی ہے۔عبدالمطلب استخوانی ڈھانچوں کی آوازوں سے بے خبر تیز قدم دوڑتے آئے ہیں اور عبداللہ کی نشانی کو دو ہاتھوں میں تھامے حریم کعبہ میں کھڑے خدا کا شکر ادا کر رہے ہیں۔
پھوپھیاں چچیاں اور کیا چاچے سب خوشی سے چہک اٹھے ہیں۔خبر ڈھونڈنے والا خبر پاتے ہی ابولہب کی طرف دوڑ پڑا ہے۔
مبارک ہو مبارک ہو۔۔ ۔
عبداللہ کا گھر آباد ہوا!

بچھڑ گئے بھائی کا پیار امڈ آیا ،آنکھ پانی سے تو دل خوشی سے جھوم اٹھا، کہا خبر لانے والے جاؤ اپنے من کی دنیا بساؤ، آزاد ہو تم آج سے، آزاد۔۔ کون ہے جو خوش نہیں ،اپنے بیگانے سب چلے آ رہے ہیں،
دعاوں اور محبتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں   میلاد النبی ﷺ کی کثیر روایات کا قائل نہیں ۔
ان کو درایت اور روایت میں پرکھا جائے تو کمزور راویوں کا ذکر ہے  مگر میں یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں۔
صدیوں سے جلی زرتشوں کی آگ کا بجھنا،
قیصر و کسری کے میناروں کا گرنا
زمین اور آسمان کے چرند پرند کا باخبر ہونا ۔ ۔
میرے لیے باعث کشش نہیں اور سچ کہوں تو اس میں ادھار عظمت کے افسانے ہیں جو انقلاب برپا کرنے والے شخص کی ہمت جرات استقامت کو ماند کرتے ہیں ۔
وہ آیا نہیں اور یتیم کر دیا گیا ہے، وہ بڑھ رہا ہے اور اس سے مدد گاری کے سب سائے چھین لیے جاتے ہیں، وہ تن و تنہا کفر کے سامنے کھڑا ہوتا لا الہ الا للہ کا آوازہ بلند کرتا ہے، تو وہی اپنے اور وہ اپنے سے بیگانے سب تکذیب اور ملامت کے طعنے لیے جھپٹ پڑتے ہیں۔
ایک خدیجہ ہے جو سہارا بنے ہاتھ تھامتی ہے اور پھر اس سہارے کو بھی چھین لیا جاتا ہے۔گو حیات مقدس کا کوئی ایسا لمحہ نہیں جو اللہ کے سواء کسی اور سہارے  کا محتاج ہوا ہوا !
عبدالمطلب شکر ادا کر رہے ہیں تو چچا خبر لانے والے کو آزاد کر رہا ہے۔اُمِ جمیل آج اپنے دیور عبداللہ کے گھر اپنی باندی ثوبیہ کو لیے آئی ہیں۔
خدا جانے کیا مصلحت ہے، کہ پہلی دایہ یہی ثوبیہ بنی ہے۔
ولادت کے ساتویں دن عبدالمطلب بی بی آمنہ کی آغوش سے اس بابرکت بچے کو لیے  برادری کے ساتھ کعبہ کی طرف بڑھے۔
حمد و ثناء کے بعد اونٹ ذبح کروائے اور بچے کا نام ” محمد” رکھا۔
بزرگان قریش بولے عبدالمطلب “محمد”ایسا نام کیوں جو ہمارے ہاں مقبول نہیں، اہلِ قصی میں ایسا کوئی بزرگ نہیں گزرا پھر محمد کیوں؟
عبدالمطلب بولے،دل شہادت دے رہا ہے  کہ ارض و سماء دونوں جگہیں  میرے بچے کی تعریف سے گونجیں گی!
مشرق سے آتی ہَوا میں عجیب نغمگی ہے، کوئی ہے  جو گا رہا ہے۔اور میری سماعتیں اس راگ کی امین ہوئی جاتی ہیں مسحور اور سچ کو عیاں کر دینے والا کلام ہے۔
“ورفعنا لک ذکرک”
اور میری چشم تصور دیکھ رہی ہے
عجیب منظر!
دور بھاگتا ہوا بد فطرت آتش زاد آج کی رات نہیں ہر آنے والا دن اور رات کانٹوں پہ گزار رہا ہے ۔
جاری ہے  !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply