گلزار صاحب مینا کماری کے بے حد نزدیک تھے۔ مینا جی نے محترم اختر الایمان صاحب اور جناب کیفی اعظمی صاحب سے اپنی شاعری میں کبھی کبھار اصلاح بھی لی تھی۔
مرنے سے قبل انھوں نے اپنی ساری شاعری جمع کر کے گلزار صاحب کی جھولی میں ڈال دی جسے انھوں نے مینا کے مرنے کے بعد ان کے مجموعہ کلام کو چھپوایا۔ اس کا نام تنہا چاند بھی گلزار صاحب ہی نے رکھا۔
آخری دنوں میں مینا بہت دلبرداشتہ تھیں اور مالی تنگی کا شکار بھی۔ گلزار صاحب نے انھیں مصروف رکھنے اور بیماری سے توجہ ہٹانے کے لیے فلم میرے اپنے بنائی ۔ یہ فلم ساری کی ساری مینا کماری کے گرد گھومتی ہے۔ اتنے پیارے دوست کی قدر مینا کماری بھی دل سے کرتی تھیں۔ انھوں نے اس فلم میں کام کرنے کی یہ شرط رکھی کہ وہ بلا معاوضہ کام کریں گی۔ گلزار صاحب کو معاوضہ ادا کرنے کے مزید بہانے ڈھونڈنے پڑے۔ ایک طرف گلزار جیسا مخلص اور سچا دوست مینا کو ملا تو دوسری طرف کمال امروہوی جیسا سخت گیر شوہر ،جو ان کی کمائی کا پیسہ پیسہ دھروا لیتا تھا۔ حتیٰ کہ مینا جی کو مطالبہ کرنا پڑا کہ انھیں صرف سو روپیہ اپنی کمائی میں سے اپنی مرضی سے خرچ کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔
اسی گھٹن کی بنا پر مینا نے کمال صاحب سے علیحدگی اختیار کی۔
دھرمیندر بھی وہ ہیرو تھے جن کے عشق میں مینا نے خود کو دیوانہ کر لیا تھا۔ اتنا دیوانہ کہ مینا جی کو کہنا پڑا ‘ساری دنیا تو کافر نہیں ہو گئی ، کہیں تو میرا دھرم مجھے ملے گا’
دھرمیندر نے انھیں فلموں میں کامیاب ہونے کے لیے سیڑھی کی طرح استعمال کیا اور کامیابی حاصل کرتے ہی ان سے آنکھیں پھیر کر ہیما مالنی سے بیاہ رچا لیا۔
مینا اس غم میں مزید شراب پینے لگیں اور غموں میں ڈوب کر خود سے لاپرواہ ہوتی جلی گئیں۔
مینا کماری کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ وہ ماں بننا چاہتی تھیں مگر نجیب الطرفین کمال امروہوی صاحب کو پسند نہیں تھا کہ وہ ماں بنیں۔ ایک بار حاملہ ہوئیں تو بہانے بہانے سے لے جا کر زبردستی ان کا ابارشن کروا دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ لیڈی ڈاکٹر کو رشوت دے کر ان کی بچہ دانی ہی نکلوا دی گئی کہ وہ کبھی ماں نہ بن سکیں۔ مینا کماری نے یہ بات بھی روگ بنا کر دل کو لگا لی۔
فلم بینوں کو ان کے روتے دھوتے ظلم سہتے کردار ہی پسند تھے جن میں وہ مامتا کی ماری بچے کے پیار کو ترستی مظلوم عورت دکھائی جاتی تھیں۔ ان کرداروں میں ڈوب کر انھیں دل و جان سے ادا کرتے کرتے مینا جی سچ مچ وہی کرب، تنہائی اور درد محسوس کرنے لگیں جو ایک بانجھ عورت کی تقدیر بن جاتا ہے۔
گومتی کے کنارے سمیت کئی فلموں میں انھیں ایسے ہی کردار ملے جن میں انھوں نے ایکٹنگ کی معراج کو تو چھو لیا مگر یہ کردار ان کی بے چین روح کو مزید گھائل کرتے چلے گئے۔
انگلینڈ میں مقیم ایک شاعرہ محترمہ گل زیب زیبا صاحبہ یہی دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ مینا کماری صاحبہ کی بیٹی ہیں مگر انھوں نے کبھی اپنے اس دعوے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ ان کی شکل بھی کچھ کچھ مینا کماری جی سے ملتی ہے مگر ایسا تو کئی لوگوں کے ساتھ ہو جاتا ہے۔
مینا کماری کی کوئی اولاد ہوتی تو وہ یوں اولاد کے لیے ترستی بلکتی نظمیں نہیں لکھتیں اور رو رو کر نہ مر جاتیں۔
شش شش
سنو
اس ماں سی شیتل فضا کی خاموشی
سنو
جس کی عمر
اس کی گود میں
پتھرا چکی ہے
بچے باہوں میں دفن ہو چکے ہیں
صدیاں ہوئیں اس چہرے کو چپ ہوئے
لیکن اس کا سینہ
آج بھی گونج رہا ہے
کئی بار آئی ہوں یہاں
اس ٹھنڈے پر سکون سائے میں بیٹھ کر
اس کی مقدس خاموشی کو سنا ہے
اور پھر
بے اختیار
اس پتھرائے وقت کو
پکار لیا
ماں۔۔۔
آواز دور بہت دور ماضی کی طرف
گونجتی چلی جاتی ہے
جب وہ تمام صدیاں
مجھے ماں ماں پکارتی ہوئی
آ کر میرے سینے سے
لگ جاتی ہیں
میرا ماضی مجھ سے جنما ہے
میں اپنے ماضی سے جنمی ہوں
میں اپنی ہی ماں بھی ہوں۔
مینا کماری کو پتھر جمع کرنے کا شوق تھا۔ وہ جہاں بھی جاتیں، وہاں سے پتھر لے آتیں۔ انھیں گڑیوں سے بھی دلچسبی تھی۔ خواجہ احمد عباس صاحب روس گئے تو ان کے لیے مشہور روسی گڑیا matryoshka لے کر آئے۔ لکڑی کی اس بابوشکا ڈال میں ایک گڑیا کے اندر سے دوسری اور دوسری سے تیسری حتیٰ کہ پانچ گڑیاں یکے بعد دیگرے نکلتی ہیں۔ مینا جی اس گڑیا کو پا کر زار و قطار رو دیں کہ یہ تو میرے جیسی ہے۔ ایک بظاہر ہنستی گڑیا کے اندر روتی منہ بسورتی کئی اور شکلیں۔۔۔
مینا کماری کا ایک اور عجیب شوق بھی تھا وہ یہ کہ وہ ہر کھانے کے چیز میں نمک ملا کر کھاتی تھیں حتیٰ کہ آئیس کریم جیسی میٹھی شے میں بھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب زندگی کی شرینی میں تلخیاں گھل سکتی ہیں تو آئس کریم میں نمک کیوں نہیں؟
ان کی شاعری میں عجب درد سوز اور مایوسی کے رنگ گھلے ملے ہیں۔ اداکاری کی معراج کو چھونے والی حساس اداکارہ کی شاعری ان کے اچھوتے جذبوں کی آماجگاہ ہے۔
انھوں نے مرنے سے قبل اپنے شیعہ مسلم ٹرسٹ کا ٹرسٹی اداکارہ نرگس کو بنایا تھا۔ انھوں نے اپنی وصیت میں لکھا کہ یہ ٹرسٹ روزانہ ان کی قبر پر ایک چراغ جلائے گا۔ انھوں نے اپنے زیورات اور فرنچر اپنے رشتہ داروں میں بانٹ دیے تھے۔ مینا کماری کی وصیت میں کمال امروہوی صاحب کا نام تک نہیں تھا۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں