حالیہ فلسطین اسرائیل تنازعہ میں دنیا جنگ کے بارے میں ایک بار پھر رائے رکھنے کے حوالے سے دو گروہوں میں منقسم نظر آتی ہے۔ ایک گروہ غیر جانبدار لوگوں کا ہے جو مطلقاً ہی جنگ کے وجود کے خلاف ہیں اور یہ خواب دیکھتے آئے ہیں کہ دنیا میں چار سُو بس امن ہی امن ہو ؛ جبکہ دوسرا گروہ وہ ہے جو جس کے ہاں اگر ان کی پارٹی مخالف پارٹی پر اٹیک کرتی ہے تو یہ جنگ جائز ہے لیکن اگر مخالف پارٹی ان کی پارٹی پر اٹیک کرتی ہے تو یہ والی جنگ ناجائز ہے۔ اب اگر ایک جنرل سوال یہ ہو کہ جنگ ایک بری شے ہے یا اچھی شے ہے تو اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں ہے کہ بری یا اچھی کے آپشنز میں دیا حائے۔ اس کے لیے قدرے تفصیل میں جانا ضروری ہے۔ اگر تو آپ باطل کے ساتھ کھڑے ہیں یا کسی کے حق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں تو جنگ اچھی شے نہیں ہے لیکن اگر آپ حق کے ساتھ کھڑے ہیں یا کسی فساد کے خلاف لڑ رہے ہیں یا اپنے جائز حق کے لیے لڑ رہے ہیں یا ایک پہلے سے حملہ آور یا عنقریب حملہ آور ہونے والے سے اپنے دفاع کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں یا کسی نے آپ کے ساتھ کچھ برا کیا ہو یا پہلے حملہ کرکے کچھ بڑا نقصان پہنچایا ہو اور اب آپ مناسب بدلہ لینا چاہ رہے ہیں تو پھر نہ صرف جنگ اچھی شے ہے بلکہ ضروری شے بھی ہے۔ کم سے کم اپنی بقاء یا سروائیول کے لیے پھر جنگ لازم ہے ورنہ بیالوجیکل سائنس کے مطابق ایسی انواع مٹ جایا کرتی ہیں جو سروائیول کے لیے فائٹ نہ کرسکتے ہوں۔
اس لیے یہ محض تصویر کا ایک رخ دیکھنے والوں ،جذباتی ،بے وقوف ،بزدل ،کام چور اور غیرت کے مادے کی کمی کا شکار اور بے ضمیر لوگوں کا مؤقف ہے کہ جنگ یکسر ایک غلط شے ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ جنگ بالکل بھی لڑنا نہیں چاہتے لیکن دنیا میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو آپ کے ساتھ پھر بھی لڑیں گے۔ آپ لاکھ چاہے انہیں مذاکرات کی دعوت دیں۔ پُرامن راستہ اپنانے پر زور دیں لیکن انہوں نے لڑنے کی ہی ٹھانی ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر آپ “جنگ یکسر ایک بری شے ہے” والی پالیسی کے فالور ہیں تو یقیناً آپ کی جنگی ٹریننگ اور تیاری بھی زیرو ہی ہوگی۔ یہی معاملہ ہم نے حالیہ روس یوکرین جنگ میں بھی بہت قریب سے دیکھا۔
یوکرین کو مغربی ممالک نے یہ پٹی پڑھائی تھی کہ جنگ بری شے ہے۔ ہتھیار ختم کرنے چاہئیں اور یوکرین نے ایسا ہی کیا ،پھر آپ نے دیکھا کہ روس نے یوکرین کے ساتھ کیا کیا۔ اگرچہ یوکرین بہت چلایا کہ ہم لڑنا نہیں چاہتے مگر روس لڑنے کو زبردستی گھس گیا۔
شاہ دہلی محمد شاہ رنگیلا بھی امن پسند ،عیش پسند اور راحت پسند تھا۔ وہ بھی جنگ نہیں چاہتا تھا لیکن ایران کے نادر شاہ نے پھر بھی حملہ کرکے دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ایسے میں بس آپ کے پاس صرف یہی آپشن بچ جاتا ہے کہ دشمن کے ہاتھوں بے عزت ہوں ،اور مارے جائیں۔ آپ اگر بہت ہی اچھا بنتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ بھئ بھلے مجھے مارا جائے لیکن میں تو مخالف حملہ آور کو نہیں ماروں گا تو اگرچہ مذہب اسلام میں تو خودکشی یا خود کو نقصان پہنچنے دینا حرام ہے لیکن بعض تہذیبوں کے نزدیک ٹھیک ہے اپنی ذات کا آپ کو اختیار ہے لیکن دنیا میں اکیلے آپ کی ذات تو نہیں ہوتی۔ قدرت نے بہت سے اور لوگوں کو بھی کسی نہ کسی رشتے کی شکل میں آپ کو کفالت میں دیا ہوتا ہے جن کی حفاظت آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مثلاً ایک سربراہ خانہ کی زیر کفالت بیوی بچے اور بعض اوقات بوڑھے ماں باپ یا چھوٹے بہن بھائی ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ایک بادشاہ کی زیر کفالت اس کی رعایا ہوتا ہے۔ کسی ظالم کو اپنا آپ سونپ کر خودکشی کا اختیار تو آپ کو ہے لیکن اپنے زیر کفالت افراد کو اس کے سامنے پھینک کر مرنے دینے کا اختیار آپ کو ہرگز حاصل نہیں ہے۔ پس اس لیے بھی جنگ ضروری ہوجاتی ہے۔ ہر سُو ہر وقت امن ہی امن کا ہونا ممکن نہیں ہے۔ لیکن کوشش یہ کرنی چاہیے کہ جنگ بطور ظالم یا برائی کا ساتھ دینے والے آپ کو نہ لڑنی پڑے۔
دوسری بات یہ کہ اگر آپ کسی معاشرے یا ملک میں رہتے ہوں تو آپ کی کسی کے خلاف جنگ، قانون ہاتھ میں لینے پر مبنی نہ ہو۔ عالمی سطح پر ایک نظریہ یہ ہے کہ اگر ساری دنیا کے انسان ہم خیال ہوجائیں تو لڑائیاں ختم ہوجائے گی، یہ بھی خام خیالی ہے کیونکہ اول تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ کائنات کا نظام اختلافات کی وجہ سے قائم و دائم ہے۔ دن ہے تو رات بھی ہے۔ خوبصورتی ہے تو بدصورتی بھی ہے۔ عقل ہے تو بے وقوفی بھی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ بالکل اسی طرح جنگ ہے تو امن بھی ہوگا اور اگر امن ہو تو جنگ بھی ہوگی۔ اختلافات ختم ہوجائیں تو کائنات ہی باقی نہ رہے۔ لہٰذا جنگ ایک حقیقت اور زندگی کا حصہ ہے اور یہ کہ جنگ اور امن ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جیسے فزکس میں ریسٹ اور موشن ریلیٹیو ٹرمز ہیں ایسے ہی جنگ اور امن ریلیٹیو ٹرمز ہیں۔ جنگ کو تسلیم کرنا سیکھیں اور اس کے لیے تیار رہنا سیکھیں۔ آنکھیں بند کرنے سے بلی نہیں بھاگتی۔
اگر انسان ہم خیال ہو بھی جائے تو تب بھی صرف نظریے اور خیالات کے لیے ہی انسان آپس میں نہیں لڑتے۔ لڑنے کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں۔ مادی ضروریات بھی انسانوں کو لڑاتی ہیں۔ آپ بیالوجی میں فوڈ ویب کے بارے میں پڑھیں۔ اس میں اپنی بقاء یعنی اپنی خوراک کے لیے ایک جاندار کو دوسرے کو مارنا پڑنا ہے یعنی کھانا پڑتا ہے۔ فوڈ ویب کے کیس میں جاندار مادی ضروریات پوری کرنے کے لیے جنگ لڑ تے ہیں۔ کیا ایک امن پسند شخص اب یہ کہہ سکتا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے؟ اگر ایسا نہ ہو تو پھر تو نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ نظام ختم ہوجائے گا۔ لڑائی معاشرتی برائیوں کے خلاف بھی لازم ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے مثلاً پولیس وغیرہ اور سماجی کارکنان معاشرتی برائیوں کے خلاف لڑتے ہیں۔ یہ بھی ذہن میں ہو کہ ضروری نہیں جنگ سے مراد ڈائریکٹ ہتھیار اٹھاکر اور خون خرابہ کرکے لڑنا ہو بلکہ جنگ یعنی جہاد کی بہت ساری اقسام ہیں۔ لہٰذا دنیا میں رہنا ہے تو بہرحال کسی نہ کسی موڑ پر کہیں نہ کہیں آپ کو کسی نہ کسی شکل میں تو جنگ لڑنی ہی پڑے گی۔ جنگ کی مثال ایک ٹول کی سی ہے اور کوئی ٹول یا اوزار بذات خود برا یا اچھا نہیں ہوتا۔ برا یا اچھا اس کو اس کا استعمال بناتا ہے۔ لہٰذا بجائے جنگ ہی نہ لڑنے کے حق و سچ اور اپنی بقاء کے لیے جنگ لڑنا سیکھیں اور حق و سچ کے لیے لڑی جانے والی جنگ سے پیار کیجیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں