گھر تو آخر اپنا ہے/حسان عالمگیر عباسی

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وطنیت اور زمین سے الفت اور پیار ڈھکا چھپا ہی سہی بہرحال کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستان اور سبز پہچان کی قدر و قیمت جانتے ہوئے ٹیم پاکستان یا کسی بھی خوشی کی حمایت میں پانچ قدم آگے ہوتے ہیں اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے اپنی زبان تر کر لیتے اور گلیوں کوچوں کو کم ہی سہی سبز رنگ سے مزین کر لیتے ہیں اور یہ اس بات کی نشانی ہوتی ہے کہ ملک کے حالات جیسے بھی بنا دیے گئے بہرحال گھر اپنا ہی ہے اور یہ دوبارہ قائم و دائم ہوتا نظر آئے گا۔
ایسے میں جب بھی کوئی دن آئے: یوم پیدائش (وطن کی پیدائش)، یا ہمارے ہیروز کا دن، یا کچھ بھی تو یہ خوش آئند ہے چونکہ گھرداری کے یہی اصول و ضوابط ہوتے ہیں کہ دنوں کو منایا جائے اور برائی اور بروں کا احتساب کڑا رکھا جائے۔ باقی دنیا ساری انسانوں کی ہے۔ انسان دنیا کے جس بھی کونے میں رہے سکھی رہے، سکھی رکھے، تو یہی فطری تقاضا ہے۔
ہمارے دنوں کو تنازعات کی نذر نہیں ہونا چاہیے وگرنہ یک جان دو قالب والا تصور پھیکا پڑ سکتا ہے۔ ملک کا بچہ بچہ سکولز اور دیگر اداروں میں قومی ترانے اور لب پہ آتی ہے اور دیگر نغموں سے گزر کر جاتا ہے اور ان کی کنڈیشننگ ہو جاتی ہے اور یہ سب کے لیے ایک فخر کا باعث ہے اور نئی کنڈیشننگ بدہضمی پیدا کر لیتی ہے۔ یہ چمن ہے اور اس چمن میں بہار، خزاں، سردی، گرمی سب اپنے ہی ہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply