حیدر آباد جیسے شہر میں مجھے بہت سے مقبرے اور سندھی ثقافت سے مزین عجائب گھر تو ملیں گے ہی لیکن ساتھ میں ایک منفرد طرزِ تعمیر کا حامل ایسا گھر بھی دیکھنے کو ملے گا یہ میں نے نہیں سوچا تھا۔ اگرچہ میں اپنے دوست جناب اکرم چھیپا صاحب کی تصاویر دیکھ چکا تھا لیکن اس جگہ کو خود جا کے دیکھنے کی خواہش تھی۔بقیہ سندھ کی طرح حیدرآباد میں بھی ایک بڑا کاروباری طبقہ ہندو تھا جنہوں نے نا صرف اس شہر کی تجارت بلکہ ثقافت اور طرز تعمیر پر بھی گہرا اثر ڈالا۔
عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ ہندو سیٹھوں اور تاجروں نے دل کھول کے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اپنے مکان یا مندر بنوائے جو اس دور میں شاہکار سمجھے جاتے تھے۔ پھر تقسیم کے بعد یہ سب ہم جیسے بدذوق لوگوں کی جھولی میں آن گرے۔ حیدر آباد کا مُکھی ہاؤس بھی انہی شاہکاروں میں سے ایک ہے۔
حیدرآباد شہر کے اندر پکا قلعہ روڈ پر واقع یہ گھر 1920 میں ایک بااثر سندھی ہندو خاندان کے سربراہ مکھی پریتم داس کے بیٹے مُکھی جیٹھ آنند جی نے اپنی رہائش کے لیے ذوق و شوق سے تعمیر کروایا تھا۔ اس گھر میں بارہ کمرے، دو بڑے ہال اور صحن شامل ہیں۔ مُکھی پریتم داس کے دو بیٹے تھے۔ مُکھی جیٹھ آنند اور مُکھی گوبند رام۔ جبکہ مُکھی جیٹھ آنند کے چار بچے تھے، ٹِلی، گووَردھن، دھرم اور رام۔
مُکھی خاندان اس محل نما گھر میں صرف26 سال رہا، پھر تقسیم عمل میں آ گئی تو یہ خاندان ہندوستان ہجرت کر گیا۔ سنہ 1956 کے بعد یہ گھر مکمل طور پر خالی ہو گیا۔
خالی ہونے کے بعد یہاں کچھ عرصے تک ریکارڈ آفس قائم ہوا، جس دوران اس گھر کے دو کمرے انتظامیہ کی طرف سے استعمال ہوتے رہے لیکن باقی عمارت زیادہ تر خالی رہی۔
1970 کی دہائی میں حیدرآباد میں لسانی فسادات کے دوران مُکھی ہاؤس کو بھی سرکاری دفتر سمجھتے ہوئے ہجوم نے آگ لگا دی تھی۔
پھر رینجرز کے دفتر اور لڑکیوں کے اسکول سے ہوتے ہوئے یہ عمارت ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کی نظر میں آ گئی۔ امریکا میں قیام کے دوران جب لاشاری صاحب کی ملاقات مکھی جیٹھ آنند کی بیٹی دھرم سے ہوئی تو انہوں نے اپنے خوبصورت بچپن کے اس گھر کو محفوظ کرنے کی خواہش کا شدت سےاظہار کیا جس پر لاشاری صاحب نے آمادگی جتاتے ہوئے 2006 میں سندھ حکومت سے رابطہ کیا اور انہیں حیدرآباد میں ایک ایسا میوزیم بنانے پر قائل کر لیا جو تقسیم سے پہلے اس شہر کے ہندو ثقافتی ورثے کا عکاس ہو۔ سندھ حکومت نے حامی بھرتے ہوئے اس پراجیکٹ پر فوراً کام شروع کرنے کا کہا۔
قیامِ پاکستان سے پہلے کا تعمیراتی سامان ڈھونڈ کر اس گھر کی مرمت کی گئی اور فرش بنایا گیا۔ پھر کھڑکی دروازے اور دیگر سامان بھی پہلے جیسا ہی بنایا گیا۔ آپ دیکھیں گے کہ ہندوستان کی کاریگری فرش کے کام، لکڑی کی تفصیلات، اور چھتوں کے ڈیزائن میں واضح نظر آتی ہے۔
مُکھی خاندان کی تصاویر اور ان کے استعمال میں جو سامان تھا اسے یہاں سلیقے سے رکھا گیا اور پھر یہ میوزیم عوام کے لیے کھول دیا گیا جسے دیکھنے جیٹھ آنند کے نواسے اور دھرم آنند کے بیٹے ڈاکٹر سریش آنند بھی یہاں پہنچے۔ وہ یقیناً خاموشی سے اس گھر کی دیواروں سے لپٹ کر روئے بھی ہوں گے، کہ یہاں ان کی ماں کے بچپن میں گندھے قہقہے جو گونجتے رہے ہیں۔ ان کی ماں اسے ”مُکھی محل” کہا کرتی تھیں اور واقعی یہ گھر اب کسی محل سے کم نہیں لگتا۔
یہ گھر اس علاقے میں واقع دیگر عمارتوں سے بہت مختلف ہے کہ یہ ایک اونچے چبوترے پر واقع ہے۔
دو منزلہ گھر کے لکڑی سے بنے خوبصورت داخلی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی سامنے ایک چھوٹا سا کاؤنٹر آتا ہے، جہاں سے ٹکٹ خریدنے کے بعد آپ اوپر کی طرف جا نکلتے ہیں۔
کاؤنٹر کے ساتھ بنی سیڑھیوں پر چڑھتے ہی مُکھی ہاؤس کی سرمئی اور بلند و بالا عمارت پر نظر پڑتی ہے جس کے ستون اور محرابیں آپ کی توجہ ہٹنے نہیں دیتے۔ اندر داخل ہوتے ہی دائیں جانب اوپر کو لال کارپٹ سے مُزین ایک زینہ ہے، جبکہ سامنے مرکزی ہال اور کمرے ہیں۔ چونکہ اب یہ گھر ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے سو یہاں رکھا سارا قیمتی سامان آپ کو حفاظتی زنجیروں سے گِھرا نظر آئے گا۔
بیڈ روم، کھانے کا کمرہ، مرکزی ہال اور صحن کے علاوہ یہاں ایک کمرے میں مُکھی خاندان کی مختلف تصاویر بھی سجائی گئی ہیں جن سے ان کی حیثیت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ چھتوں پر خوبصورت کام، دیدہ زیب فرش اور پرانے زمانے کے ذیزائن والے کھڑکی دروازے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہاں رکھی منفرد اشیاء میں ایک پرانی مُسہری، پورسلین کے برتن، ٹائپ رائٹر، ایک پرانا ٹو پیس فون، ریڈیو اور دیگر فرنیچر شامل ہیں۔ یہاں ایک کمرے میں حیدر آباد کے مشہور مقامات کی تصاویر اور صوبہ سندھ کے مختلف تاریخی مقامات سے ملنی والی اشیاء (جیسے برتن اور مٹی کی ٹائلیں) بھی رکھی گئی ہیں۔
کہتے ہیں کے تقسیم سے پہلے اس گھر میں بڑے بڑے لوگ مہمان بن کے آتے تھے جن میں پنڈت جواہر لعل نہرو کا نام بھی شامل ہے۔ حیدرآباد میں تارا چند اسپتال بھی مکھی خاندان نے بنوایا ھا۔ انہی تارا چند صاحب کے زیرِ استعمال سامان کو مکھی ہاؤس کے ایک کمرے میں رکھا گیا ہے۔
یہ میوزیم حیدر آباد جیسے شہر کے لئے یقیناً ایک قابلِ فخر تاریخی ورثہ ہے جبکہ ہم جیسے سیاحوں کی تشنگی دور کرنے کا اہم ذریعہ۔ سو حیدرآباد جاتے ہی مکھی محل کا دورہ کریں جو صبح گیارہ بجے سے شام پانچ تک سیاحوں کے لیئے کھلا ہوتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں