صبح نماز کے لئے آنکھ کھلی تو مجھے یوں لگا جیسے رات سوتے میں کسی منچلی نارنے میرے پپوٹے اٹھا کر شرارت سے ان میں روڑ بھر دئیے ہوں۔
ملکہ جوار خاتون جب رات کے ڈھائی بجے ہماری دنیا سے تاریخ کے صفحات میں لوٹ گئیں اُس وقت کئی نوکیلے سوال میرے ذہن میں چُبھ رہے تھے۔
یہ اپنے وقت کی مہذب اور جدید علوم آشنا دنیا سے الگ تھلگ‘ کٹا ہوا دشوار گزار علاقہ اتنی وسعت نظری کا حامل تھا کہ اس نے ایک عورت کی سربراہی کو قبول کیا۔
اس زمانے میں بھی ایسی جیالی عورتیں تھیں جن کی جہانبانی کے انداز آج بھی مثال بن سکتے ہیں۔ مرد کسی زمانے کا بھی ہو شوہر بن کر حاکمیت ہی چاہتا ہے۔ یہ غالباً اس کی فطری جبلت ہے۔
ماضی اور حاصل کے موزازنے میں آدھ گھنٹہ ضرور صرف ہوا ہو گا۔ تین بجے کہیں آنکھ لگی۔ دو گھنٹے بعد جاگنا ہوا توآنکھوں میں مرچوں جیسی چبھن تو ضروری تھی۔
سارا گھر اس وقت سوتا تھا۔ صحن میں لگے نل کی ٹونٹی شُوں شُوں کی آوازیں نکالتی تھی۔ میں نے بلی کی چال چلتے بیرونی دروازے کی کنڈی کھولی۔ قریبی کھیتوں کے پاس بہتی کھال سے وضو کیا۔ وہیں نماز پڑھی اور واپس آکر پھر بستر پر ڈھیر ہو گئی۔
جب دوبارہ جاگی تو دھوپ میرے سر پر تھی۔ برقی پنکھا چلتا تھا۔ گھر والی برآمدے میں اپنی مخصوص چارپائی پر بیٹھی مسکراتی تھی۔ لڑکیاں کام کاج میں مصروف تھیں۔ چوبی ستون کے پاس وہ بیٹھا تھا۔ سنہرے بالوں اور سنہری رنگت والا خاتون خانہ کا بڑا بیٹا۔ کراچی یونیورسٹی کا طالب علم ‘چھوٹا بھائی جو دہاڑی پر سوزوکی چلاتا تھا اس سے سوزوکی لے کر نیچے سے آئی ہوئی مہمان خالہ کو گلگت کی نواحی جگہوں کی سیر کرانا چاہتا تھا اور اب میرے جاگنے کا منتظر تھا۔
میں نے نمکین چائے اور تازہ چھپٹی (کیک نما روٹی) کا ناشتہ کرتے ہوئے محبت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
‘‘علاؤ الدین اگر آج کی ساری دیہاڑی میرے کھاتے میں ڈالو گے تو خالہ ساتھ چلے گی وگرنہ نہیں’’۔
دراصل میرے جیسے حساس لوگ ہمیشہ اپنی جیب کو کم اور دوسروں کے مسائل زیادہ دیکھتے ہیں۔
نچلا متوسط گھر جہاں ایک کمانے والا اور سب کھانے والے۔ بیماری اور پڑھائی کے اخراجات اس کے علاوہ۔ میں اس کی پیش کش کو مفت کیسے قبول کرتی؟ سو بار انکار کے بعد کہیں جا کر اس ضدی لڑکے نے ہار مانی تھی۔
سوزوکی میں بیٹھتے ہی میں نے بھی روایتی مسلمان عورت کی طرح بزرگوں کے مزار پر دعائیں مانگنے سے سفر کی ابتدا کی تھی۔
سید سلطان علی عارف (المشہور سلطان الف) کا مزار دینور میں چینی یادگار سے چار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ گلگت میں وہی اہمیت رکھتا ہے۔ جو حضرت داتا گنج بخش کے مزار کو لاہور میں حاصل ہے۔ اس دن جمعرات تھی اور مرادیں مانگنے والی عورتوں کا سویرے ہی تانتا بندھ گیا تھا۔ بڑی بڑی چادروں میں لپٹی عورتیں ‘چھوٹے چھوٹے بچے’ بوڑھے اور جوان مرد دلوں میں آرزوؤں کے پورا ہونے کی تمنائیں لئے یا ان کے پورا ہونے پر تشکرانہ جذبات کا نذارنہ پیش کرنے کے لئے مزار کے اردگرد جمع تھے۔
کہا جاتا ہے کہ گلگت میں اسلام کی بنیاد آذر شمشر کے زمانے میں ۱۱۲۰۰۰۰ عیسوی میں پڑی۔ سلطان علی عارف ان چھ بزرگوں میں سے ایک تھے جن کی شب و روز کی تبلیغ نے بدھ مت میں ڈوبے ہوئے ملک کو مسلمان بنایا۔
یہ ایک خوبصورت زیارت گاہ ہے جہاں فاتحہ پڑھنے‘ دعائیں مانگنے اور اپنا آپ کہہ دینے سے قلبی سکون ملتاہے۔ مزار کا بالائی حصہ چینی طرز تعمیر کی نشان دہی کرتا ہے۔
چینی یادگار گلگت سے دس کلو میٹر دور شاہراہ ریشم کے ساتھ دنیور کے مقام پر ہے۔ سنگ مرمر کی یہ یادگار دراصل ان چینی جوانوں کی یاد میں بنائی گئی ہے۔ جو شاہراہ ریشم کی تعمیر کے دوران جان بحق ہوئے۔ دائیں بائیں گمنام چینی شہد اکی تصوراتی قبریں بھی موجود ہیں۔ زیارت کے پس منظر میں سر اٹھائے پہاڑوں کی چوٹیوں کو دیکھتے ہوئے میں نے چین کی لازوال دوستی پر فخر محسوس کیا تھا۔ دہائیاں گزر گئی ہیں۔ لیکن آج تک اس دوستی کی آب و تاب اسی طرح قائم ہے۔ چین اعتبار کرنے اور اعتماد دینے والا دوست ہے۔
پھر میں سنگ مرمر کے دس گیارہ پوڈے چڑھ کر ستون کے سامنے جا کھڑی ہوئی ۔ چینی زبان میں لکھے گئے مختلف حروف کو یونہی تکتے تکتے ایک کربناک خیال نے مجھے بھڑکی طرح کاٹا۔ دھڑ دھڑ سیڑھیاں اتر کر میں نے علاوہ الدین سے یہ جاننا چاہا کہ ان ہزاروں پاکستانی نوجوانوں جنہوں نے قراقرم کی سنگلاخ چٹانوں کو رسے کی تاروں پر چڑھ کر انہیں سرنگوں کر کے یورپ کو حیرت زدہ کر دیا۔ ان کے شایان شان بنائی گئی کوئی یادگار کہاں ہے؟
اس کا سر نفی میں ہلتے دیکھ کر میرے دل میں جیسے کسی زبردست کا گھونسہ پڑا۔
‘‘کیوں وہ ماؤں کے بیٹے نہ تھے۔ دلہنوں کے سہاگ نہ تھے۔ معصوم بچوں کے باپ اور بہنوں کے بھائی نہ تھے۔ وہ کیا پاکستانی نہ تھے۔ ان کے ناموں کا کوئی مجموعی کتبہ کہیں لگانے کی ضرورت نہ تھی’’؟
میرا گلا شدت جذبات سے روندھ گیا تھا۔ میں سوزوکی میں بیٹھ گئی۔ دو آنسو میرے رخساروں پر بہہ گئے۔ جنہیں صاف کرتے ہوئے میں نے اپنے آپ سے کہا تھا۔
‘‘ہم کیسی محسن کش قوم ہیں’’۔
مغل مینار۔
اب جوٹیال کی پہاڑی میرے قدموں کے نیچے تھی۔ اور میں ۱۶۹۰ء میں بنائے گئے مغل مینار کو دیکھ رہی تھی جو آج بھی اپنی صحیح حالت میں موجود ہے۔ جوٹیال گلگت سے چار میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ مینار تاج مغل نامی حملہ آور نے گلگت فتح کرنے کی خوشی میں بنایا تھا۔
روایت ہے کہ کوئی تین سو سال قبل ترکستان سے تاج مغل نامی ایک شخص بدخشاں اور یاسین کے راستے گلگت میں داخل ہوا۔ اس نے اس علاقے کو فتح کیا۔ وہ مذہب کے لحاظ سے اسماعیلی تھا۔ یہاں اس نے اسماعیلی مذہب کو فروغ دیا۔ فاتح اور کارکن کے نام پر مقامی لوگوں نے اس مذہب کا نام مغل رکھا جو وقت کے ساتھ کچھ بگڑ کر مولائی ہو گیا۔
اسماعیلی یا مولائی مسلمانوں کی مختصر وضاحت کچھ یوں ہے۔
ضلع گلگت میں مسلمانوں کے تین فرقے اقامت پذیر ہیں۔ پہلا سنی،دوسرا شیعہ، اورتیسرا مولائی۔ تعداد کے لحاظ سے یہ تینوں فرقے کم و بیش برابر ہیں۔
اہل تشیع کے ایک فرقے کے مطابق صرف سات امام ہوئے۔ اس فرقے کو ہفت امامی کہا جاتاہے۔ دوسرے فرقے کے مطابق بارہ امام ہوئے۔ اس کے بعد اماموں کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ یہ بارہ امامی یا اثنائے عشری کہلائے۔ گلگت میں اہل تشیع کا یہی فرقہ موجود ہے۔ تیسرا فرقہ جن کے عقیدے کے مطابق امامت ابھی تک جاری ہے۔
یہ فرقہ اسماعیلی یا مولائی کہلاتا ہے۔ پرنس کریم آغا خان ان کے حاضر امام ہیں۔
مغل مینار پر سے راکا پوشی چوٹی کا منظر بہت دلکش نظر آتاہے۔ دوربین آنکھوں سے لگاکر میں نے جی بھر کر اس شہرہ آفاق چوٹی کا نظارہ کیا۔ دھوپ میں کیا کیا نقش و نگار ‘بن بگڑ رہے تھے۔
میرا دل چائے کا ایک کپ پینے کو چاہتا تھا۔ گیارہ بج رہے تھے۔ چنار باغ میں سوزوکی میں ہی بیٹھ کر میں نے چائے پی۔ دریائے گلگت اور چنار باغ کی خوبصورتی سے آنکھوں کو ایک بار پھر ٹھنڈا کیا۔
علاؤالدین مجھے اب ایک ایسی جگہ لے آیا تھا جہاں کسی زمانے میں قلعہ گلگت اور شاہی محلات تھے۔ قلعہ تو اب ناپید ہے۔ لیکن اس کی ایک یادگار میں نے ضرور دیکھی۔ جو این ایل آئی چھاؤنی کے اندر تعمیر کی گئی ہے۔ اس یادگار کو راجہ گوہر امان نے ۱۸۵۲ء میں تعمیر کروایا تھا۔ گوہر امان گلگت کا آخری تاجدار کوہستانی شیر کے دبدبے جیسی شخصیت کا مالک جس نے سکھوں کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔
یادگار کی اونچائی پچاس فٹ بلند ہے۔ ہم لوگ اوپر چڑھ گئے تھے۔ گلگت شہر کا نظارہ بہت دل کش تھا۔ علاؤالدین دور بین سے چمٹا ہوا تھا اور اس کی جان بخشی نہیں ہو رہی تھی۔ فوکس ایک خاص زاویہ پر تھا۔ میں نے آنکھوں سے لگائی تو ساری حقیقت روشن ہو گئی۔ ایک گھر کی انگنائی میں نہایت خوبصورت لڑکی خوبانی کے پیڑ سے خوبانیاں اتار رہی تھی۔ بڑا صبیح چہرہ تھا۔
‘‘شیطان’’۔ میں نے ہنس کر دور بین بیگ میں ڈال لی۔
اس وقت بھوک زوروں پر تھی۔ شاہراہ قائداعظم پر اندر کی جانب ہوٹلوں میں سے ایک پر ہم نے گرم تندوری روٹیاں اور کباب کھائے‘ چائے پی اور باہر نکلے۔ تبھی علاؤالدین نے کہا ‘‘
گورا قبرستان ریسٹ ہاؤس کے قریب ہی ہے۔ دیکھنا چاہیں گی!’’
‘‘گوروں کی قبریں دفع کرو۔ وہ بھی کوئی دیکھنے کی چیز ہیں’’۔ میں نے دھوپ سے بچتے ہوئے ایک شیڈ کے نیچے کھڑے ہو کر کہا۔
‘‘جیالے اور جی دار لوگ یہاں دفن ہیں۔قبریں تو یوں بھی جائے عبرت ہیں’’۔
‘‘اگر یہ بات ہے تو چلو چلتے ہیں۔’’
قبرستان کی حدود میں قدم کیا رکھا۔ بے ثباتی کی ٹھنڈی بے رحم لہروں نے مجھے سر سے پاؤں تک اپنے آپ میں ڈبو دیا۔
برٹش دور میں وہ مہم جو سیاح اور کوہ پیما جو مختلف اوقات میں یہاں کے دشوار گزار دروں’ پہاڑوں کی چوٹیوں اور گلیشروں کو سر کرنے آئے اور ہلاک ہوئے۔ میں نے ان کی قبروں کو خصوصی توجہ سے دیکھا۔ دل سے فاتحہ پڑھی اور دعائے خیر کی۔ افسروں کی طرف نظر التفات ذرا کم رکھی۔
پھر علاؤالدین مجھے ایک ایسی قبر کے پاس لے گیا۔ جس کی انفرادیت ‘جس کے سرہانے لگے پتھر پر لکھی عبارت کچھ کچھ اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتی تھی۔
‘‘تاریخ میرا مضمون ہے۔ ایک غیور مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے میں نے برٹش دور اور اس عہد کے انگریزوں کو کبھی پسند نہیں کیا۔ لیکن کبھی کبھی کوئی ایسا کردار بھی سامنے آجاتا ہے جو ساری ہمدردیاں سمیٹ لیتا ہے۔
خوبصورت’ ضدی’ جنونی’ دھن کا پکا’ خطرات میں بے دھڑک کود پڑنے والا’ جارج ہائی ورڈ رائل جغرافیکل سوسائٹی کا ممبر کوہ ہمالیہ کے دشوار گزار دروں کو سر کرتا ہوا سری نگر کے راستے گلگت پہنچا تھا۔ کوہ ہندوکش کے نئے درّے دریافت کرنے کا آرزو مند تھا۔ پر اپنوں کی بے حسی اور غیروں کے ظلم کا نشانہ بن گیا۔
اس وقت جب میں علاؤ الدین سے یہ سب سن رہی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے ہاتھ میں پکڑا قلقاریاں مارتا میرے ارادوں اور منصوبوں کا پرندہ دراصل کھلونابم ہے جو پھٹ گیا ہے اور میر ے جسم کے لوتھڑے گلگت کی زمین اورآسمان پر دھنکی ہوئی روئی کے گالوں کی طرح بکھر اور گر رہے ہیں۔
دہل کر میں دھوپ سے چھاؤں کی طرف بھاگی۔ میرا سر دھوپ نے چکرا دیا تھا۔ چند لمحوں بعد میرے حواس بحال ہوئے۔ خصوصی فاتح پڑھ کر میں نے علاؤ الدین کی طرف دیکھا۔ وہ یقینا وادی یاسین کے گاؤں درکوت پہنچا ہوا تھا۔
درکوت کی وہ رات بڑی خوفناک تھی۔ جارج نے کھانا نہیں کھایا تھا۔ خیمے کے اردگرد اگی جھاڑیوں سے برچھیوں کی طرح کاٹتی ہوائیں جب ٹکراتیں تو بڑی مہیب آوازیں پیدا ہوتیں۔ اس کے ملازم نے چائے کا پیالہ میز پر رکھا تھا۔ وہ لکھنے میں مصروف تھا۔ ہاتھ روک کر اس نے پیالہ اٹھایا۔ گھونٹ بھرا اور اپنے آپ سے بولا تھا۔
‘‘ڈیزی میری جان شاید میں تمہیں اب کبھی نہ دیکھ سکوں۔ مجھے آج موت کے فرشتوں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ میز پر پڑے پستول اور کارتوسوں سے بھری رائفل پر اُس کی نگاہیں جم گئیں تھیں۔
جارج ہائی ورڈ جنوری ۱۸۶۹ء میں گلگت پہنچا۔ وہ وادی یاسین کے ۱۵۵۶۰ فٹ بلند درے درکوت سے بروغ (BAROGH) درے کو پار کرتا ہوا وا خان کے راستے شادوین وین ۱۶۱۶۰ فٹ بلند درے تک پہنچنا چاہتا تھا۔ گلگت ٹھہر کر اس نے مختلف ریاستوں کے راجاؤں سے تعاون مانگا۔ انہیں تحائف بھی بھیجے۔ اپنی ان کاوشوں کے نتیجے میں اسے صرف وائی یاسین میرولی کی طرف سے دعوت موصول ہوئی۔ ہائی ورڈ جب یاسین پہنچا۔ اس وقت سردی کا موسم اپنے عروج پر تھا اور درّے بند تھے۔ میرولی نے اسے ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔ دونوں نے مارخوروں اور ہرن کا شکار کھیلا ۔ان دروّں کی سیر کی جوکھلے تھے۔ ہائی ورڈ نے ڈوگرہ حکومت کے ان مظالم کے بارے میں جانا جو انہوں نے یاسین کے لوگوں پر کئے۔ اس نے موڈوری کے اس قلعہ کو بھی دیکھا جہاں ہزاروں عورتوں ‘معصوم بچوں اور بوڑھوں کا ڈوگر فوج نے خون بہایا تھا۔ اس نے میرولی سے وعدہ کیا کہ وہ ان مظالم کے متعلق حکومت ہند کو تفصیلی رپورٹ پیش کرے گا۔
موسم بہار میں دوبارہ آنے کا پرورگرام بنا کر ہائی ورڈ گلگت آگیا۔ تفصیلی رپورٹ اس نے بذات خود پنجاب پہنچ کر گورنر پنجاب لارڈ مائیو کو پیش کی اور اخبارات میں بھی چھینے کے لئے دیں۔ مگر یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ انگریز افسروں کی ساری ہمدردیاں مہارا جہ کشمیر کے ساتھ تھیں۔ وہ حق اور سچ کے لئے کشمیر کے را جہ سے تعلقات بگاڑنا نہیں چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لارڈ مائیو اور ڈوگرہ را جہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ دوبارہ ان علاقوں کی طرف جائے۔ پر ہائی ورڈ فولادی عزم رکھنے والا انسان تھا۔
اور پھر اسے ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
ساری رات اس نے لکھنے میں گزاری تھی۔ میرولی کے انداز چغلی کھا گئے تھے کہ وہ بک گیا ہے۔ شام گہری ہو رہی تھی جب اس کے ایک ملازم نے اُسے سرگوشی کے انداز میں بتایا تھا کہ رات کسی بھی لمحے اس کی گرفتاری اور موت متوقع ہے۔ وہ جاگ رہا تھا۔ لندن کی گلیوں میں گھوم رہا تھا۔ بچپن’ جوانی ڈیزی گھر بار سبھی فلم کے کسی سین کی طرح آنکھوں کے سامنے متحرک تھے۔ وہ آنکھیں جھپکنا نہیں چاہتا تھا۔
یوں رات ایک کرب کے عالم میں گزرتی ہے۔
بس تو وہ لمحہ قیامت کا تھا جب سورج کی اولین کرنوں نے پہاڑوں پر جمی برف کو مسکرا کر دیکھا۔ اس کی آنکھوں کو پیوٹوں نے چند لمحوں کے لیے سکون دینا چاہا تھا۔ اس کی پلکوں نے نیند کی دیوی کو گرفت میں لیا ہی تھا۔ اس کا بایاں فولادی ہاتھ رائفل پر دھرا ذرا ڈھیلا پڑا ہی تھا کہ وہ گرفتار ہو گیا۔
اور پھر اپنے آپ کو ان کے حوالے کرتے ہوئے اس نے کہا۔
‘‘اتنی مہلت تو دو کہ آخری بار باہر نکل کر کائنات کو دیکھ سکوں۔’’
وہ خیمے سے نکلا۔ نیچے وادی کے گھروں میں زندگی انگڑائی لے کر بیدار ہو گئی تھی۔ چولہوں سے اٹھتا دھواں فضا میں بکھر رہا تھا۔ اُس نے آسمان کی سمت نگاہیں اٹھائیں۔ سورج کی کرنیں اس کے سنہرے بالوں پر چمکیں۔ خوبصورت چمکتے بال اور خوابیدہ سی بے چین آنکھیں۔ برف سے ڈھکی ہوئی داسپور کے پہاڑوں کی چوٹیاں ‘نیلا شفاف آسمان’ ٹنڈ منڈ درختوں پر پھوٹتی نئی نویلی کونپلیں۔
‘‘زندگی حسن و رعنائی سے لبالب بھری ہوئی ہے’’۔ اس نے اپنے آپ سے سرگوشی تھی۔ اب میں موت کی آغوش میں جانے کے لئے تیار ہوں’’
وہ اپنے دشمنوں کے عین سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔
فی الوقع اس چمکتی صبح ایک بہت بہادر آدمی قتل ہوا تھا۔
چڑی کے پنجے جتنامیرا دل اس المناک داستان کو سن کر عجیب سا ہو گیا تھا۔ ڈیڑھ بج رہا تھا۔ علاؤ الدین گھر جانے کے لئے بضد تھا اور میں گلگت کا سوئزر لینڈ نلتر دیکھنے کے لئے مری جاتی تھی۔ جاننے پر معلوم ہوا کہ سوزوکی والے کو گاڑی چاہیے تھی۔
‘‘میاں کسی اور گاڑی والے سے بات کرو۔ وقت تو میرے پاس گنما منما ہے’’۔
ایک جیپ والے سے بات طے ہو گئی۔ علاؤ الدین کو خداحافظ کہتے ہوئے میں گاڑی میں بیٹھ گئی۔ نلتر کی خوبصورت وادی گلگت سے چھتیس میل کے فاصلے پر جنوب کی طرف سطح سمندر سے ۱۰۰۰۰ فٹ بلند ہے۔ دریائے ہنزہ ہمارے دائیں ہاتھ خاصی گہرائی میں بہہ رہا تھا۔ ڈرائیور لڑکا خاصا خوش اخلاق اور محبت والا۔ نلتر جانے کے شوق میں نماز کا خیال ہی نہیں آیا تھا۔
جب آیا تو لڑکے سے کہا
‘‘کوئی موزوں جگہ دیکھ کر گاڑی روک لینا۔ نماز پڑھنی ہے۔’’
‘‘نومل میں میرا گھر ہے۔ یہاں ٹھہر کر پڑھیں گی! ’’اس نے اشتیاق سے پوچھا۔
‘‘لو اس سے اچھی بات اور کیا ہو گی’’۔ میں خوش ہو گئی۔
نومل ہرے بھرے درختوں میں گھری بڑی شاداب اور حسین وادی ہے۔ گلگت سے اس کا فاصلہ سترہ میل کے قریب ہے۔ مشرق میں رحیم آباد اور جنوب مشرق میں جوتل کا گاؤں آباد ہے۔ تقریباً چھ مربع میل کے رقبے میں پھیلی ہوئی یہ وادی شین اور ہنزائی افراد پر مشتمل جن کی مادری زبانیں شنا اور بروششکی ہیں۔
لڑکا اسٹیرنگ دائیں بائیں گھماتے ہوئے بولتا جا رہا تھا۔ پولو گراؤنڈ خاصا بڑا تھا۔
‘‘اس وادی کے لوگ بیلوں کی لڑائی بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ نومل میں تعلیم کا خاصا رجحان ہے۔ لڑکوں کے لئے ایک مڈل اسکول اور لڑکیوں کے لئے پرائمری سکول کھل گئے ہیں’’۔
ریسٹ ہاؤس کے قریب سپاہی کھن نامی کھنڈر جہاں سے قسم قسم کی چیزیں نکل رہی ہیں۔ انسانوں اور حیوانوں کے ہسپتال۔ لڑکے نے مجھے تفصیلی سیر کرا دی تھی۔ کشادہ سی گلی میں اس گھر سے ملحقہ کھیت میں اس کا باپ اور بڑا بھائی گندم کی گانٹھیں باندھ رہے تھے۔ بڑے سے آنگن میں سیب اور خوبانیوں کے پیڑ پھلوں سے لدے کھڑے تھے۔ درخت کے نیچے مچھر دانی میں کوئی لیٹا ہوا تھا۔ ‘‘میرا دادا۔ یہاں مکھیاں بڑی ظالم ہیں۔’’
دوسرے پیڑ کے تنے کے پاس ایک نوجوان عورت کوٹی (خمیر گوندھنے والا برتن) صاف کر رہی تھی۔ اس نے تعجب سے مجھے دیکھا۔ لڑکا غالباً بروششکی میں اسے کچھ بتا رہا تھا۔ کیونکہ سننے کے ساتھ ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔ سلام دعا ہوئی۔
گھر کے ایک کونے میں زمینی بیت الخلا تھا۔ پاس ہی بھیڑ بکریوں کا بڑا کمرہ۔ میں نے وضو کیا۔ جائے نماز لڑکے نے کمرے میں بچھا دیا تھا۔ صاف ستھرا کمرہ جس کی دیواریں رنگین نقش و نگاری سے مزین تھیں۔ سومو (چھت کا سوراخ جس میں سے دھواں باہر نکلتا ہے) ان دنوں بند تھا۔ لڑکا پیالے میں کچھ لے کر آیا۔ پتہ چلا کہ بہلوئی ہے۔ گائے نے کل بچہ دیا تھا۔ عورت چولہے کے آگے بیٹھی کالی چائے میں گول کالی مرچ ابال رہی تھی۔ بوڑھے کے پیٹ میں درد تھا۔ اسے یہ تھوڑا سا نمک ڈال کر دینی تھی۔ پیٹ درد کے لیے اکسیر ہے۔ میری معلومات میں اضافہ ہوا تھا۔
سفر دوبارہ شروع ہوا۔ تقریباً بیس میل کے بعد تنگ سی گھاٹی شروع ہو گئی۔ دریا بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ آمنے سامنے کے پہاڑ بہت قریب معلوم ہوتے تھے۔ کوئی آٹھ میل بعد یہ گھاٹی ختم ہوئی اور آسمان اپنی کشادگی کے ساتھ دکھائی دیا۔
پائین نلتر کو دیکھ کر خدا کی رعنائیوں کا شدت سے احساس ہوا۔ دائیں سمت بہتی ندی کا پانی شیشے کی طرح شفاف تھا۔
ریسٹ ہاؤس کے لان میں دو غیر ملکی اور ایک ملکی جوڑا بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھ اکیلی عورت کو دیکھ کر ملکی جوڑا ذرا چونکا۔ پر میں ایسے معاملات میں بڑی ڈھیٹ ہڈی واقع ہوئی ہوں۔ برآمدے میں عصر کی نماز پڑھی۔ اور جیپ میں بیٹھ کر باہر کے نظارے کے لیے روانہ ہوئی۔ یہ وادی بہت بلندی پر ہے۔ سردی سے میرے دانت بجنے لگے تھے۔ چیل کے درختوں سے لدی پھندی’ سرکاری عمارات جن میں مختلف دفاتر ہیں۔ یہاں کے جنگلوں میں مار خور اور رام چکور کا شکار بھی پایا جاتاہے۔ نلتر جھیل اپنی خوبصورتی اور ٹراؤٹ مچھلی کے شکار کے لئے بہت شہرت رکھتی ہے۔
ریسٹ ہاؤس سے تین چار فرلانگ دور پاکستان ائیرفورس کا کیمپ اور بائیں ہاتھ اسکیٹنگ جھولا ہے۔ جہاں فضائیہ کے نوجوان کو اسکٹینگ کی تربیت دی جاتی ہے۔ نلتر وادی سے کئی ایک پہاڑی راستے مختلف وادیوں کی طرف نکلتے ہیں۔ ایک راستہ وادی پنیال دوسرا اشکو من کے گاؤں چٹھور کھنڈ اور تیسرا شنی سے ہوتا ہوا نگر جا پہنچتا ہے۔
واپسی پر لڑکا مجھے ڈاکٹر حلیم کے اشعار سنا رہا تھا۔ ڈاکٹر سید حسین جعفر حلیم اردو کے بلند پایہ شاعر ہیں۔
وہ کوہ و دشت وہ سرسبز وادی نلتر
وہ برف اور وہ فضا وجد آفریں منظر
تری فضاؤں میں پا کر سکون قلب و دماغ
مٹائے کیوں نہ طبیعت سے کلفتوں کے داغ

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں