مسلمانوں نے اپنی 1400 سالہ تاریخ میں بہت سے نشیب وفراز ،عروج و زوال ،عظمت و ہزیمت ،عزت و ذلت کے ان گنت وقائع دیکھے ہیں۔تاریخ کے ایک طالب کو تاریخی ادوار کا اجمالی مطالعہ ناگزیر ہے۔ طالبعلم سمجھ تو جائے کہ عروج و عظمت ملا تو کیسے؟اور زوال و ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تو کیوں؟بلا وجہ نہ کسی کو عظمت ملتی ہے نہ کسی کو ہزیمت۔
خدا نے اس عالمِ طبیعت کو فطرت کے مطابق تسوید کیا ہے۔کچھ خاصیتیں ودیعت کر رکھی ہیں۔ایسا نہیں کہ آپ آگ میں ہاتھ ڈالیں اور جلیں نہ ،پانی “١٠٠ڈگری پر پہنچے اور اس میں جوش نہ آئے۔خداوند عالم نے اس آشیانہِ طبیعت میں موجود تمام مخلوقات بالخصوص بنی نوع انسان کو اپنے دامنِ رحمانیت میں سنبھال کر نظامِ ربوبیت کے مظاہر ہونے میں سب کو برابر رکھا ہے۔ایسا نہیں کہ مسلمان نوزائیدہ بچے کےلیے ماں کے پستان میں دودھ”غذا”کا انتظام کر رکھا ہو اور کافر بچے کے لیے اس کی ماں کے پستان میں غذا نہ ہو ۔
قرآنی لافانی و آفاقی دستور”وان لیس للانسان الا ما سعی” کے مطابق اُس نوزائید بچے کو بھی رو کر ماں کو احساس دلانا پڑتا ہے کہ مجھے بھوک لگی ہے تاکہ ماں بچے کو سینے سے لگا کر دودھ پلائے۔بلاتفریق تمام مخلوقات کو اپنی بساط کے مطابق حرکت کرنا پڑتی ہے تاکہ مقصود و مطلوب حاصل ہو۔ چاہے آسمانوں میں اڑنے والے پرند ہوں یا سمندروں میں تیرنے والی مچھلیاں۔ زمیں پر رینگنے والے حشرات ہوں یا پتھروں کے بروج میں رہنے والی مخلوقات۔
اب ایسا نہیں کہ تمام مخلوقات سے جدا مسلمان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا رہے اور کامیابیاں قدم چومیں۔
ہمیں تاریخ کے چہرے پر منقش اس عہد کے احوال سے اندازہ لگانا چاہیے کہ اسلام کس طرح دنیا کے طول و عرض میں پھیل کر ،مختلف مراحل سے گزر کر آج ایک تن آور ،سایہ دار درخت بن چکا ہے ۔اور اسکے سائے میں زندگی کے ہر پہلو ، ہر گوشہ حیات کے لیے مکمل آئین و دستور موجود ہے ۔چھٹی صدی عیسوی کا عہد تاریخ کے اہم ترین ادوار میں سے ایک ہے۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ چھٹی صدی عیسوی میں تاریخ بشریت میں نمایاں تبدیلی آئی ۔مشرق ومغرب میں قیصر و کسری کی حکومتوں کے پرچم بلند تھے ۔ان موروثی بادشاہوں کی مطلق العنانیت انتہا درجے پر تھی ۔اور رعایا انتہائی ذلت و پستی ،نہایت ہی سطحی و سفلی زندگی گزارنے پر مجبور تھی ۔ہر طرف فارغ البالی و مرفہ الحالی ،قتل و غارت کے بازار گرم تھے۔مورخین لکھتے ہیں؛کہ 533ء کے ایک فساد میں قسطنطنیہ کے تیس ہزار آدمی قتل کیے گئے ۔اس تاریک دور میں موروثی بادشاہوں کو آسمانی خداؤں کی نسل سے تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس عہد میں اخلاقی بگاڑ ،فساد ،نقطہ عروج پر پہنچے تھے ،جہاں اصلاح سے اس وقت کے مصلحین مایوس ہوچکے تھے ۔ایسے میں خداوند عالم کی مشیت و حکمت کا فیصلہ تھا کہ انسانوں کی ہدایت و نجات کےلیے ایک ہادی و رہبر جزیرة العرب میں مبعوث ہو تاکہ بنی نو ع انسان اخلاقی فساد و بگاڑ سے نکل کر علم و دانش اور اخلاق و تہذیب کے بامِ عروج پر پہنچے ۔چھٹی صدی عیسوی میں جزیرة العرب کے افق فاران کی چوٹی سے آفتابِ نبوت طلوع ہوا اور تدریجا ً اس نور نے دنیا کی شش جہات کو نور اسلام سے منور کیا ۔
“آفتاب نبوت طلوع ہوا اور بس دنیا کو روشن کردیا” یہ دو لفظ لکھنا بہت آسان ہے مگر قربان جاؤں سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم اور انکے اعوان و انصار ،اصحاب اخیار پر جنہوں نے جو مشقتیں ،اذیتیں ،مصیبتیں دین اسلام کی تبلیغ کےلیے برداشت کی ہیں ۔آج ہم سوچ بھی لیں تو دل کی تاریں ہل جاتی ہیں اور دل و دماغ پر لرزہ طاری ہوتا ہے۔جو صبر و استقامت ،عزم و یقین کی پختگی قرن اوّل کے مسلمانوں میں تھیں۔ بقول اقبال
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
آج بھی وہ ولولہ و جنون ،وہ عشق و للہیت،وہ جفاکشی و سرفروشی کا دھن ہو تو آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا۔صدر اسلام کا ایک ہی نمونہ جوش ایمانی پیدا کرنے کےلیے کافی ہے وہ بلال حبشی رضی اللہ عنہ جس کو ہر روز تپتی دھوپ میں لٹا کر سینے پر دھکتی آگ رکھی جاتی ہے لیکن بلا توقف نعرۂ اَحد سے دستبردار نہیں ہوتے۔ عجب صبر و استقامت کی داستاں ہے ۔ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ بلال حبشی اذان نہ دے تو شب کی سیاہی صبح کی سپیدی میں تبدیل ہونے کو تیار نہیں ۔تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے ۔تاریخ کی صورت بدلتی ہے حقیقت یکساں رہتی ہے۔توحید و رسالت کی شہادت دینے کے جرم میں قریش مکہ بنی مطلب و بنی ہاشم کو شعب ابی طالب میں محاصرہ کرتے ہیں اور تمام سماجی تعلقات قطع کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ خرید و فروخت سے تہی دامن کرتے ہیں۔تقریبا ً تین سال شعب ابی طالب میں نہایت کسمپرسی کی حالت میں ،کجھور کے پتے کھا کر صبر و استقامت کی تاریخ نقش کی ۔عجب تاریخ کی مماثلت نظر آتی ہے ۔
آج اسرائیل پچھلے تین ہفتوں سے فلسطین کے شہر غزہ کا محاصرہ کیے ہوئے ہے ،آب و خوراک کی بندش ،ہر طرف سے گولہ باری ،خواتین و بچوں کا قتلِ عام ۔ دل گرفتگی کا عالم ہے ۔ فرق یہ ہے اس وقت اسلام کا ابتدائی دور تھا کوئی حامی و مددگار نہیں تھا خدا کے علاوہ لیکن آج اربوں مسلمان اطراف و اکناف دنیا میں پھیلے ہونے کے باوجود عالمِ کفر و نفاق کا نہتے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ گرانا مسلمانوں کی بے حسی و محکومیت کا بیّن ثبوت ہے۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں