سائنٹیفک کرپشن crony capitalism – (۱)/احمر نعمان

صدر کینیڈی کے بھتیجے رابرٹ کینیڈی جونیئر معروف ایکٹویسٹ ہیں جو دریائے ہڈسن میں بڑھتی آلودگی کے خلاف مہم سے معروف ہوئے، جب انہوں نے کیمیکل پلانٹس، آئل مافیا، سیمنٹ انڈسٹری وغیرہ پر کیس کر کے سینکڑوں کیس جیتے(400 سے زائد تعداد ہے شاید)،ان کا کہنا ہے کہ یہ کام سرکار کا تھا، مگر سرکار اُلٹا آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں،کیمیکل انڈسٹری اور آئل مافیا کے مفادات کے لیے کام کرتی ہے، نتیجہ یہ ہُوا کہ کارپوریٹ سیکٹر نے یہاں کے میٹھے پانی کی ہر مچھلی کو آلودہ کردیا جن میں مرکری پایا جاتا ہے۔ انہی کا ادارہ چونکہ کیمیکل اور مرکری کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا ،جب انہیں ان بچوں کی ماؤں کی ایک تنظیم نے اپروچ کیا جن کے بچے ذہنی معذوری یا آٹزم کا شکار تھے، اور ان میں سے ایک ماں تقریباً   20  ملین ڈالر کا کیس جیت چکی تھی ،کہ اس کے بچے کی معذوری کی وجہ مرکری تھی جو کسی ویکسین کا نتیجہ تھی۔

ان کی ایک بات دلچسپ لگی جہاں وہ آزاد منڈی والے سرمایہ داری نظام Free market capitalism کی جگہ امریکی نظام کوcrony capitalism کہتے ہیں۔ یہ Kleptocracy کا مترادف ہی ماننا چاہیے، جہاں بدعنوان سیاسی قوتیں عوام کی دولت/زمین وغیرہ ہڑپ کرتے جاتے ہیں مگر سب بہت اچھا اور خوشنما دکھایا جا رہا ہوتا ہے، ان کا کہنا ہے امریکی فارماسیوٹیکل انڈسٹری ایک کریمنل انڈسٹری ہے اور اس بات کا ثبوت ۳۵ بلین ڈالر کے وہ جرمانے ہیں جو ان کمپنیوں نے دس سال میں بھرے ہیں۔

اب یہ حالت ہے کہ آج ہر ۳۰ میں ایک بچہ آٹزم autism کا شکار ہے، ان کے بچپن میں کسی نے peanut allergy کا سنا بھی نہیں تھا آج ہر کلاس میں چند بچے اس الرجی کا شکار ہوتے ہیں اور اس قدر کہ موت کے کنارے پہنچ جاتے ہیں، یہاں اب اسکولوں میں مونگ پھلی لے کر جانا کیا، اگر کوئی کھانے کی چیز اس میں بنی ہو وہ بھی منع ہے، اور ایک میرے دوست کے بیٹے کی تو یہ حالت ہے(جو کافی عام کیس ہے) کہ اگر آپ Nuts صبح کھا کر دوپہر کو بھی اس کے پاس جائیں تو اس پرشدید حملہ ہوتا ہے، اس قدر شدید کہ جان  پر  بن آتی ہے۔ اب یہ چیزیں یہاں کے پرانے گوروں سے پوچھیں تو ان کے بچپن میں بھی موجود نہیں تھیں یا اس قدر عام نہیں تھیں، اس کا الزام کینیڈی کے علاوہ بھی بہت سے لوگ ویکسینیشن پرلگاتے ہیں۔ کینیڈی جونیئر آگے فرماتے ہیں کہ FDA کا  60  فیصد بجٹ منافع بخش فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے آتا ہے۔ ایک اور ادارہ center of disease control and prevention (CDC) کووڈ کے بعد معروف ہوا، جس کا ۱۲ بلین ڈالر بجٹ ہے مگر  6  بلین ڈالر کی اس نے ویکسین خریدنا ہوتی ہے۔ اب یہ ویکسین بنتی کیسے ہے، اس کی کہانی اس سے بھی عجیب ہے، NIH عموما ً بنا کے آگے فارماسیوٹیکل انڈسٹری کو ‘ٹور’ دیتا ہے، فارماسیوٹیکل مافیا اپنی مرضی سے نتائج تشکیل دیتے ہیں، اس لیے ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں، پھر رائلٹی کا پیسہ دونوں ادارے مل کر کھاتے ہیں۔ یہاں ان کی گفتگو ختم ہوتی ہے۔

میرا میڈیکل سے تعلق نہیں اس لیے اس پر تو حتمی رائے نہیں دے سکتا مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جہاں ان کی ہر بات سے اتفاق ممکن نہیں، ان کی باتیں یکسر جھٹلانی درست نہیں، کیسز اس بات کے گواہ  ہیں اور ہر قسم کی ویکسین  جوہری طور پر خطرناک ہی ہوتی ہے، مگر کارپوریٹ سیکٹر (جو یہاں پر فارماسیوٹیکل مافیا مان لیا جائے) جتنا سبز باغ دکھاتے ہیں، گھاس اتنی سبز نہیں ہوتی جو ہر ویکسین کو محفوظ مان کرہر بچے پر زبردستی استعمال کرائی جاتی ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ویکسین کرانی چھوڑ دی جائے مگر طریقہ اور یہ ‘نظام’ یقیناً  تبدیلی چاہتا ہے۔ اور آئیے اب اس پر غور کرتے ہیں جو انہوں نے نہیں کہا اور ایک قدم پیچھے جا کر وجوہات دریافت کرتے ہیں۔

ایک دور تھا امریکہ  میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اور نیشنل سائنس فاؤڈیشن جیسے اداروں کی مدد سے امریکی سرکار، یونیورسٹیوں کو ریسرچ گرانٹ دیا کرتی۔ مقابلہ سخت تھا، مگر خالص “حصول علم” کی خاطر ریسرچ ہوا کرتی، مگر اس crony capitalism نے یہ کام کمرشل کیا اور گزشتہ تین دہائیوں میں ہی اس انڈسٹری – اکیڈیمیا -سرکار کی پارٹنرشپ نے تعلیم، علم، ادویات، میڈیکل اور نظام صحت کو ایسا تباہ کر دیا کہ خوف آتا ہے۔

دہائیاں قبل ۱۹۶۱ میں صدر آئزن ہاور نے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے بڑھتے ہوئے ‘ناجائز’ تعلقات پر متنبہ کیا تھآ کہ اس کے نتائج درست نہیں ہوں گے، مگر بدقسمتی سے اس سے بھی بُرا حال ہوا جب ایک کالا قانون Bayh- Dole act ۱۹۸۰ میں پاس ہوا، اس قانون سے قبل نان پرافٹ یونیورسٹیاں تحقیق برائے تحقیق اور تحقیق برائے حصول علم ، تحقیق برائے انسانی فلاح و بہبود کیا کرتی تھیں، مگر اس قانون سے نان پرافٹ یونیورسٹیوں کو اجازت مل گئی کہ وہ ریسرچ کریں، پیٹنٹ کو کمرشلی استعمال کریں اور پیسہ بنائیں، پیسہ آیا تو بس ریسرچ، تعلیم اور علم سب فارغ ہوگیا۔

سائنسدان اب پیٹنٹ کرتے ہیں اوران سے پیسہ بناتے ہیں، اس سے قبل یونیوسٹی تحقیق اور پیٹنٹ کو کمرشل استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا، ایک قانون سے ہی یونیورسٹیاں اس میڈیکل انڈسٹریل کمپلیکس کا ایک حصّہ بن گئیں اور تنزلی کا سفر آج تیز تر ہے۔ اس قانون کے محض ایک ہی سال بعد ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر جناب ڈیرک بوک کو کہنا پڑا کہ یونیورسٹیوں کو انڈسٹری کی فنڈنگ برباد کر دے گی، درس گاہوں کا مقصد علم کی تلاش ہے نہ کہ ان کا آلہ کار بننا۔

پہلے یونیورسٹیوں میں ریسرچ کی جاتی تھی، ۱۹۹۰ تک اسی ۸۰ فیصد ریسرچ یونیورسٹی سطح پرکی جاتی تھی، ان قوانین اور فارماسیوٹیکل مافیا کے آنے کے بعد سے ۲۰۰۴ یعنی چودہ سالوں میں ہی خالص ریسرچ ۸۰ فیصد سے گر کر ۲۶ فیصد رہ گئی، اور باقی۷۴ فیصد منافع کمانے والی کمپنیاں لے گئیں۔

julia rana solicitors

اب کیا ریسرچ کرنی ہے اور کیسے کرنی ہے، یہ یونیورسٹی کے محقق نہیں بلکہ یہ فارماسیوٹیکل انڈسٹری فیصلہ صادر کرتی ہے، innovationاور ایجادات و اختراعات کا رشتہ اب نفع سے ہے، نہ کہ انسانی فلاح سے۔ چونکہ اب یونیورسٹیاں اس کی مجاز ہی نہیں، تواب کلینکل ٹرائلclinical trial کا ڈیٹا تک صرف وہ کمپنی رکھتی ہے جس نے فنڈ کیا ہو۔ مجھے کوئی دکھا دے کہ کووڈ کے کلینکل ٹرائل کا ڈیٹا کہاں ہے اور کونسا ڈاکٹر پبلکلی استعمال کر سکتا ہے؟ فائزرPfizer اس مافیا کے بڑے کھلاڑیوں میں سے ایک ہے، جس کی حالیہ کووڈ ویکسین کو من و سلویٰ  بنا کر پیش کیا گیا، اس نے امریکی تارِیخ کا سب سے بڑا جرمانہ بھرا ہے اور کونسا پہلی بار بھرا ہے، سکرین شاٹ میں ایک آدھی تصویر اس لیے کہ فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے جرمانے کی رقوم کو ایک نظر دکھایا جائے اور خاص کر فائزر نے ہی سن ۲۰۰۰ کے بعد جتنے جرمانے بھرے ہیں، ان کی تعداد دس بلین ڈالر سے زائد جا چکی ہے۔ یہ ایک کٹ تھروٹ ریس ہے، جس میں بدقسمتی سے تھروٹ ہمارے اور ہمارے بچوں کے کٹ رہے ہیں۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply