“محبت اور خدا” اور عورت/ناصر خان ناصر

آج متحدہ ہندوستان کی 1940 میں بننے والی فلم “عورت” دیکھی۔
اس فلم میں “سردار اختر” صاحبہ نے ہیروئین کا کردار نہایت خوبی سے ادا کیا تھا۔ سردار اختر صاحبہ مشہور فلم ساز محبوب کی دوسری بیوی تھیں۔ محبوب صاحب نے اسی فلم کا ری میک “مدر انڈیا ” کے نام سے دوبارہ بنایا اور فلمی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ مدر انڈیا میں سردار اختر والا کردار فلمسٹار نرگس نے نبھایا تھا۔

سردار اختر صاحبہ کا تعلق لاہور کے بازار حسن شاہی محلے سے تھا۔ ان کی بہن بہار اختر نے بھی کئ فلموں میں کام کیا تھا۔ مشہور فلمسازاے آر کاردار صاحب نے بہار اختر کو لے کر لاہور میں ایک فلم شروع کی۔ شوٹنگ کے دوران ان دونوں میں انڈرسٹینڈنگ ہو گئ تو دونوں نے چوری چھپے بیاہ کر لیا۔ بہار اختر صاحبہ کے والدین نے کاردار صاحب پر اغوا کا مقدمہ درج کروا دیا مگر عدالت میں بہار اختر صاحبہ نے کاردار صاحب کے حق میں بیان دے کر ان کو رہائ دلوا دی۔ کاردار صاحب نے اپنی تقریباً مکمل شدہ فلم اس لیے جلا ڈالی کہ ان کی غیرت کو یہ گوارہ نہ ہوا کہ ان کی بیگم صاحبہ کو لوگ پردہ سیمیں پر دیکھیں۔

بہار اختر صاحبہ کی بہن سردار اختر صاحبہ محبوب صاحب کی دوسری بیوی تھیں، عمر بھر بے اولاد رہیں۔ انھوں نے ایک چائلڈ اداکار کو قانونی متبنی بنا لیا تھا۔ محترمہ سردار اختر صاحبہ کی وفات نیویارک میں ہوئی۔

برسبیل تذکرہ محبوب صاحب کا تعلق ایک بہت بڑی فلمی رقاصہ ستارہ سے بھی رہا تھا۔

تارہ، ستارہ اور الک نندہ تین رقاصہ بہنیں تھیں۔ ستارہ مثل آفتاب و مہتاب چمکی اور کسی دمدار ٹوٹتے ستارے کی مانند ان گنت کہانیاں پیچھے چھوڑ گئی۔

ستارہ کے عاشقوں کی لمبی قطار میں محبوب صاحب تو تھے ہی، نذیر صاحب اور ان کے بھانجے کے آصف صاحب، مشہور ہیرو الناصر صاحب بھی انہی شہیدوں میں شامل تھے جنہوں نے لہو لگا کر ستارہ کے عشق میں آہیں بھریں۔ نذیر صاحب اے آر کاردار کے ادارے یونائیٹڈ پلیرز کارپوریشن میں شامل ہونے سے قبل کیسرے بازار میں کپڑوں کی ایک چھوٹی سی دوکان کے مالک تھے۔ چندر گپت، سلطانہ، لارے اور پھیرے ان کی مشہور فلمیں ہیں۔
ستارہ پر لکھا محترم منٹو صاحب کا خاکہ خاصے کی شے ہے جو ان کی کتاب “لاوڈ سپیکر” میں شامل ہے۔

ستارہ نے سب سے پہلے کسی پٹیل نامی شخص سے بیاہ رچایا۔ مشہور فلمساز اداکار نذیر صاحب ان دنوں یہودی نژاد اداکارہ یاسمین کی زلفوں کا شکار ہو کر ان سے عقد کر چکے تھے کہ ستارہ نے اپنی بانکی اداؤں سے انھیں پٹا لیا۔

یاسمین صاحبہ بے نیل و مراہ اپنے گھر واپس پلٹ گئیں اور ان کی محل سرا پر ستارہ صاحبہ قابض ہو گئیں۔ بہت سے لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ نذیر صاحب نے ان سے بھی بیاہ کر لیا تھا۔ یہ امر تو درست ہے کہ وہ دونوں ایک چھت تلے ایک لمبے عرصے تک میاں بیوی کی طرح رہے۔

انہی دنوں مغل اعظم کے خالق کے آصف صاحب بھی اپنے ماموں نذیر صاحب کے ہمراہ رہتے تھے۔ نذیر صاحب نے انھیں درزی کی دوکان کھلوا دی تھی۔ خدا کی قدرت دیکھیے کہ ستارہ نے کے آصف کو بھی اپنے شکنجے میں کس لیا۔ دونوں کو نذیر صاحب نے رنگے ہاتھوں پکڑ کر ان کی خوب پٹائ کی اور گھر سے نکال دیا۔

شنیدن ہے کہ ستارہ نے اسلام قبول کر کے اپنا نیا نام اللہ رکھی رکھ لیا اور کے آصف سے بیاہ رچا لیا۔ اسی اثنا میں کے آصف صاحب کے والدین نے انھیں پکڑ دھکڑ کر ان کا بیاہ نہایت دھوم دھام سے خاندان میں بھی کر دیا۔ یہ خاندانی دلہن ستارہ کے ناز نخرے اور جلوے عشوے کا مقابلہ بھلا کہاں کر سکتی تھی؟

بے چاری نے اپنے منہ کی کھائی  اور چند ہی ماہ میں اپنے دامن پر طلاق کا دھبہ سجائے بابل کے گھر واپس لوٹ گئی۔
ستارہ جیسی مرد مار عورتیں عموما ایک ہی مرد پر قانع نہیں رہ سکتیں تو مرد بھی اس معاملے میں کسی سے کم نہیں ہوتے۔

ستارہ کے بعد کے آصف صاحب نے اداکارہ نگار سلطانہ سے بیاہ رچایا۔ نگار سلطانہ نے فلم مغل آعظم میں رقاصہ بہار (دل آرام) کا رول نبھایا تھا۔ وہ بھی اپنے حسن، ناز نخرے، عشوہ و ادا میں کسی طور بھی انار کلی یعنی مدھو بالا سے کم نہیں تھیں۔ ایکٹنگ میں بھی انھوں نے ہر سین میں ہیروئین کو ناکوں چنے چبوائے رکھے اور ڈنکے کی چوٹ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

کے آصف صاحب اور نگار کی یہ شادی بھی لمبے عرصے تک قائم نہ رہ سکی۔ ادھر نذیر صاحب نے بھی اداکارہ سورن لتا صاحبہ پر ڈورے ڈالے۔ وہ سکھ پریوار سے تھیں اور بیاہتا تھیں مگر عشق کے ہاتھوں مجبور ہو کر مسلمان ہوئیں اور نذیر صاحب سے بیاہ کر کے پاکستان چلی آئیں۔ سکھ مذہب میں ہندووں ہی کی طرح طلاق نہیں ہوتی۔
بعد میں نگار سلطانہ صاحبہ نے بھی مزید بیاہ کیے تو کے آصف صاحب کیوں کسی سے پیچھے رہتے؟
انھوں نے دلیپ کمار صاحب کی بہن اختر صاحبہ سے بیاہ رچا لیا۔

julia rana solicitors

کے آصف صاحب کی وفات کے بعد ان کی ادھوری فلم محبت اور خدا کے حقوق پر نگار سلطانہ اور اختر آصف صاحبہ کے درمیان سخت مقدمہ بازی بھی ہوتی رہی۔ عدالت نے اس فلم کے تمام حقوق اختر صاحبہ کو عطا کر دیے۔ یہ ادھوری فلم انھوں نے ہی مکمل کر کے ریلیز کی۔
خدا معلوم محبت کی ان کہانیوں میں کتنی سچائی  ہے اور کتنی رنگ آمیزی۔۔۔ کہ فلمی دنیا کا خدا تو خدا، باوا ہی نرالا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply