ہمارے ہاں سیکڑوں یونیورسٹیوں میں سائنس، فلسفہ اور نفسیات کے ہزاروں پی ایچ ڈیز پڑھاتے ہیں۔ اُن کے عہدے بڑے بڑے ہیں، اور دماغ بھی۔ لیکن اُنھیں معلوم ہے کہ کبھی کوئی ہلکی سی بھی اِدھر اُدھر کی بات کی، کہیں علامہ اقبال کو مسترد کیا، کہیں تشکیک کو اُبھارا یا قبول شدہ روش سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کی تو نوکری گئی، یا کم ازکم خطرے میں ضرور پڑ جائے گی یا ترقی رک جائے گی (جو اُن کی زندگی کی اساس ہے)۔ لہٰذا ہمیں فلسفہ، نفسیات اور سائنس میں شاید ہی کوئی طبع زاد کتاب مل پائے گی۔ علی عباس جلالپوری نے کچھ کام کیا، مگر اُن کے دیگر ہم عصر ترقی پسند کوئی قابلِ ذکر کام نہ کر پائے۔ اب لمبے لیکچر ضرور دیتے ہیں اور محض فیس بک کو ہی ’’نئی سوچ‘‘ پیدا کرنے کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔
ہماری شاعری تو خیر رہی نہیں، بچے کھچے ادب میں بھی بہ مشکل کچھ رہ گیا ہے۔ اگرچہ کتابیں چھپ رہی ہیں، پڑھی بھی جا رہی ہیں، کچھ مجاہدنیوں نے تھوڑا بہت پڑھ کر ویڈیو تبصرے کرنے کا ٹھیکہ بھی لیا ہے، کتابوں کی ماڈلنگ کا بھی رواج ہے۔ لیکن اِس سب چھپے ہوئے مواد کو ادب قرار دینا کم ازکم میرے لیے تو مشکل ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ادب کیا ہے اور کیا نہیں!
ایسے میں میں نے اپنے لیے کچھ اصول وضع کیے ہیں۔ مثلاً جس کتاب کو ’سجانے‘ کی اضافی کاوشیں کی گئی ہوں، جس کے لیے خصوصی محفلیں منعقد کر کے معمول کے مقررین کو بلایا جائے، جن کے فلیپ ’’بڑے‘‘ ناموں نے لکھے ہوں، جن کے مصنف کو ریٹائرمنٹ کے بعد دیانت داری کا دورہ پڑا ہو، جن کے لکھنے والے/والیاں پروفیسر یا ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہوں، ایسی ترجمہ شدہ کتب جن کے مترجم کے نام کے ساتھ گجر، مانگٹ، راجپوت، چوہان، رانگھڑ وغیرہ لگا ہو، جن کے ناموں میں کنیت شامل ہو، خاکوں اور انٹرویوز کی کتب، تھیسس کو محفوظ کرنے کے لیے ’بنائی گئی‘ کتب…..۔ یہ عموماً پڑھنے کے لائق نہیں ہوتیں اور بس ذاتی تشہیر کے ہی کام آتی ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ اِس کے بعد پڑھنے کو بہت کم کچھ بچتا ہے۔ تو ٹھیک ہے۔ جس طرح کی سیاست، صحافت اور معیشت اور فن کے دیگر شعبے ہیں، ویسے ہی یہ بھی ہو گا۔ آرٹ کا فقدان دور کرنے کے لیے پلاسٹر آف پیرس کی بطخیں اور فائبرگلاس گھوڑے بنانے کے سانچے منگوا لیے جاتے ہیں؛ فلمیں موسیقی اور ڈانس وغیرہ ہم ہندوستان کا دیکھ لیتے ہیں تاکہ خود ڈانس کر کے ایمان خراب نہ ہو۔
فلم انڈسٹری کی تباہی میں فلمسازوں اور پروڈیوسروں کا بھی کافی ہاتھ ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کتب کے شعبے کو بھی مصنف کہلانے کے شوقین افراد ہی خراب بلکہ برباد کر دیں گے۔ وہ کتابیں لکھتے نہیں بناتے ہیں، اُن کی آپ بیتیاں خوشامد کے ڈھیر ہیں، ان کی ’فکری کتب‘ نہایت ناقص ہیں جن میں زیادہ تر مواد اِدھر اُدھر سے اٹھایا ہوا ہے۔

چنانچہ میری اِس کاوش کا مقصد کنٹنٹ سے بھرپور کتاب پیش کرنا ہے۔ اور جس طرح پاکستان کے بہترین قارئین نے میرا ساتھ دیا ہے، وہ بیان سے باہر ہے۔ دوسری جلد کے 75 پیشگی آرڈرز موصول ہو چکے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ کتاب چھپتے ساتھ ہی اگلے دن دو سو کے قریب پیکٹ روانہ ہوں گے تو مجھے کس قدر تقویت ملے گی؟ شاید پاکستان میں اور اُردو زبان میں آپ کو اِس طرح کی کوئی اور مثال نہ مل پائے۔ میں قارئین اور ہمدردوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ دوسری جلد کی تکمیل کے بعد اپنے فیصلے پر نازاں بھی ہوں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں