جب کیشئر نے پیسے لئے، نوٹ چیک کیا، حساب کیا۔ بقیہ پیسے واپس کیے اور پھر اگلے لمحے ہی کاٹےہوئے پیسے بھی پورے واپس کر دئیے ۔
29 یا 23 ڈالر فی آدمی ۔ جتنا چاہیں کیکڑا (کریب) کھائیں۔ آلو کے چپس اور لمکا ڈرنک بھی دستیاب تھا۔ ہم دونوں 2009 میں پہلی بار امریکہ ایف ڈی اے کی ٹریننگ پر واشنگٹن سے متصل ریاست میری لینڈ کے چھوٹے سے شہر کالج پارک کے ہوٹل ہالیڈےان پہنچے تھے ۔ ہم دونوں کی دعوت ہمیں ای میل اور ہمارے اپنے اپنے دفاتر میں پوسٹ کے ذریعے تقریباً دو ماہ پہلے پہنچی چکی تھی۔ انرولمنٹ کے بعد ای میل پر ہمارا ایف ڈی اے کے تین مختلف دفاتر سے رابطہ استوار ہوچکا تھا جہاں سے ہم مستقل رابطے میں تھے ۔۔۔ ایف ڈی اے کی ایک اہلکار ہیتھر صاحبہ جو اس وقت انٹرنیشنل پروگرام کی دیکھ بھال کرتی تھیں، بڑے دل کے ساتھ ہم دونوں کو الگ الگ ای میل میں تفصیلات سے آگاہ رکھتی تھیں۔ انھوں نے پڑھنے کے تفصیلی پروگرام، شرکاء کی فہرست، پڑھنے کا مواد، شہر کا نقشہ اور کھانے پینے کے ہوٹل سے ہمیں پیشگی آگاہ رکھا ہوا تھا۔ ہیتھر صاحبہ نے بتایا کہ شام میں آپ کے پاس وقت ہوا کرے گا، موسم ان دنوں بہت اچھا ہوگا اور آپ خوبصورت شہر میں چہل قدمی کے ساتھ ڈنر کے لطف اٹھا سکیں گے۔ جہاں ہم ٹھہریں گے وہاں ہمارے ہوٹل کے اطراف میں کےایف سی، برگر کنگ وغیرہ کے علاوہ ایشین ریسٹورنٹ بھی واقع ہیں۔ میں نے ہیتھر صاحبہ کو بتایا کہ میں صرف پاکستانی کھانے کھا پاتا ہوں۔ وہ کچھ پریشان ہوئیں اور اس نے ڈھونڈنے کے بعد کچھ فاصلے پر ہمارے مطلوبہ کھانے کی جگہ بتائی اور ساتھ کہا کہ ایک دن میں آپ کو کھانے پہ لے جاؤں گی۔ ۔
امریکہ پہنچنے کے تیسری صبح اور پروگرام کے پہلے دن ہماری ہیتھر صاحبہ سے پہلی بالمشافہ ملاقات ہوئی۔ انھیں شاید یہ علم نہ تھا کہ روحی عبید اور میں عبید علی آپس میں میاں بیوی کا رشتہ رکھتے ہیں اور پتہ بھی انھیں کیوں ہوتا ہم دونوں کا تبادلہ علم کے فورم میں انتخاب الگ الگ درخواستوں پر ہوا تھا۔ وہاں لوگ مجھے علی اور روحی صاحبہ کو مسز عبید سے پکارتے تھے۔ یہ جان کر وہ خوش اور حیران دونوں نظر آئی کہ ہم نے ایک ساتھ پاکستان سے سفر کیا ہے اور یہاں ایک ساتھ قیام کریں گے۔ خیر وہ صبح کے بعد غائب اور شام کو دوبارہ نظر آئیں۔ ہم پڑھائی کے پہلے دن معمول سے کچھ زیادہ تھکے ہوئے تھے اور دوسری طرف گھومنے کیلئے پوری بڑی لسٹ تھی۔ اس لئے اپنے آپ میں مگن رہے۔ دوسرے دن وہ صبح مجھ سے کہنے لگی کہ کیا کل کھانے پہ چلیں۔ میں نے کہا میں تو انتظار کر رہا تھا، جب آپ چاہیں۔ ہیتھر صاحبہ نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو آج ہی چل سکتے ہیں۔ اچھا، ہماری تو کوئی لازمی مصروفیت نہ تھی اور کراچی چھوڑے تین راتوں سے ہم فش برگر و جوس پر ہی گزارہ کر رہے تھے، میں نے فوراً کہا کہ آج ہی چلتے ہیں۔ اس نے کہا آپ کھانے میں کیا پسند کریں گے۔ میں نے کہا آپ کے ذہن میں کیا ہے۔ ہیتھر نے کہا پاکستانی کھانے اور حلال کھانے کا معاملہ مشکل ہے، کیا سی فوڈ صحیح رہے گا۔ میں نے فوراً ہاں میں ہاں ملادی۔ پرفیکٹ کہہ کر پوچھا کہ مسز عبید چلیں گی، میں نے کہا کیوں نہیں، اس نے کہا کہ شام 6.30 پر میں آپ دونوں کو ہوٹل کی لابی سے لے لوں گی۔
ادھر صبح ہمارا سیشن شروع ہوا اور وہ سیشن ہال سے شاید باہر چلی گئیں۔ میرے خیال میں تھا کہ اب یہ گھر جاکر ہمارے لئے انتظام کر رہی ہونگی۔ چائے کا وقفہ دس بج کر تیس منٹ پر شروع ہوتا تھا۔ اس دوران ہیتھر صاحبہ دوبارہ نظر آئیں اور کاغذ کے بورڈ پر ایک ہوٹل کا نام اور آگے 23 یا 29 ڈالر ایچ ( لگ بھگ تئیس سو یا تین ہزار پاکستانی روپے فی آدمی) لکھ دیا ۔ مجھے سمجھ نہیں آیا ۔ چائے کے ختم ہونے سے پہلے ہیتھر نے مائک پکڑ کر اعلان کیا کہ وہ مجھے اور مسز عبید کو اس جگہ ڈنر پر لے جارہی ہیں شرکاء میں سے کوئی اور اگر دلچسپی رکھتا ہے تو اپنا نام لکھوا دے۔ انھوں نے رابطہ کیلئے فون نمبر بھی لکھ دیا۔ ہال میں ایف ڈی اے والوں کے علاوہ مشکل سے دس سے پندرہ ممالک کے بیس سے پچیس مہمان تھے۔
خیر لنچ ٹائم میں چند لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ ریسٹورنٹ کیسا ہے۔ چلنا چاہیے یا نہیں ۔۔ میں نے اپنا بتایا کہ ہم جارہے ہیں باقی ریسٹورنٹ کا مجھے نہیں پتہ۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ریسٹورنٹ کا انتخاب میرا ہے اور میں اسکے مزے سے آگاہ ہوں۔ ادھر میں حیرت میں ڈوبا ہوا تھا کہ یہ ہمیں گھر نہیں ہوٹل لے جارہی ہیں۔
گاڑی 6 بجے سے تیار تھی, سرد شام تھی, ہوائیں تیز اور خون منجمد کرنے والی تھیں۔ ہم نے کوٹ ٹوپی دستانے ساتھ اٹھا رکھے تھے اور لابی سے نکل کر ہوٹل کار پارکنگ میں وقت سے پہلے پہنچ چکے تھے۔ چھوٹی سی کوسٹر بھری ہوئی نظر آرہی تھی اور بیٹھے لوگ صرف ہمارے راہ تک رہے تھے۔ ہم وقت سے پہلے نیچے آئے تھے مگر باقی تو ہم سے پہلے ہی کوسٹر میں بیٹھ چکے تھے۔ ہمیں دیکھ کر ہیتھر صاحبہ نے کہا کہ سب پورے ہوگئے اب چلتے ہیں۔ میں نے تین ہائی اسکول کے پیارے بچوں کو خاموش بیٹھا پایا وہ ہیتھر صاحبہ کے صاحب زادے اور صاحبزادی تھیں۔ گاڑی سنسان و بیابان سڑکوں پہ پون گھنٹہ دوڑنے کے بعد ایک اونچی روشن خاموش بلڈنگ کے نیچے جارُکی ۔ سامنے وہ سی فوڈ والا ہوٹل تھا۔ ہمارے قافلے میں امریکی، برطانوی، اور یورپ کی ریگولیٹری اتھارٹی کے سینئر و اہم مرد اور عورت اہلکار تھے۔ جیسے ہی ہم ہوٹل میں داخل ہوئے پہلی نظر میں وہ ایک مصروف جگہ نظر آئی ۔ جہاں لوگ بھرے ہوئے تھے اور گفت وشنید کے ساتھ کیکڑے توڑنے میں مصروف تھے۔ ہماری نشستیں خالی تھیں۔ ہم جاکر اس طرح بیٹھے کہ میں اور روحی میز کے آمنے سامنے تھے۔ ایک مخصوص بو ماحول میں رچی ہوئی تھی جس سے میری طبعیت یک دم بوجھل ہوگئی۔ ادھر ہیتھر اور تمام دوست اپنے آرڈر ویٹر کو لکھوانے لگے جب میرے پاس آرڈر لینے ہوٹل کی ویٹر آئی تو میں نے دیکھا کہ آلو کے فنگر چپس اور فرائی فنگر فش بھی موجود ہیں۔ ان کو ویجیٹیبل آئل میں فرائی کیا گیا ہے۔ ہم کیکڑے باقاعدہ کھانے کے عادی نہیں تھے۔ ہم نے ایک فنگر فش، دو فنگر چپس کی پلیٹ اور لمکا کا آرڈر دیا۔ ویٹر لڑکی کو بتایا کہ ہم کیکڑے نہیں کھاتے۔ سب کچھ میرے لئے حیرت زدہ تھا مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میزبان ہیتھر صاحبہ ہم سے کھانے کا کیوں نہیں پوچھ رہی ہیں۔ یہ ویٹر کیوں آرڈر لے رہی ہے ۔۔ خیر ویٹر نے جب اسکے مزےدار ہونے کا بتایا اور اصرار کیا تو میں نے بتایا کہ میں طبعیت میں بوجھل پن محسوس کر رہا ہوں۔ اس لئے صرف آلو کے چپس کھاؤں گا اور لمکا پیوں گا۔ بیگم صاحبہ کے لئے کیکڑے لے آئیں لیکن محترمہ بھی فنگر فش تک محدود رہنا چاہتی تھیں۔
ادھر ہوٹل کی ایک دیوار پر بڑا بڑا 23 یا 29 ڈالر لکھا ہوا تھا۔ مجھے احساس اور اسکا حسین لطف یاد ہے جب یہ سمجھ آیا کہ مفت میں ہمیں یہ قیمت ادا کرنی پڑے گی جبکہ ہم دونوں آزادی سے آئس کریم اور جوس کے ساتھ 15 ڈالر میں فش برگر کھا لیتے تھے۔ اور آج ہم ہوٹل جب واپس پہنچیں گے تو وہ برگر والا دروازہ بھی بند ہو چکا ہوگا۔ لوگ اوور کوٹ اتار چکے تھے اور مغربی لباس میں واپس آ چکے تھے اور یوں زور و شور سے کھانے کا دور شروع ہوا جو تقریباً گھنٹہ سے زائد بلا تعطل جاری رہا۔ میں متلی و اکتاہٹ کی وجہ سے ہوٹل سے باہر تازہ ہوا میں آتا اور جاتا رہا۔ باہر منچلے نوجوان بچوں اور بچیوں کی حرکتوں کو حیرت سے دیکھتا تھا تو کبھی سامنے والی عمارت کی خاموش روشنیوں کو۔ چھوٹی موٹی الٹی بھی ہوئی ۔ آدھا گلاس لمکا اور کچھ چپس پیٹ میں جاسکا ۔ بیگم صاحبہ نے کچھ فش کے ٹکڑے بھی کھائے جو مزیدار بتاتی ہیں۔۔ آنے والے رفقاء طبعیت سے مزے لیکر کھا بھی رہے تھے اور سب کچھ پی بھی رہے تھے۔ قہقہوں کا شور یاد ہے۔ مجھ سے وقتاً فوقتاً کھانے کا کہتے مگر بے جا ضد نہیں کرتے ۔
آخر کیکڑوں پر چلنے والے ہتھوڑوں کا دور ختم ہوا۔ انھیں احساس ہوچکا تھا کہ ہم کیکڑے کے مزے سے ناآشنا ہیں اور لمکا کے علاوہ واقعی سب کچھ نہیں پیتے۔ پڑھائی کے علاوہ کھانے کے موضوعات پر باہمی گفتگو وقفے وقفے سے جاری رہی۔ پھر ہم سب نے ہیتھر صاحبہ کا اور ہیتھر صاحبہ نے ہم سب کا شکریہ ادا کیا اور واپس جانے کے راستے میں موجود کاوئنٹر پر قطار بن گئی۔ سب نے اپنے اپنے بل کے پیسے انفرادی طور پر ادا کئے۔ میں بھی سو ڈالر کا نوٹ لے کر قطار کے اخر میں تھا۔ میں نے اپنا اور بیگم۔صاحبہ کا بل ادا کیا۔ کیشئر نے پیسے لیکر بقیہ پیسے واپس کیے۔ ابھی باقی کیے گئے پیسے میرے ہاتھ میں تھے اور میں پرس میں رکھنا ہی چاہتا تھا کہ ایک ویٹر لڑکی وہاں پہنچ گئی اور کاوئنٹر والے کیشیر کو پیسے واپس کرنے کو کہا۔ اس نے میری طبعیت ایک بار پھر پوچھی اور کاوئنٹر والے کو بتایا کہ انھوں نے کیکڑے نہیں کھائے ہیں۔ میں نے بتایا کہ میں نے کیکڑے نہیں مگر فنگر فش اور آلو چپس دونوں کھائے ہیں اور لمکا بھی پیا ہے۔ یہ کہہ کر میں نے بقیہ پیسے واپس پرس میں رکھ لئے۔ اس نے کہا نہیں! ہم آپ سے پیسے نہیں لیں گے، اس دوران کاوئنٹر والے نے ادا کیے ہوئے پیسے چپ چاپ نکال کر میرے سامنے رکھ دیئے۔ ان کے پرخلوص اصرار پر میں نے کچھ ٹپ چھوڑ کر باقی بوجھل دل کے ساتھ اٹھالئے ۔۔ سرد ہواؤں میں سوچ رہا تھا۔ کہ کتنا خیال رکھا اس امریکی ویٹر لڑکی نے پاکستانی شہریوں کا اور ہماری ہیتھر صاحبہ کو معلوم بھی نہیں کہ ہوٹل والوں نے ہم سے پیسے نہیں لئے۔ جی اس رات ہم برگر بھی نہیں کھا سکے۔ نمکو پھل اور کافی وافر مقدار میں کمرے میں دستیاب تھی۔ ایف ڈی اے میزبانوں کے خلوص، مہربانیوں اور سب سے بڑھ کے قیمتی تعلیم دینے کا کوئ نعم البدل نہیں ۔
…….
ڈاکٹر عبید علی حیاتیاتی اور ادویاتی علوم سے تعلق رکھنے والے معروف پیشہ ور ہیں ۔ آپ نے 27 برس سے زائد وقت ادویات کی کوالٹی اور اسکے قوانین نافذ کرنے اور تدریسی سرگرمیوں میں گزاری
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں