فیض ؔ: اندیشوں کا شاعر(پہلا حصّہ)-شاہد عزیز انجم

ہمارے اَدب میں کلاسیکی رحجانات کی بجائے رُومانوی رحجانات کی اَجارہ داری رہی ہے ۔شاید اِس لئے کہ اُردو اور پھر اِس کا بیشتر ادب ایک زوال پذیر اور زوال زدہ معاشرے کی پیدوار ہے ۔ اردو نے جنم لیا تو مغل مر گئے ۔ گویا ہماری تہذیب کے ایک عظیم تر اور روشن ترورق کو الٹ دیا گیا اور اس کے عوض ہم تک کیا پہنچا یہ ایک اِ ندوہناک سرگزشت ہے ۔ اس دو سو سالہ اَدبی تاریخ میں سوائے اقباؔل کے ایک بھی ایسی قدر آور شخصیت نہیں جس کو پڑھ کر یہ اندازہ ہو سکے کہ وہ اپنے ذاتی ، اجتماعی ، معاشرتی ، معاشی ، مذہبی اور تہذیبی دکھوں سے بڑی شخصیت تھی ۔ یوں انفرادی وارداتیں بہت سی ہیں مثلاً کہاجا سکتا ہے میرؔ اور فانیؔ اپنے ذاتی دکھ سے زیادہ پرشکوہ تھے ۔ دردؔ اور اصغر گونڈوی تصوف کے راستے پر چلتے ہوئے بھی زمین کو دیکھ لیے کے عادی تھے ۔ غالبؔ اپنی تہذیبی آن بان کونبھانے میں زمانے سے زیادہ ضدی واقع ہوا تھا ۔ سر سید، شبلی ، حالی اور ان کے رفقاء بھی اپنی تہذیبی اور سماجی جھٹکوں کے سنگِ میل ہیں ۔

ملوکیت کے چھن جانے کے بعد اور اپنے ہار جانے کا رویہ شاعری میں دو طرح سے ابھرا ہے ۔ اول الذکر وہ اصحاب ہیں جن پر جھنجلاہٹ ، اداسی ، افسردگی ، مصنوعی زندگی کے خلاف فطرت کی حمایت اور طنز و تضحیک کا جذباتی تشنج طاری ہو گیا ہے اور مؤخر الذکر وہ صاحبان ہیں جو علمی اور اصلی زندگی کے تخیلی نعم البدل کی تلاش میں ہیں ۔ ان کا ذوق نظر اور مطالبات اتنے بلند و بالا ہیں کہ اس سب کی تکمیل کم از کم اس دنیا میں ممکن نہیں ۔ یہ انفعالی رومان پر دراصحاب اپنے عہد اور اس کی قدروں سے نامواقف کے تکلیف دہ احساس کو کم کرنے کی خاطر اپنے لئے ایک آرام دہ جائے پناہ ڈھونڈنے میں مشغول ہیں ماضی پرستی کو شیوہ بنا چکے ہیں اور اگر اس پر قانع نہیں تو دور کے سہانے خوابوں کی رنگینی میں تو سنِ خیال دوڑاتے پھرتے ہیں ۔ سونے پر سہاگا کے عین مصدائق سائنسی اور مشینی عہد نے بین الاقوامی طور پر انسانیت کی تعمیری آنکھ یعنی فن کار کو بے حد متاثر کیا ہے ۔ انسانی انا کو لوہے اور پیتل کے ہتھیاروں نے وہ زک پہنچائی ہے کو رومانیت ہر ضرب ِ تیشہ پر امنڈ کر لوٹ آتی ہے۔ اقتصادی ، سیاسی ، مجلسی اور معاشرتی نظام کی بدلتی ہوئی اقدار کے پیش ِ نظر ہمارا ہر نیا ، پرانا رومانوی ادیب ، شاعر یا کوئی بھی فنکار بیک وقت روحانی ، ذہنی اور جسمانی عذاب میں مبتلا ہے ۔ وہ اپنے حواس سے لڑتا ہے ۔ اور دل کو عذاب دے کر خوش ہوتا ہے ۔ انہی داخلی گزرگاہوں کی خواب ناک مگر موہوم فضاؤں میں بھٹکنے والے شعراء میں فیض احمد فیضؔ، کا نام سرفہرست آتا ہے ۔ اس کے ہاں رومانیت کے دونوں رویے موجود ہیں یعنی وہ فرار بھی چاہتا ہے اور ایک ایسی موہوم سے منزل کے امیج میں بھی زندہ ہے جو افلاطون کی ریاست کی طرح ہمیشہ کسی نہ کسی نابغہ کے ذہن میں زندہ رہے گا۔ اسی کھینچا تانی میں اس کے اندر کا آدمی اپنی انانیت سمیت بہت قابل توجہ ہو گیا ہے۔ ایلیٹ کے ایک جگہ لکھا ہے کہ:” شاعری جذبات کا بہاؤ نہیں، جذبات سے فراریت کا نام ہے۔“ یہ اس شخصیت کا اظہار نہیں بلکہ شخصیت سے فرار ہے اور وہی لوگ جن میں شخصیت بھی ہوتی ہے اور جذبہ بھی، یہ جانتے ہیں کہ اس فرار کے کیا معنی ہیں۔ اسی لیے فیض شخصی اظہار کے والہانہ اظہار کے باوجود اپنی ذات کے بہت سارے حصوں کو کیموفلاج کر سکتا ہے۔

مجتبیٰ حسین نے اپنے مضمون “کچھ فیض کے بارے میں، بہت کچھ اپنے بارے میں” لکھا ہے کہ: “فیض ایک مخصوص فضا میں زندہ ہے اسے اس فضا سے علیحدہ کر کے اس سے کسی قسم کی وسعت کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔ فیض کی شاعری کا سارا حسن اسی فضا سے جھلکتا ہے۔ اس کے یہاں مصرعوں کی معصومیت اتنی اہم نہیں جتنی وہ فضا جو ان نظموں کی اکائی سے ترتیب پاتی ہے۔”اس فضا میں وقت کی سرکتی آہٹوں کے باوجود کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی، یہ فضا درد کی لہر کی طرح بے جہت ہے۔ جہاں افسردگی اور تھکن کے بادل بہت نیچے جھک آئے ہیں۔ اس بے یقینی کی فضا میں قربت کی آنچ بھی ہے اور دوری کا پگلا دینے والا احساس بھی۔ فیض کی سرگوشیاں اس خواب ناک فضا میں بارہ احمرین کی کھنک اور پاسِ ضبط سے دبی دبی آہوں کی طرح ابھرتی ہیں۔وہ سبز گوشوں پہ نیلگوں سائیوں کا متلاشی ہے اور نیم خواب ناک شبستانوں کی خواہش میں سرگرم عمل ہے، جہاں ہر شخص بڑی آہستگی سے لفظوں کی مالائیں پرو رہا ہو۔ خوبصورت، چمکدار، قیمتی اور انمول لفظوں کے گجرے خوشبو میں مہک رہے ہوں، دوری کے خس و خواشاک تلے بھی عارض و لب کے سمندر کھلے ہوں، گردنِ مہتاب میں شاعر کی بائیں ہوں، دستِ صبا ہونٹوں سے لگا ہو اور دلدارِ نظر کی شبنم قطرہ قطرہ گر رہی ہو۔یہ ہماری ایک بورژوائی یا محلاتی فضا ہے۔ ایک رومانویت کا سجل سپنا۔ یہ سب کچھ بڑا دل آرام ہے مگر زندگی میں یہ سب کچھ بہت کم ہوتا ہے۔یہ سب ان کے لیے ہے جو زندگی کو ڈے ڈریم سمجھتے ہیں جبکہ عموماً زندگی ہم سے مفاہمت اور سمجھوتے کا آہنگ مانگتی ہے۔ حقیقت اور جذباتیت کی اس سرد جنگ میں فیض کے اندر بھی خاصی ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے۔ فیض نے اپنے اس ٹوٹ جانے والے لمحے کے بارے میں بڑا واضح اشارہ دیا ہے۔
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”فیض ؔ: اندیشوں کا شاعر(پہلا حصّہ)-شاہد عزیز انجم

Leave a Reply