“رضعاء سے آغوش حلیمہ تک”آمنہ کے جائے کو ہر آنکھ دیکھ اور ہر دل مسکرا رہا ہے۔
ہارث ابو طالب عباس
آنکھ سینہ اور مکھڑا آنکھوں میں لیے بچھڑ گئے جوان بھائی عبداللہ کو یاد کر رہے ہیں!
ام جمیل کی تو بات ہی الگ ہے
خدا جانے اسکی آنکھ میں نقش ہوتا محمد کا چہرہ اسکے دل پہ کیا اثر چھوڑ رہا ہے
جل تھل سے محروم مٹی اپنے ہی اجزاء سے مزاج میں تھور پال لیتی ہے۔اسکی خالی آغوش نمکین رویوں اور ذائقوں کی آماجگاہ بنے رہتی ہے۔ام جمیل کی تلخی اور کرختگی میں اضافہ کیوں نہ ہو بنو ہاشم کی بڑی بہو ہونے کے باوجود وہ اب تک کوئی ہاشمی وارث نہیں دے سکی۔
عبدالمطلب نایاب محمد کے واسطے رضاعت کے لیے کسی دایہ کی تلاش میں ہیں۔
مدت سے شرفائے عرب میں رواج چلا آ رہا تھا کہ وہ اپنے نو مولودوں کو ساتویں روز کسی دایہ کے سپرد کر دیتے جو 8 سے 10 سال تک کا عرصہ ہوتا ،اس عرصے میں بچہ ماں باپ اور قبیلے سے دور صحرائی گاوں میں پلتا بڑھتا خالص زبان کے ہجے اور لہجے سیکھ لیتا!
ان رضاعت والو میں بنو سعد قبیلے کی رضاعی عورتوں کی بڑی شہرت ہے،زبان لہجہ تربیت اور اخلاقی ادب و آداب کا سلیقہ انھی کی صفت خاص تھی
میرا تخیل کہتا ہے کہ بی بی آمنہ کی بڑی چاہ ہو گی محمد کے لیے بنو سعد قبیلے کی کوئی دایہ مل جائے
میرا خیال ہے ،جن بچوں کے باپ نہیں رہتے انکی مائیں انکے باپ بن جاتی ہیں اور جب ماں باپ بن جائے تو وہ ہر مرحلے اور ہر لمحے کو معراج دینا چاہتی ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں رضعاء کے لیئے عبدالمطلب سوچ بچار میں تھے اور ادھر مکہ سے دور بنی سعد کی بستی میں قحط آن پڑا،بھوک پیٹوں سے باہر جھانکنے لگی اور مویشی اپنے گوشت پوست سے محروم ہڈیوں میں نظر آنے لگے،ایسے میں بنو سعد کی رضعاء والا کام ہی تھا جو زندگی کو قائم رکھتا ۔
بنی سعد کی عورتیں زندگی کی حرارت کو قائم رکھنے کے لیئے مکہ کی طرف ہوئیں تاکہ کسی نو مولود کو آغوش لے کے رئیسان مکہ سے مال و دولت سمیٹ سکیں ۔اس قافلے میں ابو زویب کی بیٹی حلیمہ سعدیہ بھی ھیں جن کے حالات ان کے بدن پر صحرائی خال و خد کی طرح پھیل رہے ہیں۔لاغر کمزور اونٹنی پر بیٹھی بہتر مستقبل کا کیا سوچتی انکی اپنی آغوش میں پڑا بیمار بھوکا بچہ ایک پل نہ مسکراتا روتے بلکتے خشک آنکھوں سے حلیمہ کا چہرہ دیکھتا رہتا۔
وہ خود کہتی ہیں “میری سواری دوسروں کے مقابلے میں بہت لاغر اور کمزور تھی قافلے والے مجھ سے آگے اور بہت دور نکل گئے
میری وہ آس بھی ٹوٹ رہی تھی جو مکہ آنے کی وجہ تھی کہ کسی سردار کا بچہ مل جائے تو بہتر دام مل سکیں۔۔۔
مکہ پہچنے پر خبر ہوئی محمد نام کا بچہ ہے جسکا باپ فوت ہو چکا ہے۔
ایک میں محروم اور دوسرا وہ یتیم ۔۔
سوچا جب آ ہی گئے ہیں تو یوں خالی لوٹ جانا مناسب نہیں اور میرے خاوند عبدالعزی نے کہا حلیمہ بچہ آغوش لے لو خدا برکت دے گا”
چشم تصور دیکھ رہی ہے کہ
عبدالمطلب آگے آگے اور حلیمہ پیچھے چلتے عبداللہ کے گھر پہنچ گئے ہیں۔
وہ سامنے جھولا پڑا ہے اور آمنہ بی بی آنکھوں میں محمد کا چہرہ نقش کرتی عبداللہ کے ساتھ گزرے ایام کی ٹھنڈک دل میں محسوس کر رہی ہیں!!
آمنہ آمنہ بیٹی آمنہ یہ دیکھو رضعاء والی آ گئی
بنو سعد والو کی دایہ حلیمہ بنت ابی زویب ۔
آمنہ ابو زویب جسکا نام عبداللہ
ہاں عبداللہ بن الحارث بن شحجنتہ بن جابر بن رزام بن ناصر بن قصیتہ بن نصر بن سعد بن بکر بن ہوازن بن منصور بن عکرمہ بن خصفتہ بن قیس بن عیلان تھا
طوالت کی معافی چاہتا ہوں کسی نے کہا تھا کہ محمد کا نصب اسماعیل سے ثابت کریں
اس کے لیئے کہنا چاہتا ہوں تم محمد کے نسب کی بات کرتے ہو ہم انکو دودھ پلانے والو کا نصب 20 پیڑیوں تک جانتے ہیں ۔
آمنہ محمد کو حلیمہ کے سپرد کر دو
آہ ۔۔۔
آمنہ بی بی کے دل کی حالت جسکا شوہر نہ رہا اور اب اسکی آغوش سے اسکی نشانی بھی دور کرنے کو کہہ رہے ہیں ۔
لیکن جو مائیں اپنے وقتی جذبات کو سنبھال نہیں سکتیں بہتر مستقبل اور تربیت کے لیئے اولاد سے دوری برداشت نہیں کر سکتی وہ قوم کو کوئی پوت نہیں ایک اور بوجھ دیتی ہیں۔
آمنہ بی بی تو باپ بن گئی ہیں
ہر مرحلے اور لمحے کو معراج دینی ہے
دوری اور محمد سے دوری
اس احساس نے ہی رگیں خشک کر دی ہیں
دل سکڑنے لگا ہے
اور آنکھ سے بہتے آنسو میں محمد کا چہرہ پھیل رہا ہے
حلیمہ حلیمہ۔
یہ لو !
اس گوہر نایاب کا بہت خیال رکھنا بڑا بابرکت اور معزز ہے یہ میں نے “اسکے نور میں بصری کے محل جو سرزمین شام میں ہیں، دیکھےہیں اس کے لیے ندا سنی تھی
تو اس امت کے سردار کے لیئے حاملہ ہے
وہ جب زمین پہ آئے تو اس طرح کہہ
ہر ایک حاسد کی برائی سے میں اسے ذات یکتا کی پناہ میں دیتی ہوں اور اسکا نام محمد رکھ”
حلیمہ سعدیہ متاع انسانیت کو آغوش میں لیئے آمنہ کو دیکھتے عبدالمطلب کے پیچھے عبداللہ کے گھروندے سے نکل رہی ۔۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں