ایک تعلیمی سا کھتارسس – چرچ بطورِ اسکول/اعظم معراج

سندھ میں 30جون2022تک کے الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق مسیحی ووٹرز کی تعداد 2لاکھ 54ہزار 7سو 31 ہے (254731) ہے۔جس میں کراچی ڈویژن کے سات اضلاع میں تقریباً 2لاکھ 12ہزار جب کہ باقی سندھ کے اضلاع میں 42 سے 43ہزار ووٹرز ہیں ہے۔ ان ووٹوں میں سے کراچی کے ایک ضلع کراچی وسطی/سینٹرل کی چار سب ڈویژن اور ایک کنٹونمنٹ بورڈ میں 64384ہے جن کی تفصیل یوں ہے ۔فیصل کنٹونمنٹ بورڈ 1727فیروزاباد سب ڈویژن 40680 گلشنِ اقبال 5335 گلزارِ ہجری 2211 جمشید کوارٹرز 14431ہے۔یہ تو انتظامی ڈھانچہ ہے ۔۔لیکن کراچی کی شہری حکومت کے انتظامات و انتخابات کے انتظامی امور کے لئے اس ضلع کو 5 ٹاؤنز 43یوسیز اور 143وارڈز میں بانٹا گیا۔ ان ٹاؤنز کی تفصیل کچھ یوں ہے

1. سہراب گوٹھ ٹاؤن ،

2.صفورا ٹاؤن

3.جناح ٹاؤن

4.گلشن ٹاؤن

5.چینسر ٹاؤن

اس ضلع میں 43میں سے تین یوسیز ایسی ہیں ۔جہاں مسیحیوں  کی تعداد 25سے 35فیصد تک ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایسی یوسیز میں آج کل اوسطاً 100 یا اس سے تھوڑے کم یا زیادہ چرچ  ہیں ۔ یعنی ان 3یوسیز میں کل 300 چرچ ہونگے ۔۔باقی 40 یوسیز میں بھی اوسطاً 8چرچ تو ہونے چاہیئں  ۔ جس حساب سے ان 40یوسیز میں 320 چرچ ہونگے اس حساب سے اس ضلع میں کل 620چرچ ہونگے ۔۔ان 3 میں سے 2 یوسیز کے اعظم بستی اوراختر کالونی کے 70 کی دہائی سے لے کر 90تک کے آبادی وتذیبی محرکات سے مجھے کچھ واقفیت ہے ۔کیونکہ میرا بچپن یہیں  گزرا ہے ۔ ان یوسیز میں مسیحی 60کی دہائی میں آباد ہونا شروع ہوئے ۔اس وقت کے مذہبی راہنماؤں نے اپنے بچوں کی  تعلیم کے لئے چرچ سے منسلک اسکول بھی بنائے ۔جن میں سے کاتھولک چرچ نے مریم اسکول اعظم بستی جو اب کسی اور نام سے کالج بن چُکا ہے ۔اے آر پی چرچ نے چرچ کی باؤنڈری کے اندر ہی اے آر پی پرائمری سکول بنایا جو قومیائے جانے کے بعد آج بھی ٹوٹے پھوٹے انداز میں چل رہا ہے۔ایک اور چرچ شائد چرچ آف پاکستان کی کوششوں سے ناروے کے نوجوانوں کی کسی تنظیم کی مدد سے نارویجن سیکنڈری اسکول اعظم بستی بنا،جو اب قومیائے جانے کے بعد بہت بری طرح ضعیف ہوکر فنا کے قریب ہے ۔۔۔

سالویشن آرمی چرچ کے زیرِ انتظام سالویشن آرمی اسکول بنا جو آج بھی بڑے شاندار طریقے سے چل رہا ہے۔ ان چار اسکولوں نے نہ صرفِ ان علاقوں کے غریب مسیحیوں  بلکہ ان اور ان سے ملحقہ علاقوں کے رہائشیوں کے اس وقت کے غریب ماں باپ کے بچوں کی زندگیاں بدل دی ہیں۔ چار چرچ  کے زیر انتظام یہ چار اسکول تھے۔۔ ممکن ہے کوئی ایک آدھ اور بھی ہو۔ اگر ان کے اسکولوں کے مثبت اثرات پاکستان معاشرے اور مسیحی سماج پر اتنے دیرپا ہوسکتےہیں۔۔ تو اگر ہم کم و بیش620 چرچز کی عمارتوں کو پانچ دن بطورِ پرائمری ، آئی ٹی یا تعلیم بالغان اسکول استعمال کرلیں تواس ضلع کی مسیحی آبادی جو الیکشن کمیشن کے مطابق 128768 ہونی چایئے کیونکہ پاکستان میں آبادی اور ووٹ کی شرح تقریبا پچاس پچاس ہے ۔۔

یہ سال پرانے اعداد و شمار ہیں اور اگر اضافہ اور کچھ ریاستی ،حکومتی غلطیاں اور لاپرواہی کا شک بھی شامل کرلیا جائے تو تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہونی چاہیئے۔۔ اس بے ضرر سے اقدام سے ان ڈیڑھ لاکھ مسیحیوں  کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ اس انقلاب کی جھلک کا اندازہ آپ یوں لگا سکتے ہیں ۔۔کہ کراچی کے دیگر چھوٹے بڑے اسکولوں کے ساتھ صرفِ سینٹ پال اُردو میڈیم اسکول نے کراچی بھر کے مسیحیوں  کی زندگیوں میں بہتری کے لئے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے ۔۔ بلکہ اس وقت مسیحیوں  کے پاس انفرادی واجتماعی طور پر جو کچھ ہے ،وہ مسیح کے سچے پیروکاروں کے ایسے ہی  اقدامات کی بدولت ہے ۔ اور جن  کی  محرومیوں کا رونا ہم روتے ہیں ۔۔ ان محرومیوں کی ایک بڑی وجہ مسیح کے ان سچے پیروکاروں کے جانشینوں کا ان راہوں کو ترک کرنا  ہے ۔۔اس لئے اگر پاکستان بھر میں اس بے ضرر ماڈل پر اگر کچھ برین اسٹارمنگ کر کے عمل کر لیا جائے تو، بہت بہتر نتائج برآمد ہوسکتےہیں ۔۔

اس تحریر کا مقصد صرفِ ایک بے ضرر سا مشورہ ہے ۔ کہ اگر کوئی مذہبی رکاوٹ نہ ہو تو پسماندہ طبقات کے لئے چرچ کو بطورِ اسکول استعمال کرلیا جائے ۔۔باقی اعداد و شمار شیئر کرنے کے پیچھے تحریک شناخت کے بنیادی اغراض و مقاصد کا حصول ہے۔اس فکری تحریک کا مقصد معاشرتی و سماجی آگاہی اور اجتماعی خود شناسی ہے۔تحریک شناخت انتحابی سیاسی ومذہبی ایجنڈا اور این جی او نہ ہونے کے باوجود سیاست کے کاروبار اور،مذہب وسماج سدھارنے کے روز گار سے منسلک لوگوں کو بنیادی حقائق و شواہد سے آگاہ کرنے کو بھی انقلاب کے بیج بونا سمجھتی ہے ۔اس وجہ سے ان لوگوں کو ان افراد کے بارے میں بنیادی حقائق کا بتانا بہت ضروری ہے۔ جن لوگوں کی محرومیاں یہ “پرخلوص ،پیشہ ور ” لوگ دور کرنا چاہتے ہیں ۔۔ آخر میں ہر خاص وعام مسیحی کے لئے ایک یاد دہانی اگر آپ ایسے کسی بھی کام کے لئے آواز اٹھاتے ہیں ,جس سے عام مسیحیوں  کی اجتماعی نفسیات و معاشرتی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔تو یہ ان عظیم ہستیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک ذریعہ ہوگا ۔جنہوں نے ایسے سماجی بھلائی کے اداروں کے ذریعے برصغیر کے ہزاروں سال سے ذلتیں سہتے طبقات کو مسیحی شناخت دے کر ان کی سماجی ومعاشرتی ضرورتوں کے مطابق انھیں عزتِ سے جینے کی راہ دکھائی تھی.ائیں اپنے، اپنی آنے والی نسلوں اور اپنے اجداد کے ان محسنوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کو سنوار لیں

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply