ہمارے ہاں شخصیات کا زور ہے۔ ن لیگ نواز شریف اور پی ٹی آئی عمران خان کے بغیر بنا روح کے محض سیاسی سٹرکچرز ہیں۔ ذہن میں رہے کہ نواز شریف ایک شخص ہی نہیں بلکہ کئی کئی سیاسی ذہنوں کا نمایندہ ہے۔ اسی طرح عمران خان بھی کئی کئی کئی سیاسی اذہان کا نمایندہ ہے۔ اولا ً تو صحت مند مقابلے ہمارے ہاں رائج ہی نہیں ہیں اور امپائر کا فیصلہ ہی حتمی ہے لیکن جمہوریت ہی واحد وہ نظام ہے جو امن و سلامتی کی نوید بن سکتا ہے اگر اس کی روح کو سمجھ لیا جائے۔ یہ مشورے، شفافیت، صحت مند مقابلہ جات، عدم مداخلت، ٹرانسپیرنسی، حوصلے اور برداشت اور رواداری کا نام ہے لیکن ایسا کیسے ممکن ہو پائے جب اعلیٰ قیادت ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے سونے پہ مجبور کر دی جائے اور عوام کی ایک بڑی تعداد کا بنیادی حق یعنی حق اظہار ہی چھین لیا جائے اور مخالفین انتقامی کارروائی تصور کر کے خوش و خرم رہیں۔
جمہوریت تبھی پرورش پائے گی جب عوامی نمایندگی اور حق اظہار واپس کیا جائے تاکہ کوئی بھی کارکن پاکستانی ہونے پہ ناز کر سکے کہ اسے بھی فیصلہ سازی کا کسی حد تک اختیار ہے۔ اگر یونہی حق اظہار چوری ہوتا رہا تو بالآخر پاکستانی پاکستانی نہیں رہے گا یہ باکستانی بننے پہ مجبور ہو جائے گا اور جب یہی تنگ آئے گا تو دوسری ریاستوں کی طرف لپکے گا یا سیاسی نظام سے سبکدوشی اور بریت کا اعلان کم از کم ضرور کرے گا یا غیر اعلانیہ طور پہ دیگر سرگرمیوں کو ترجیح دیتے ہوئے نظام سے ہی دستبردار ہو جائے گا۔ ایسا ہو رہا ہے، ہو چکا ہے اور ہوتے رہنا ہے۔
یہ فرد کی عظمت کی رو سے ویسے بھی ایک انتہائی جائز فیصلہ ہے لیکن اجتماعی زندگی اور مجموعی سوچ یا اجتماعی کوششوں کاوشوں میں ایک پھوٹ یا دراڑ ضرور ہے۔ یہاں سیاست دان کو ڈیل کرنا ہوتی ہے اور یہ جمہوریت کا حسن نہ سہی حسین جمہوریت کی طرف ایک بے تکی سی کوشش ضرور کہی جا سکتی ہے۔ ستر سال بعد بھی سیاست دان ڈیل کر رہا ہے تو کمزور سیاست دان نہیں بلکہ کمزور وہ ہے جو سیاہ و سفید کا آج تک مالک بتایا گیا ہے اور فرض کیا سیاست دان غلط بھی ہے تب بھی عوامی نمایندہ ضرور ہے اور اس بات کی نشاندھی بھی ہے کہ عوام کے آخر رجحانات کیا ہیں۔ جو اور جیسے کی بنیاد پہ جیسے تیسے ہی رجحانات ہیں بھلے جہالت ہی سہی لیکن بہرحال اکثریت کے رجحانات اتنے بھی جاہلانہ نہیں ہوا کرتے جتنے عسکری رجحانات ہوتے ہیں اور بنیادی طور پہ جمہوریت ایک سفر ہے جو فرض کریں پنڈی سے شروع ہونا تھا اور اسلام آباد اس کی منزل تھی تو پنڈی نے آج تک یہ سفر ہی منسوخ کر رکھا ہے۔ بہرحال بڑی سیاسی شخصیات کا یوں عوام سے ہم کلام ہونا نیک شگون ہے البتہ ایک بڑے طبقے کا نمایندہ بھی یونہی پھر سے با اختیار ہو جائے تو کبڈی کھیلنے کا مزہ دوبالا ہو جائے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں