ہیں کواکب کچھ ,نظر آتے ہیں کچھ/عاصم کلیار

ہالینڈ کے قصبے میں 1876 کو پیدا ہونے والی مارگریٹا کی چھٹی سالگرہ پر جب اس کے باپ نے بکریوں کی مدد سے کھینچے جانے والی بگھی تحفے کے طور پر دی تو محلے کی سن رسیدہ عورتوں نے ماتھے پر تیوری چڑھاتے ہوۓ کہا باپ  کے لاڈ اور پیار کی وجہ سے اس لڑکی کے لچھن زمانے اور حکومتوں کے سکون برباد کریں گے۔

مارگریٹا کے باپ نے اسے ایک روز خوبصورت لباس دیتے ہوۓ کہا ،تم جانِ پدر ہی نہیں بلکہ جان عالم ہو۔ایسی گلابی رنگت اور سرخ مائل کالے بالوں سے تمھارے علاوہ کسی اور کو قدرت نے نوازا ہی نہیں۔تم کو ہر صورت زندگی بھر اپنے حسن پر نازاں رہنا چاہیے۔

مارگریٹا کے باپ آدم زلے کا تعلق طبقہ اشرافیہ سے تھا۔وہ قصبے سے کسی بڑے شہر منتقل ہونے کے سلسلے میں اپنے ہوزری کے کاروبار سے جلد روپیہ کمانے کی کوشش میں بینک کرپٹ ہو گیا۔

بیوی اور بچوں کو چھوڑ کر آدم نے دوسرے شہر کسی اور عورت سے شادی کر لی۔سوتیلی والدہ نے مارگریٹا کے تینوں بھائیوں کو اپنے پاس رکھنے کی رضامندی ظاہر کی۔مگر مارگریٹا کو اس کے گھر کی دہلیز پار کرنے کی کسی صورت اجازت نہ تھی۔والدین کی طلاق کے بعد مارگریٹا اپنے چچا کے پاس رہنے لگی۔جس نے جلد ہی مارگریٹا کو بورڈنگ سکول میں داخل کرا دیا۔تھوڑی مدت بعد جب سکول کے پچاس سالہ ہیڈ ماسٹر سے سولہ سالہ مارگریٹا کے جسمانی تعلقات کی کہانی ہر سُو سنائی دینے لگی تو اسے بورڈنگ سکول سے نکال دیا گیا۔

بورڈنگ سکول سے داغدار دامن مارگریٹا دوسرے چچا کے پاس ہیگ بھیج دی گئی۔ہیگ شہر سے ولندیژی فوجی مشرقی ممالک کو فتح کرنے کے لیے روانہ ہوتے تھے اور وہاں سے چھٹیوں پر آنے والے آرمی افسر بھی ہیگ اُترنے کے بعد اپنے گھروں کو کوچ کرتے۔انہی ایام میں مارگریٹا کی ملاقات رڈلف میکلوڈ سے ہوئی۔جو فوج میں کمیشن پانے کے بعد انڈونیشیا کے محاذ پر بھیج دیا گیا۔جہاں کئی برس گزارنے کے بعد وہ میدان جنگ کے طریقوں کے علاوہ زندگی کے آداب سے بھی واقف ہو چکا تھا۔اولین بوسے اور اٹھتی ہوئی جوانی کے ہیجان سے اس نے انڈونیشیا میں کئی راتیں ایسی بھی گزاری ہوں گی کہ نیند کے باوجود اس کی گردن میں حمائل بانہوں نے اسے سونے نہ دیا ہو گا۔مارگریٹا نے شادی کے کچھ روز بعد رڈلف کے بارے بتاتے ہوۓ کہا۔
He was a sexually experienced man, who wooed and bedded several women.
رڈلف کو انڈونیشیا سے وطن واپسی کی اجازت بیماری کی بنیاد پر دی گئی۔چند روز ہسپتال گزارنے کے بعد وہ بہن کے ساتھ ایمسٹرڈیم رہنے لگا۔جہاں اس کی ایک صحافی کے ساتھ محاذ کے متعلق خبروں کے تبادلے کے حوالے سے ملاقات ہوئی۔دونوں کے درمیان ہونے والی ملاقات جلد ہی گہری دوستی میں بدل گئی۔وہ دن بھر نہر کنارے درختوں کی چھاؤں میں کافی پیتے اور رات مئے خانوں میں بسر کرتے۔ایک سہانی شام کو رڈلف نے صحافی دوست وریسٹر سے کہا میں اپنی شامیں کسی حسینہ کے ساتھ بسر کرنے کے لیے بے چین ہوں دوسرے روز وریسٹر نے اخبار میں یہ اشتہار چھپوا دیا۔
An officer on home leave from the Dutch East Indies would like to meet a girl of pleasant character—object matrimony.

اشتہار کی اشاعت کے بعد پندرہ کے قریب خطوط رڈلف کو وصول ہوۓ۔جن میں سے ایک خط مارگریٹا کا بھی تھا جس نے اس زمانے کے دستور کے خلاف بیباکی کا ثبوت دیتے ہوۓ خط کے ساتھ اپنی تصویر بھی ارسال کی۔بیباکی کا یہی انداز 37 سالہ جہاں دیدہ رڈلف کا  دل لبھانے کے لیے کافی تھا۔وہ روز ایک دوسرے کو خط لکھتے اور جلد ہی وہ ایمسٹرڈیم کے میوزیم میں ملے۔رڈلف نے پہلی نظر میں مارگریٹا کے حسن و انداز سے متاثر ہوتے ہوۓ شادی کی درخواست کے ساتھ اسے پہلی ملاقات کے اختتام پر خدا حافظ کہا۔سترہ سالہ مارگڑیٹا کو کم سن ہونے کی وجہ سے اس زمانے کے قانون کے مطابق شادی کے لیے  باپ سے اجازت طلب کرنا تھی۔رڈلف اور مارگریٹا کے باپ کی ملاقات شہر کے اسٹیشن پر طے ہوئی۔مالی نقصان کے بعد جذباتی طور پر شکستہ حال آدم زلے فوجی افسر کو اپنا داماد بنانے کے بعد کھوئی ہوئی عزت بحال کرنے کی فکر میں انکار کی جرات کیوں کرتا۔

رڈلف کے جرنیل چچا نے مارگریٹا کی تصویر دیکھتے ہوۓ کہا مجھے تمھارے انتخاب سے اتفاق ہے کیونکہ مارگریٹا کمسن ہونے کے علاوہ حسین بھی ہے۔جبکہ رڈلف کی بہن نے روتے ہوۓ کہا اے برادر تم اس شادی سے باز رہو مجھے مارگریٹا کی آنکھوں میں چھپا فتنہ خوفزدہ کر رہا ہے۔

مارگریٹا اور رڈلف 1895 میں سول میرج کرنے کے بعد ہنی مون کے لیے  جرمنی روانہ ہو گئے ۔نوبیاہتا جوڑا اپنا گھر نہ ہونے کی وجہ سے رڈلف کی بہن کے گھر رہنے پر مجبور تھا۔رڈلف کے اخراجات اس کی آمدن سے کہیں زیادہ تھے۔جبکہ مارگریٹا کو گھریلو امور سے کوئی دلچسپی نہ تھی شادی کے تھوڑے ہی عرصے بعد دونوں کے درمیان دوریاں جنم لینے لگیں۔رڈلف بیوی کو اپنے دوستوں کے سپرد کر کے دوسری عورتوں کے ساتھ وقت گزارنے لگا۔1897 میں مارگریٹا نے بیٹے کو جنم دیا جس کا نام جون رکھا گیا۔بیٹے کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد رڈلف چھٹی کی مدت ختم ہونے کے بعد نومولود بیٹے اور بیگم سمیت پھر سے ولندیژی کالونی انڈونیشیا کے لیے روانہ ہوا۔

انڈونیشیا آمد کے بعد مارگریٹا نے بیٹی کو جنم دیا جبکہ اس کا بیٹا طویل بیماری کے بعد یہیں مر گیا۔مارگریٹا کے بیٹے کی وفات کے بارے یہ افواہ بھی عام تھی کہ اسے زہر دے کر مار دیا گیا۔کچھ روز بعد پُراسرا طور پر اس کے بیٹے کا دھیان رکھنے والا خاص ملازم بھی راہی ملک عدم ہوا۔

انڈونیشیا آنے کے بعد بڑے بنگلے اور نوکروں کی فوج ظفر موج کے علاوہ مقامی لوگوں اور یورپین باشندوں کے درمیان امتیازی سلوک سے مارگریٹا محصور تو ضرور ہوئی۔مگر میاں بیوی کے درمیان مالی امور کی وجہ سے ہمہ وقت ایک تناؤ سا رہتا۔رڈلف کی نوکری کی مدت ختم ہونے پر اس کے اعزاز میں دی جانے والی پارٹی پر جب مارگریٹا ناچتے ہوۓ اس کے قریب آئی تو رڈلف نے ماتھے پر تیوری چڑھاتے ہوۓ کہا۔
You can go to hell bitch.
پنشن کے کاغذات جمع کرانے کے بعد جب رڈلف خاندان ہالینڈ واپس پہنچا۔تو ان کے پاس رہنے کے لیے  گھر تک نہ تھا۔مارگریٹا نے بیٹی باپ کے حوالے کی اور خود پیرس سدھار گئی۔پیرس آنے کے بعد جب وہ بطور ڈانسر شہرت کی معراج پا چکی تو اس نے ایک انٹرویو میں کہا۔
I don’t know. I thought all women who ran away from their husbands went to Paris.
پیرس آمد کے بعد اس نے فیشن کی دنیا اور مجسمہ سازوں کے سامنے بطور ماڈل بیٹھنے کا کام کیا۔مگر جلد ہی وہ ایک سرکس میں بطور ڈانسر بھرتی ہو گئی۔پہلے ہی شو کے بعد اس کی دھوم پورے فرانس کے علاوہ براعظم یورپ میں سنائی دینے لگی۔بینکار،صنعتکار سفیر و وزیر اس کے تھرکتے ہوۓ جسم سے پرت در پرت ریشمی کپڑوں کو کسی آبشار کی مانند گرتا ہوۓ دیکھ کر دل تھام لیتے۔اس نے اپنے فن کے بارے بتاتے ہوۓ ایک بار کہا تھا۔
‏I never could dance well. People came to see me because I was the first who dared to show myself naked to the public
بطور سٹیج ایکٹر اس نے اپنے لیے  ملایا نام ماتا ہاری کا انتخاب کیا جس کا مطلب چڑھتا ہوا سورج ہے۔مگر وہ ایسا سورج ثابت ہوئی جو چڑھنے سے پہلے سوا نیزے پر کئی زندگیوں کی بربادی کا پروانہ لے کر پوری آ و تاب کے ساتھ برسوں چمکتا رہا۔

وہ مشرق سے اپنی زندگی کی کہانی جوڑ کر زندگی بھر توجہ کی طالب رہی۔جبکہ وہ جھوٹ کے سہارے اپنی حقیقت چھپانے کی کوشش پر نازاں تھی۔وہ اپنے بارے بتاتے ہوۓ کہتی اس کا بچپن ہندوستان کے مندر میں گزرا جہاں اسے مذہبی رقص کی تعلیم دی گئی۔وہاں سے اسکاٹ لینڈ کے ایک لارڈ نے اسے نجات دلاتے ہوۓ اس سے شادی کر لی جو کچھ برس بعد ایک لڑائی میں مارا گیا۔
پیرس ہی میں ماتا نے کنگ آف لاہور نامی اوپرا میں بھی کام کیا۔اور جب عنائیت حسین خان اہل مغرب کو ہندوستانی موسیقی سے روشناس کرانے یورپ کے دورے پر گئے  تو ماتا ہاری نے ایک رقص بطور خاص ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی کے ساتھ پیش کیا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران وہ فرانس میں بطور جرمن جاسوس کام کرنے لگی۔جبکہ فرانسیسی خفیہ ایجنسی اسے اپنا کارندہ سمجھتی۔وہ اپنے بستر تک  آنے کی اجازت صرف طبقہ اشرافیہ کے امیر لوگوں کو دیتی۔مگر ایک روسی فوجی کے لیے وہ خصوصی اجازت لے کر میدان جنگ تک گئی۔دونوں کی ملاقات ہوٹل میں ہوئی جہاں انہوں نے رات ایک ہی کمرے میں بسر کی۔روسی فوجی نے محاذ پر ماتا ہاری کی آمد کی خبر سنتے ہوۓ بندوق کندھے سے اتارتے ہوۓ پتلون کو کندھے پر دھر لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فرانس حکومت نے ماتا ہاری کو جنگ عظیم اوّل کے زمانے میں ہی جاسوسی کے الزام میں پکڑ کر سزائے  موت کا حکم سنایا۔مرنے سے پہلے ماتا ہاری نے رقص کیا اور شاداں و مسرور اک انداز دلربائی کے ساتھ چلتے ہوۓ اس نے جیل سے موت کی کوٹھڑی تک کا سفر طے کیا۔
بیان کرنے والی نے کتاب میں لکھا کہ
In 1917, the notorious oriental dancer Mata Hari was arrested on the charge of espionage; less than one year later she was tried and executed charged with the deaths of at least 50’000 gallant French soldiers.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply