نواز شریف اور جمہوریت/اظہر سیّد

وقت کا تیز دھارا حالات کو اس نہج  پہ لے آیا ہے  کہ جمہوریت کیلئے قربانی پھر سے پیپلز پارٹی کو دینا پڑے گی ورنہ مسلم لیگ ن جمہوریت کی بجائے پانچ سالہ حکومت کیلئے مالکوں کو پھر سے طاقتور کر دے گی ۔جنرل مشرف نے کارگل کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت غیر آئینی طور پر ختم کی تو محترمہ بینظیر بھٹو نے  تو جنرل مشرف کو مبارکباد دی ۔پیپلزپارٹی اس مبارکباد کے ساتھ چلتی رہتی تو مالکان تحریک انصاف کا بیج لگاتے اور نہ نوسر باز کو ہیرو بنایا جاتا بلکہ
پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کی بجائے خود محترمہ بینظیر بھٹو کی اجازت سے پیپلز پارٹی جنرل مشرف کی حکومت کا حصہ بنتی اور بی بی کی جان بھی نہ جاتی۔

بی بی نے میثاق جمہوریت پر نہیں بلکہ اپنی موت کے پروانے پر دستخط کئے تھے ۔ بی بی جمہوریت کے خواب کی تعبیر کیلئے مالکوں کے زیر عتاب میاں نواز شریف کے جھانسے میں آگئیں ۔ بی بی کو سمجھنا چاہیے تھا ان کا تعلق سندھ سے ہے ۔ قدرت نے میثاق جمہوریت کی سزا دی تو ان پر حملہ کامیاب ہو جائے گا اور پنجاب کے میاں نواز شریف پر ناکام ہو جائے گا ۔ہوا بھی یہی ۔ ایک ہی دن دو حملے ہوئے ۔لیاقت باغ والا حملہ کامیاب ہوا اور راولپنڈی ایکسپریس وے پر نواز شریف پر ہونے والا حملہ ناکام ہو گیا ۔

بی بی جانتی نہیں تھی میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والے میاں نواز شریف کل کالا کوٹ پہن کر پیپلز پارٹی کے وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ کے ان پالتو ججوں کے سامنے پیش ہو جائیں گے جو مالکوں کے اشارے پر دم ہلاتے ہوئے کبھی شاعرانہ تشبیہات استعمال کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کو سزا وار ٹھہراتے ہیں اور کبھی خود نواز شریف کو سیسلین مافیا کہتے ہوئے نااہل کر دیتے ہیں ۔
نوسر باز کے ناکام تجربہ نے گیند پھر سے میاں نواز شریف کی کورٹ میں پھینک دی ہے ۔ن لیگ میں بے شمار فاختائیں ہیں ۔خواجہ آصف اور میاں شہباز شریف سے لے کر پہلی ،دوسری اور تیسری صف کی قیادت “ماضی کو بھلائیں اور مل جل کر چلیں” کے فلسفہ کو ہی سیاست کا حاصل سمجھتی ہے ۔

ہمیں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور بی بی کے بیٹے بلاول بھٹو پر کوئی شک نہیں ۔اس پارٹی کی بنیادوں میں جموریت کیلئے جان دینے کی وہ صلاحیت ہے مسلم لیگ ن اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتی ۔

آصف علی زرداری نے اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے جنرل راحیل شریف کو للکار  تھا ۔اس وقت میاں نواز شریف “سکون سے حکومت کرو”کے مائنڈ سیٹ کی بجائے آصف علی زرداری کا ہاتھ تھام لیتے تو حکومت بھلے جاتی لیکن نوسر باز کا تجربہ نہ ہو پاتا ۔

حکومت تو پھر بھی میاں نواز شریف کی نہیں بچ سکی ۔جنرل راحیل شریف نے توسیعِ نہ ملنے پر ڈان لیک اور ففتھ جنریشن وار کو جو گدھا میاں نواز شریف پر چھوڑا وہ مالکوں کے تقدس کی گھاس ہڑپ کر گیا اور معیشت بھی دیوالیہ کر گیا لیکن میاں نواز شریف کی چلتی پھرتی مستحکم حکومت بھی کھا گیا ۔

آج حالات مالکوں کو پسپائی کی سطح پر لے آئے ہیں ۔اس موقع پر میاں نواز شریف کو جمہوریت یا پانچ سالہ حکومت میں سے ایک انتخاب کرنا ہے ۔

پیپلز پارٹی چاہے تو مالکوں کی معشوق بننے کیلئے میاں نواز شریف کے سر پر لٹکتی تلوار بن سکتی ہے لیکن پیپلز پارٹی آج پھر اسی مقام پر کھڑی ہے جہاں محترمہ بینظیر بھٹو جنرل مشرف کو مبارکباد دینے کے بعد کھڑی تھیں اور میثاق جمہوریت کی دعوت ملنے پر مالکوں کا ہاتھ جھٹک کر میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہو گئیں تھیں ۔

بی بی کی جگہ آج آصف علی زرداری کھڑے ہیں اور مالکوں کا حلیف بننے کی بجائے میاں نواز شریف سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ اس مرتبہ انہوں نے کسی راحیل شریف کو چیلنج کیا تو میاں نواز شریف آصف علی زرداری سےملاقات سے انکار نہیں کریں گے اور انہیں بے بسی کے ساتھ بیرون ملک نہیں جانا پڑے گا ۔

julia rana solicitors london

اس ملک کی بقا ترقی مہذب جمہوری ریاست بننے میں ہے ن لیگ کی آئندہ حکومت اس فلسفہ کے مطابق چلی تو جمہوریت کی منزل مل جائے گی ورنہ ستتر سالوں کا تجربہ رکھنے والے معیشت مستحکم ہوتے ہی کسی اور گدھے کو ہرے بھرے کھیت میں چھوڑ دیں گے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply