ڈپریشن اور خودکشی/ڈاکٹر راؤ کامران علی

ملحد یا کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے بڑے پیارے لوگ ہوتے ہیں! اگر آپ نوٹس کریں تو ہماری زندگی کی نفرت کا بڑا حصہ مذہب سے بالواسطہ یا بلاواسطہ منسلک ہوتا ہے۔ مثلا ّبطور مسلمان ہم نے ایویں ہی یہودی سے نفرت کرنی ہے خواہ وہ خود اسرائیل کو نہ مانتا ہو؛ خواہ وہ ہمارا میڈیکل ٹریننگ میں مینٹر ہو اور خواہ ہم اسکی کتابیں فوٹو اسٹیٹ کروا کر پڑھ کر اسکو رائلٹی دئیے بغیر ڈاکٹر انجنئیر بن گئے ہوں! جو خالص ملحد ہیں وہ سائنس اور دلیل کی بات کرتے ہیں اور کسی مذہب یا عقیدے پر نہ یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی اسکا ٹھٹھہ کرتے ہیں۔

مملکت پاکستان کا تو نصیب ہی ایسا ہے کہ ہمیں تو ملحد بھی ملاوٹی ملے؛ نفرت سے بھرے، طنز سے اٹے، بغض اور حسد اتنا کہ جوان سال کی لاش گھر پر پڑی ہو اور اس کے مبلغ باپ کا مذاق اڑا رہے ہوں!تعلیم سب کی واجبی؛ ایک دو ارتقا پر کتابیں پڑھ لی ہیں؛ اور دے دھنا دھن! سونے پر سہاگہ اگر کوئی سڑک چھاپ ملحد دھکے کھاتا یورپ یا کینیڈا پہنچ جائے تو وہ تو باکل ہی مان نہیں۔ان کی زبان اور قلم سے خدا سے لیکر اسکا کوئی ماننے والا محفوظ نہیں! اور آج کل میٹرک یا بی اے  پاس “ارتقائیوں” کا نالج ڈپریشن پر برس رہا ہے۔

پوری دنیا میں ہر سال ڈپریشن سے خودکشی کرنے والوں کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ سے اوپر ہے جبکہ امریکہ میں سی ڈی سی کے مطابق پچاس ہزار سے زائد لوگ ڈپریشن سے خود کشی کرتے ہیں۔ اب ان جاہل لبرلوں ملحدوں سے کوئی پوچھے کیا ان سب کے باپ طارق جمیل تھے؟ ایک سو تیس فٹ کی حور کا اس سے کیا تعلق؟ امریکہ میں تو ہم جنس پرستی سے کوئی نہیں روکتا تو یہ بھی کوئی وجہ نہیں کسی کی خود کشی کی! نہ روٹی پانی کا ایشو؛ نہ بے وفا ہرجائیوں کے رولے! تو یہ خود کشیاں کیوں؟

کرونک ڈپریشن ایک بے حد خطرناک بیماری ہے۔ جیسے ماں باپ کے ڈانٹنے یا غصہ کرنے سے کسی کو کینسر نہیں ہوسکتا ایسے ہی اسکے باعث کوئی خودکشی نہیں کرتا ورنہ ہم میں سے زیادہ تر کی اتنی چھترول ہوئی ہے کہ ہم شاید زندہ نہ ہوتے لیکن اسی سختی کی وجہ سے ہم آج موجیں مار رہے ہیں۔ تو اگر ہمارے ماں باپ کو سختی کی سزا نہیں ملی تو جو خود کشی کر چکے ہیں ان کے ماں باپ کیوں تل تل مریں! لیکن اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اولاد کے ساتھ سختی ٹھیک عمل ہے تاہم یہ خودکشی کی وجہ ہے بھی تو ایک فیصد سے زیادہ نہیں!

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ تعالیٰ مولانا طارق جمیل کو صبر اور انکے مرحوم بیٹے کو جنت میں جگہ عطا فرمائے! آمین! اسکے ساتھ ساتھ ہمارے کچھ دوست جو شاید یہ پڑھ رہے ہوں، انکے بچے بھی ایسے ہی ڈپریشن سے خود کشی کر چکے ہیں؛ یقین مانیں اس میں آپکا کوئی قصور نہیں! اگر وہ بچے کینسر سے فوت ہوتے تو کیا آپ روک سکتے تھے؟ یقیناً نہیں! ایسے ہی آپ یہ خود کشی نہیں روک سکتے تھے! اپنے آپ کو سزا مت دیں! گلٹ مت محسوس کریں! جتنا ہوسکتا ہے ڈپریشن کے حوالے سے آگاہی بڑھائیں اور سب کو پتا ہو کہ یہ کوئی taboo نہیں۔ بچوں پر زیادہ سٹریس یا مقابلے کا بوجھ مت ڈالیں!
ڈپریشن کا علاج موجود ہے؛ لیکن پھر بھی اموات ہوتی ہیں جیسے بلڈ پریشر کا علاج ہونے کے باوجود ہارٹ اٹیک ہوتے ہیں۔ بس کوشش جاری رکھیں! اور اس بارے میں بات کرنے سے پہلے کچھ آگاہی ضرور حاصل کرلیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply