ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن/محمد ہاشم خان

افسانہ نگار اور شاعر محمد جاوید انور کی شخصیت کا اجمالی جائزہ 
کسی شخصیت پر بالخصوص اگر وہ زندہ ہو تو قلم اٹھانا اور بھی مشکل کام ہے اور اگر وہ کسی طرح آپ کے محسنین میں بھی شامل ہو تو پھر معاملہ نوک خار پر قطرہ شبنم کے رقص جیسا پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ یقیناً یہ افسانہ لکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے کہ کردار بے چارے گریبان چاک کرنے نہیں آسکتے۔ علاوہ ازیں دوسرا نہایت اہم مسئلہ یہ ہے کہ میں خود اپنے آپ کو سمجھنے سے قاصر ہوں سو کسی اور شخصیت کو کیا خاک سمجھوں گا۔ پھر بھی کچھ لوگ ہیں جن کے ساتھ نرم گرم تعلقات کو صفحہ قرطاس پر لانا چاہوں گا لیکن اس گزارش کے ساتھ کہ کوئی رائے قائم مت کیجئے گا کہ کسی بھی آدمی کا رویہ ہر ایک کے ساتھ یکساں نہیں ہو سکتا۔ جس طرح ہمارا ایمان اچھے اور برے افعال کے سبب کم اور زیادہ ہوتا رہتا ہے ٹھیک اسی طرح ہمارا کردار بھی مختلف عوامل اور حالات کے زیر اثر بدلتا رہتا ہے۔
بزرگ صحافی اور دانشور عالم نقوی صاحب (سابق مدیر اردو ٹائمز) نے کوئی 2007 میں ایک مذاکرے کے دوران میری ایک بات کی نفی کرتے ہوئے کہا تھا ‘ہاشم نے اردو میڈیا کے ڈارک سائڈ کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے میں اس سے بالکل متفق نہیں ہوں۔’ اس مذاکرے کا انعقاد خلافت ہاؤس ممبئی میں ہوا تھا اور میزبان تھیں ٹائمز آف انڈیا کی کمیونٹی نامہ نگار جیوتی پنوانی۔ میں نے اس مذاکرے میں جملہ دیگر باتوں کے یہ نکتہ بھی واضح کیا تھا کہ ہمیں افسوس اس بات کا نہیں ہوتا تھا کہ عراق بم دھماکے میں تین سو لوگ مرگئے، بلکہ ہمیں خوشی ہوتی تھی کہ چلو آج کی لیڈ نیوز مل گئی۔ اگر تین سو لوگ مرتے تھے تو ہم سرخی میں بیس تیس افراد کا اور اضافہ کردیتے تھے یہ سوچ کر کہ جب تک اخبار قارئین تک پہنچے گا تب تک مہلوکین کی تعداد کم و بیش اتنی ہوجائے گی، اور اگر کسی دن بمباری نہیں ہوتی یا مہلوکین کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی تھی تو ہمیں یہ فکر لاحق ہوتی تھی کہ اب لیڈ کیا بنائیں۔ کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری والا معاملہ تھا۔ عالم صاحب کی جانب سے میرے تاثرات کی تردید ایک فطری ردعمل تھا کیونکہ وہ فرنٹ پیج نہیں دیکھتے تھے سو فرنٹ پیج دیکھنے والے کی نفسیات سے وہ رائے قائم کرنے کی حد تک واقف نہیں ہوسکتے تھے، لیکن جو بات میرے لیے انتہائی حوصلہ افزا اور حیران کن تھی وہ ان کا یہ اعتراف تھا کہ ‘ہاں اس بات سے ضرور متفق ہوں کہ وہ جو کچھ بھی کہتا ہے بہت ایمانداری سے کہتا ہے۔’
فیسبک پر موجود بیشتر لوگ شاید اس بات کی تائید کریں کہ میں جو کہتا ہوں وہ بہت ایمانداری سے کہتا ہوں، بات اچھی ہو سکتی ہے، بات خراب ہو سکتی ہے، کہنے کا انداز بہت برا ہو سکتا ہے لیکن اس کہنے کے عمل میں بے ایمانی شامل نہیں ہو سکتی۔ سو قارئین اس سلسلے کو جاری سمجھیں۔ بات جون 2016 یا اس سے کچھ قبل کی ہے۔ میری فیسبکی زندگی میں دو لوگ یکے بعد دیگرے آئے۔ اب یاد نہیں کون پہلے آیا۔ لیکن میرے نزدیک یہ ایک ’تثلیث‘ تھی۔ میں، جاوید انور اور فارحہ ارشد۔ قدر مشترک سوائے اس کے کچھ اور نہیں تھی کہ دونوں صاحب علم اور بہت اچھے افسانہ نگار ہیں۔ اور یہ بات میں اتنی ہی ایمانداری سے کہہ رہا ہوں جتنا کہ ممکن ہے۔ دونوں کے افسانے ہمیں ایک نئی جہت، ایک نئے ذائقے اور ایک نئے مزاج و مذاق سے متعارف کراتے ہیں۔ میں نے دونوں کے افسانے پڑھے ہیں اور ان پر تبصرے بھی کئے ہیں، یہ الگ بات کہ ان دونوں نے میرے افسانوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ جاوید صاحب نے تو خیر دو چار جملے یہاں وہاں ٹانگ دیئے ہیں لیکن فارحہ ارشد نے فردوس حزیں کے علاوہ کسی اور افسانے پر کبھی کوئی رائے نہیں دی۔ اُن دنوں خاکسار اچھی خاصی بدنامی و بد مزاجی کے ساتھ ایک شدید بحرانی زندگی مر رہا تھا (افسوس کہ وقت کے ساتھ بدنامی کا دائرہ مزید پھیل گیا۔) فارحہ ارشد نے تو یہ جاننے کے لئے اپروچ کیا تھا کہ میں انباکس ان کی کردار کشی کیوں کر رہا ہوں لیکن جاوید انور صاحب؟ جب جاوید صاحب کی فرینڈ ریکویسٹ موصول ہوئی تو میں نے حیرت کے ساتھ قبول کرلی کہ ریلوے کا سی ای او مجھے کیوں ایڈ کر رہا ہے۔ چونکہ زندگی کا ایک بڑا حصہ صحافت میں گزرا ہے سو سیاست، بیوروکریسی اور بڑے بڑے عہدوں پر متمکن افراد کا میں احترام ضرور کرتا ہوں لیکن ان سے مرعوب نہیں ہوتا کہ یہ بیمار صحافتی جرثومے سے پیدا ہونے والے نفسیاتی عارضے کے بالکل منافی ہے۔ صحافی اپنے اور اپنے مالک کے علاوہ دنیا کے ہر شخص کو جاہل سمجھتا ہے، اور میں اس سے مستثنیٰ نہیں تھا لیکن صحافت کو خیرباد کہنے کے بعد یہ عارضہ عارضی طور پر ٹھیک ہوگیا تھا، حیرت محض اس بات پر تھی کہ حضرت اس بدنام زمانہ شخص کو ایڈ کرنے کی گستاخی کیوں کر رہے ہیں؟ بہر حال مجھے اس نتیجے پر پہنچنے میں وقت نہیں لگا کہ انہوں نے شاید میری نیک نامی نہیں بلکہ افسانہ فہمی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایڈ کیا ہے۔ تب تک جاوید صاحب کی شاعری اور افسانے کے حوالے سے میں واقف نہیں تھا اور نہ ہی جاننے کی کوشش کی تھی لیکن یہ اندازہ ضرور ہوگیا تھا کہ موصوف بہت سلجھے ہوئے اور نفیس انسان ہیں جو اپنے عہدے کو بوگی نمبر ایکس میں چھوڑ کر یہاں آتے ہیں۔ اسی دوران موصوف کا افسانہ برگد نئی روایت فورم پر پیش ہوا۔ اس پر ہر ایک نے حسب علمی استعداد دل کھول کر بحث کی۔ بیشتر دوست آکر مجھ سے پوچھا کرتے تھے کہ تم نے جاوید صاحب کا افسانہ پڑھا؟ فلاں نے یہ لکھا فلاں نے وہ لکھا۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ ان دنوں کئی سارے دوست نہ صرف فیسبک کی ساری روداد گوش گزار کرنا فرض عین سمجھتے تھے بلکہ بہت سے خواتین کے افسانوں کے حوالے سے نکات بھی مانگتے تھے جن پر کمنٹ کرکے افسانہ نگار کو امپریس کرنا ہوتا تھا۔ میں نے دل میں سوچا کہ اب جاوید صاحب نے ایڈ کیا ہے تو پھر ویلن نما ہیرو کی انٹری دھماکے دار ہونی چاہئے سو ہم نے بھی تبصرہ کیا۔ اب جاوید صاحب کو وہ تبصرہ کتنا پسند آیا مجھے نہیں معلوم لیکن تبصرہ حسب معمول مفصل، مدلل اور الگ تھا۔ اب چونکہ اِس وقت میں ادبی فورموں پر فعال نہیں ہوں سو نو آشفتگان کتاب چہرہ کچھ بھی سوچ سکتے ہیں لیکن یہ سچ ہے کہ جب میں فعال تھا تو بس صرف میں ہی تھا۔ میں واحد افسانہ نگار تھا جس کے بارے میں لاکھ چاہنے کے باوجود کوئی یہ نہیں کہہ سکا کہ محترم آپ جتنا اچھا تبصرہ کرتے ہیں کاش اتنا اچھا افسانہ بھی لکھتے یا خود میرے اپنے الفاظ میں کہ ’’ جب آپ کو سب کچھ معلوم ہے تو خود لکھتے وقت ہگ موت کر برابر کیوں کر دیتے ہیں۔‘‘ خیر اس تبصرے کے بعد جاوید صاحب نے میرے تعلق سے کیا رائے قائم کی مجھے نہیں معلوم۔ میں اب بھی یہ نہیں جانتا کہ میرے حوالے سے وہ کیا رائے رکھتے ہیں کیوں کہ اب تو ہماری کوئی گفتگو ہی نہیں ہوتی۔ہماری ان سے گفتگو بہت کم ہوئی ہے اور جو تھوڑی بہت ہوئی ہے وہ بہت رسمی سی ہوئی ہے۔ ان کے تعلق سے بیشتر معلومات مجھ تک فارحہ ارشد کے ذریعہ پہنچی ہیں۔ زمانہ ہوا فارحہ ارشد بتا رہی تھیں کہ جاوید صاحب کا کہنا ہے کہ نہ تم سے دوستی اچھی اور نہ ہی دشمنی۔ یہ رائے ہم ممبئی میں پولیس والوں کے بارے میں رکھتے ہیں۔ بہر حال اس کے بعد ہم نے مطالعات(مطالعات خالص میرا آئیڈیا تھا نام بھی میرا ہی رکھا ہوا ہے اور اس وقت شین زاد، پنوار، ارشد اقبال، باسط اور سعدیہ سعدی ساتھ میں تھے) پر ’مطالعات افسانہ نگاری مقابلہ برائے خواتین‘ منعقد کروانے کا فیصلہ کیا۔ کل انعام بیس ہزار رکھی گئی تھی اور طے یہ ہوا تھا کہ دس ہزار میں دوں گا اور دس ہزار شین زاد۔ تین جج مقرر کئے گئے تھے، محمد حمید شاہد صاحب، شیخ ابوالقاسم فاروقی صاحب اور مرحوم حسین الحق صاحب۔ جاوید صاحب کو معلوم ہوا تو انہوں نے ہم لوگوں کی ساری مشکلیں آسان کردیں اور صرف اتنا ہی نہیں کیا بلکہ اس پورے ایونٹ میں سب سے زیادہ وقت کسی نے دیا تو وہ جاوید انور صاحب تھے۔ اس کے بعد پھر کسی اور کی باری آتی ہے۔ اس پورے ایونٹ میں جاوید صاحب نے ہمیں کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ پاکستان ریلوے کے چیف اگزیکیوٹو آفیسر ہیں۔ ہم واقعی بچوں کی طرح لڑتے اور وہ ایک بزرگ کی طرح ہم سب کو ساتھ لیکر چلنے میں کامیاب رہے۔ اصل لیڈر وہی تھے اور اس کا خراج میں نے ایونٹ کے شاندار اختتام پر تحریر کردہ مضمون (اختتامیہ) میں بھی پیش کیا ہے۔ مطالعات میں شامل تمام لوگوں میں اب بس صرف جاوید صاحب سے ہی علیک سلیک رہ گئی ہے، علیک سلیک اس معنی میں کہ ہم دونوں بھولے بسرے کبھی ایک دوسرے کی وال کی زیارت کر لیتے ہیں۔ مطالعات ایونٹ کے بعد اس جیسا پھر کوئی دوسرا ایونٹ نہیں ہوا اور اس کے بعد کوئی محتاج تعارف بھی نہیں رہا۔
بعد ازاں، جاوید صاحب کا افسانوی مجموعہ برگد شائع ہوا۔ مطالعات ایونٹ کے دوران ہی انہوں نے اپنا مجموعہ منصۂ تسوید پر لانے کا اعلان کیا اور میں نے اپنی خدمات پیش کیں جسے انہوں نے در خور اعتنا نہیں سمجھا۔ خیر اسی دوران جاوید صاحب کی نظموں کی کتاب ’اگر تم لوٹنا چاہو‘ مجھے موصول ہوئی تو میں نے ان کی نظموں کے حوالے سے ایک کیفیاتی، تخلیقی و تنقیدی تبصرہ کیا جو بقول شخصے انہیں پسند نہیں آیا کیوں کہ اس میں ان کی غزلیہ شاعری پر تنقید بھی کی گئی تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ جاوید صاحب کو تنقید پسند نہیں اور میرا خیال تھا کہ صرف تعریف ہی تعریف قارئین کو ہضم نہیں ہوگی۔
خیر جب جاوید صاحب کا افسانوی مجموعہ ’برگد‘ شائع ہو کر آیا تو ہم کسی شمار و قطار میں ہی نہیں تھے، ہفتے دس دن کے بعد ان کا فون آیا اور کچھ دنوں بعد ان کی کتاب بھی موصول ہو گئی۔ کتاب کی قرات کے بعد میں نے کچھ اغلاط کی نشاندہی کی جسے انہوں نے اپنے دوسرے ایڈیشن میں درست کر لیا۔ ساتھ ہی ایک مضمون بھی لکھ دیا اور وہ بھی شامل کتاب ہو گیا۔ جاوید انور صاحب کے افسانے اس بات کے مستحق تھے کہ ان پر شرح و بسط کے ساتھ گفتگو کی جائے اور یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ وہ کمال کے افسانہ نگار ہیں۔ مضمون میں میری کوشش رہی ہے کہ خامیوں کی صرف نشاندہی کروں اور خوبیوں پر دل کھول کر گفتگو، سو میں نے ایک حد تک توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی، باقی قارئین جو فیصلہ کریں یہ ان کی مرضی ہے۔جاوید صاحب بہ حیثیت ایک ادیب مستحکم ہوچکے تھے۔ افسانہ نگاری میں وہ اپنا لوہا منوا چکے تھے لیکن شاعری؟ شاعری ان کا میدان نہیں۔ وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ شاعری میں محںت اور وقت نہیں لگتا سو دفتر سے گھر پہنچتے پہنچتے ایک آدھ نظم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا میں ان کی شاعری کو دفتر سے گھر پہنچنے تک کا دورانیہ سمھجتا ہوں یعنی کہ ایک دَورانی شاعری۔ ادبی حلقوں میں جاوید انور صاحب کی پذیرائی بڑھتی گئی، حلقہ پھیلتا گیا اور ہم سکڑتے گئے۔ اسی دوران ایک معاملہ ایسا آیا کہ جاوید صاحب کی زندگی بھر کی کمائی، ان کی عزت و عظمت 36 گھنٹے تک معلق رہی۔ قاسم کیانی صاحب نے جاوید صاحب کے افسانے نارسائی کے بارے میں اعلان کیا کہ جاوید صاحب نے ان کا افسانہ سرقہ کیا ہے، قاسم کیانی صاحب کو ہم نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ بدتمیزی پر اتر آئے اور ستم مستزاد اینکہ آنجناب سید تحسین گیلانی صاحب نے چوپال سجا دیا اور فیصلہ بر وقت نہیں چھتیس گھنٹے بعد طے پایا۔ اب یہ 36 گھنٹے ان کے کیسے گزرے ہوں گے یہ وہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ کچھ دن بعد دیکھتا ہوں کہ گیلانی اور جاوید صاحب ایک ساتھ ہیں اور کچھ دن بعد یہ بھی دیکھتا ہوں کہ قاسم کیانی فارحہ ارشد کی فرینڈ لسٹ میں واپس جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ عادتاً میں نے اعتراض کیا کہ ابھی کچھ دن قبل جو شخص جاوید صاحب کی عمر بھر کی کمائی یعنی ان کی عزت کو بیچ بازار نیلام کر رہا تھا اسے آپ نے ایڈ کیوں کیا تو انہوں نے جاوید صاحب اور سید تحسین گیلانی صاحب کی کھلکھلاتی ہوئی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب ان کو نہیں پڑی ہے تو ہم کیوں خواہ مخواہ دشمنیاں مول لیں۔ بات درست تھی جاوید صاحب دشمنی کرنے والوں میں سے نہیں ہیں دشمنی مول لینا تو خیر بہت دور کی بات ہے۔ اس وقت میں یہ سوچتا تھا کہ یہ بہت مصلحت پسند آدمی ہیں، ایک خیال یہ بھی ذہن میں آیا تھا کہ وہ اتنے بڑے مقام پر فائز ہیں کہ ہم جیسے چھوٹے موٹے لوگوں کو انتقام کے لائق سمجھنا ان کی شان کے خلاف ہے۔ لیکن اب جب میں سوچتا ہوں تو اس میں مجھے ان کی شخصیت کی کجی نظر نہیں آتی بلکہ موجودہ فیسبکی دنیا کے تناظر میں ایک بہتر رویہ معلوم ہوتا ہے اور یہ جہان فہمی عمر بھر کی جہان گردی کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے جاوید صاحب جب ہمارے درمیان ہوتے تھے تو ایک پاکٹ سائز بیوروکریٹ بھی اپنے اندر رکھتے تھے۔ پھر بھی یہ سوال بعض اوقات سر ابھارتا ہے کہ ٹھیک ہے آپ بہت اچھے انسان ہیں لیکن کیا آپ ایک اچھے دوست بھی ہیں اور آپ نے ان دوستوں کا کتنا خیال رکھا جو اس لڑائی میں آپ کے ساتھ تھے۔ سچ یہ ہے کہ انہوں نے کوئی خیال نہیں رکھا۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں جاوید صاحب کے اندر کا اچھا انسان اور اچھا دوست دونوں کیمیائی تصادم کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم نے جاوید صاحب کا ساتھ دیا تو یوں دیا کہ یا تو میں آپ کے ساتھ ہوں یا نہیں ہوں، لیکن انہوں نے اگر کبھی ہمارا ساتھ دیا تو یہ احساس ہوا کہ جیسے انہیں ہمارا ساتھ دینے پر کچھ شرمندگی سی ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ محترمہ صدف اقبال کے معاملے میں انہوں نے کھل کر اپنا بیان دیا لیکن اس وقت اور زیادہ خوشی ہوتی اگر وہ خاموش رہتے جیسے میرے اور بھی کئی دوست خاموش تھے؛ مثلاً مشتاق احمد نوری اور خرم بقا وغیرہ۔ بہرحال انہوں نے نہ صرف اپنی رائے دی بلکہ اس کے بعد بہار میں اپنی کتاب کا اجرا بھی کروایا۔ سو میں سمجھ گیا کہ جاوید صاحب بہت شریف اور بھولے آدمی ہیں، یہ پنگا وغیرہ لینے والوں میں سے نہیں ہیں اور اگر لیں گے بھی تو کم از کم ہمارے لیے تو نہیں لیں گے۔ مجھے آج تک کسی سے نفرت نہیں ہوئی لیکن ہاں اخلاقی اور اصولی بنیادوں پر دشمنیاں ہوئی ہیں اور مول بھی لی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ دشمنی اتنی تو ہونی چاہئے کہ کام کرنے کی توانائی مشتعل ہوتی رہے، ماند نہ پڑے۔ اسی مذکورہ معاملے میں کچھ لوگوں بشمول علی نثار اور کمپنی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ہاشم خان کا کیریئر تباہ کردیں گے اور اس کے چار دن بعد میں نے ایک افسانہ’جنازہ خوں گشتہ زندگی’ کا اپنی وال پر اس اعلان کے ساتھ آویزاں کردیا تھا کہ میرا تخلیقی کیریئر تباہ کرنا تم لوگوں کے بس کی بات نہیں۔
خیر! اس کے بعد حالات کچھ یوں بنے کہ یہ تثلیث تین سمتوں میں بکھر گئی۔ اس تکڑی کو بنانے اور بگاڑنے میں اصل کردار جاوید انور صاحب اور فارحہ ارشد کا تھا، میرا کردار بس واجبی سا تھا، وہ دونوں اپنی دنیاؤں، اپنی ترجیحات اور اپنے مسائل کی نذر ہوگئے، اور ہم جو بہت پہلے ہی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر امتداد زمانہ کا رزق ہوگئے تھے، اپنے خرابے میں مزید آسانی کے ساتھ صرف ہونے لگے۔
کچھ میرے اپنے مسائل، کچھ دوستوں کے نافہم رویے کہ فیسبک کی دنیا جو میرے لیے پہلے سے ہی محدود ہوتی جا رہی تھی، محدود ہی ہو گئی۔ مجموعی طور پر جاوید صاحب بہت اچھے انسان اور بہت اچھے افسانہ نگار ہیں ، وسیع القلب و المشرب ہیں، مستحقین کی خدمت و حمایت میں ہمیشہ کھڑے ہوئے ملیں گے، زندگی کے تجربوں سے انہوں نے سیکھا کہ دشمنیاں پال کر رکھنا اہل ظرف کا شیوہ نہیں ہے اور یہی چیز میں نے ان سے سیکھی ہے کہ اب میں بھی دشمنیاں پال کر نہیں رکھتا۔ اختلاف انسانی فطرت ہے اور اختلاف کو اختلاف ہی رکھنا ایک شریف آدمی کی تہذیب ہے۔ اللہ رب العزت جاوید انور صاحب اور دیگر احباب کو جنہیں مرور ایام نے بھولی بسری یاد بنا کر چھوڑ دیا ہے شاد و آباد رکھے آمین۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تصویر میں دائیں سے محمد حمید شاہد صاحب، محمد جاوید انور صاحب اور افتخار عارف صاحب دیکھے جاسکتے ہیں۔

Facebook Comments

محمد ہاشم خان
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں (مصنف افسانہ نگار و ناقد کے علاوہ روزنامہ ’ہم آپ‘ ممبئی کی ادارتی ٹیم کا سربراہ ہے) http://www.humaapdaily.com/

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply