جنگ کبھی منطقی حل فراہم نہیں کرتی ہے بلکہ جنگ دراصل فاتح و مفتوح کے درمیاں طاقت کا گویا ایک دائرہ ہے. طاقت کے اس دائرہ میں کبھی ایک فاتح اور دوسرا مفتوح ہوتا ہے تو کبھی دوسرا فاتح اور پہلا مفتوح ہوتا ہے. منطقی و منصفانہ حل جنگ کا منتہائے مقصود ہی نہیں ہوتا بلکہ جنگ کا ہمیشہ ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے اور وہ ایک کی فتح اور دوسرے کی شکست ہوتی ہے۔
جنگ دراصل طاقت و قوت کی بنیاد پر لڑی جا تی ہے چنانچہ نتیجتاً فیصلہ بھی طاقت ور کا ہی نافذ ہوتا ہے. دنیا کی سابقہ تاریخ اسی حقیقت کا گویا تجرباتی و مشاہدتی ثبوت ہے. دنیا کی سابقہ تاریخ پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کبھی نصف دنیا پر مسلمان حکمران ہیں تو کبھی اسی نصف دنیا پر مغرب کا تسلط قائم ہے. بغداد و اسپین کبھی مسلمانوں کے تہذیبی مراکز ہیں تو کبھی تاتاریوں و مسیحوں نے انکو گویا تار تار کر دیا ہے۔
منطقی, منصفانہ اور دیرپا حل ہمیشہ باہم مذاکرات اور افہام و تفہیم سے نکلتا ہے. انفرادی و خانگی نزاعات سے لے کر بین الاقوامی نزاعات تک تمام حل ہمیشہ مذاکرات یا باہمی معاہدات نے ہی فراہم کیے ہیں۔
جنگ ہمیشہ طاقت, غصے اور انتقامی جذبات کی بنیاد پر لڑی جاتی ہے اور مذاکرات ہمیشہ استدلال سے کیے جاتے ہیں. مذاکرات کی میز پر فریق ثانی کا موقف سننا گویا مجبوری ہوتی ہے۔
مذاکرات یوں بھی سود مند ہوتے ہیں کہ مزاکرات کبھی تنہائی میں نہیں ہوتے بلکہ انفرادی و سماجی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی کچھ دوسرے فریقن بطور ثالث و ضامن مذکرات میں شامل ہوتے ہیں. یہ فریقین عام طور پر یا کم ازکم انکا عمومی تاثر یہ ہوتا ہے کہ وہ غیر جانب دار ہیں لہذا اس طرح سے ناصرف یہ کہ منصفانہ یا کم از کم حد قابل قبول حل نکلنا عین ممکن ہوتا ہے. مذاکرات میں برخلاف جنگ کے کسی ایک فریق کی جیت یا ہار نہیں ہوتی بلکہ دونوں فریقین کچھ دو اور کچھ لو کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور یہ صورت دونوں فریقین کے لیے مثبت نتائج بر آمد کرتی ہے۔
انسانی تاریخ کا ہر عہد اپنے ماقبل سے مختلف ہوتا ہے اور اسکے تقاضے و ضوابط بھی مختلف ہوتے ہیں. طاقت بطور قوت فیصل ماضی کے بادشاہتی نظام کا حصہ ہے. موجودہ جمہوری دور قوانین و اصولوں کا دور ہے اور اس میں مسائل کا حل بھی انہی قوانین و ضوابط کے تحت ہی نکلتا اور مانا جاتا ہے۔

میرا احساس یہ ہے کہ اس وقت جو بین الاقوامی مسائل مختلف اقوام کے مابین باعث نزاع ہیں ان کا حل جب کبھی نکلے گا وہ معاہدات و مذاکرات ہی سے نکلے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں