تحریر مکمل پڑھنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ لامحالا آپ کی زبان سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوگی،، کیونکہ میں جس چیز کی طرف آپ لوگوں کو لے جانے والا ہوں ، وہ حیرانگی کا ایک سمندر ہے ۔ آپ خود مان لیں گے کہ ہم کچھ بھی نہیں، آپ خود اقرار کرلیں گے کہ “کائنات” میں ہماری کوئی اوقات نہیں اور صرف ہماری نہیں بلکہ ہماری وہ ٹیکنالوجی بھی اسکے آگے بالکل زیرو ہے جس پر ہم فخر کرتے چلے آرہے ہیں۔ آپ ان انجنئیرز سے نامید ہوجائیں گے جن پر فخر کرتے چلے آرہے ہیں، گو کہ میں مالک کائنات کے ایک چھوٹے سے جلوے کا ذکر کرنے والا ہوں۔۔ اور امید رکھتا ہوں کہ زیر نظر تحریر پڑھ کر اس ذات کے کمالات “عالیہ” اور قدرت ہائے کاملہ پر ہمارا ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوگا۔
اس وقت زمین سے 420 کلو میٹر دور خلا میں امریکہ اور چین کے کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو زمین کے اردگرد فری گھوم رہے ہیں۔۔ جی ہاں آپ نے بالکل صحیح پڑھا، میں انٹرنيشنل اسپیس اسٹیشن ISS کی بات کررہا ہوں ہم جب بندوق سے “فائرنگ” کرتے ہیں تو وہ “گولی” ایک سیکنڈ میں زیادہ سے زیادہ ایک دو کلو میٹر تک دور چلی جاتی ہے یعنی اگر بندوق بالکل سیدھی آسمان کی طرف کرکے فائرنگ کردیں، تو وہ گولی ایک دو کلو میٹر اوپر تک جا کر پھر واپس زمین پر آگرے گی، کیونکہ زمین “گولی” پر برابر فورس لگارہی ہے۔ جس کو سائنس کی زبان میں “گریوٹیشن فورس” کہتے ہیں۔
ہم جو بھی چیز اوپر کی طرف پھینکتے ہیں وہ نیچے واپس آکر گرجاتی ہے۔۔۔۔ لیکن اگر ہم کسی ایسی بندوق سے فائرنگ کردیں جس سے نکلی ہوئی “گولی” گیارہ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار پکڑ لے تو وہ زمین پر کبھی واپس نہیں آئیگی کیونکہ یہ زمین کی اسکیپ ولاسٹی ہے، اور اسی رفتار سے ہی زمین کی کشش سے باہر “نکلا” جا سکتا ہے۔ ۔ اس سے کم رفتار پر ہم چاہتے ہوئے بھی “زمین” کی”کشش” سے خود کو آزاد نہیں کراسکتے ۔۔ ناسا والے جب “ISS” کے لیے خلاباز Astronauts یا خوراک وغیرہ بھیجتے ہیں، تو انکے خلائی جہاز کی رفتار اس قدر بڑھا دیتے ہیں جو اسے زمین کی کشش آزاد کرانے کے لئے کافی ہو۔۔ اب یہ تو صرف زمین سے باہر نکلنے کی بات ہوگئی۔اگر سولر سسٹم سے باہر نکلنا ہو تو اسکےلئے ہمیں تقریباً 42 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار پکڑنی ہوگی اور یہی سولر سسٹم کی اسکیپ ولاسٹی ہے۔
ناسا اور “اسپیس ایکس” کمپنی کے ساتھ جو خلائی گاڑیاں ہیں وہ ابھی تک اس قابل نہیں کہ یہ رفتار پکڑ لیں، کیونکہ ایک سیکنڈ میں 42 کلو میٹر تک “جانا” کوئی “مذاق” نہیں، اسی طرح اگر ہمیں اپنی کہکشاں ملکی وے سے باہر نکلنا ہو تو اس کے لئے ہمیں 550 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار پکڑنی ہوگی۔اگر ہم نظام شمسی سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو بھی گئے، تو ملکی وے کہکشاں سے باہر نکلنا نا صرف آج ناممکن ہے بلکہ ہزار سال بعد بھی اس کا تصور کرنا محال ہے کیونکہ آج کل جو جدید “اسپیس کرافٹس” ہیں وہ 50 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار تک بھی نہیں پہنچ پائے ہیں یعنی ہم ملکی وے کہکشاں کے اندر بند ہیں۔ اور رہیں گے۔ پھر ملکی وے کہکشاں لوکل گروپ کلسٹر کے اندر ہے۔۔ ۔ اور لوکل گروپ کلسٹر کو پھر ورگو سپر کلسٹر نے گھیر رکھا ہے۔
ناسا ماہرین کے مطابق پوری کائنات میں تقریباً دو ہزار ارب کہکشائیں موجود ہیں۔اور ان بیس ارب کہکشاؤں میں ملکی وے کہکشاں( جس میں ہم رہتے ہیں) ایک درمیانی سائز کی کہکشاں ہے۔۔ ملکی وے کہکشاں میں تقریباً چار بلین ستارے موجود ہیں ، جن میں ایک ہمارا سورج بھی ہے۔ پوری کائنات میں 24 اکٹیلین سے زیادہ ستارے ہیں، اگر ایک سال کا بچہ کھانے پینے اورسوۓ بغیر “کائنات” میں موجود ستارے گننے لگے تو یہی بچہ گنتے گنتے ساٹھ ٦٠ سال کی “عمر” تک پہنچ جائے گا۔ لیکن “کائنات” میں پائے جانے والے ستارے گن نہیں پائے گا کیونکہ “کائنات” میں “ستاروں” کی تعداد زمین پر موجود ریت کے ذرات سے بھی زیادہ ہے۔
کیا ناسا کی(خلائی گاڑیوں) نے کبھی نظام شمسی اور ملکی وے کہکشاں سے باہر نکلنے کی کوشش کی ہے ؟؟؟ یہ سوال واقعی بنتا ہے۔ تو اس کا جواب ہے کہ ”ہاں” اس وقت امریکہ کے چار مشنز سولر سسٹم سے باہر ہونے کو ہیں، جی ہاں آپ نے بالکل ٹھیک پڑھا۔
میں دراصل وائجر ون، وائجر ٹو، پائنیر دس اور پائنیرگیارہ کی بات کررہا ہوں۔ تازہ ترین اپڈیٹ کے مطابق وائجر ون اور ٹو اس وقت “سولر سسٹم” کے آخری کناروں پر ہیں، ان کے پیچھے پیچھے، پائنیر دس اور پائنیر گیارہ بھی سولر سسٹم سے باہر نکلنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔چاروں اسپیس گاڑیوں کی رفتار ناقابل یقین حد تک پہنچ چکی ہے ۔ وائجر ون اس وقت 17 کلو میٹر فی سیکنڈ، وائجر ٹو 15 کلومیٹر فی سیکنڈ ، پائینرز دس اسپیس کرافٹس 11.2 کلو میٹر فی سیکنڈ اور پائینرز گیارہ 36 کلو میٹر فی سیکنڈ کی “رفتار” سے رواں دواں ہے ۔ یہ چاروں مشنز ہر بیس گھنٹے بعد ناسا کو اپڈیٹ دے رہی ہیں۔ ناسا کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ وائجر ون سولر سسٹم سے باہر ہوگیا ہے ، وائجر ون ہم سے اتنا دور جا چکا ہے، کہ اس کے بھیجے ہوئے سگنلز 22 گھنٹے بعد ہی زمین پر پہنچتے ہیں ۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ وائجر ون اس وقت کہاں ہوگا ؟ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہی چاروں 4 اسپیس گاڑیاں ہماری ملکی وے کہکشاں سے باہر نکل پائیں گی تو ایسا سوچنا بھی نہیں،، کیوں کہ ملکی وے کہکشاں سے باہر نکلنے کے لیے لاکھوں اربوں سال درکار ہونگے۔
ہم اس قدر “بے بس” ہیں کہ دو ہزار ارب کے قریب کہکشاؤں میں صرف ایک “درمیانی” سائز کی “کہکشاں” سے ابھی نکل نہیں سکے ہیں، “کائنات” سے نکلنا تو دور کی بات ہے۔ ناسا فلکیات دانوں کا کہنا ہے کہ “وائجر ون” کا رخ ہمارے قریبی ستارے پروکسما سنٹوری کی طرف ہے۔۔۔ یعنی وائجر ون 45 سالوں سے مسلسل “پروکسما سنٹوری” ستارے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ۔ لیکن اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ وائجر ون اسپس کرافٹ اگلے چند سو سالوں میں وہاں پہنچ جائے گا، تو اسکا جواب ہے کہ نہیں ،کیونکہ مکمل “کیلکولیشن” سے پتا چلتا ہے کہ “وائجر ون” وہاں اگلے ستر ہزار سال میں پہنچے گا۔۔ میں پھر دہراتا چلوں کہ ستر سال نہیں بلکہ ستر ہزار سال۔ جب کہ واٸجر ٹو بھی وائجر وان کا پیچھا کررہا ہے۔۔۔۔۔۔ اس طرح پائنیر دس ایک Aldebaran نامی ستارے کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ تقریباً بیس لاکھ سالوں کے بعد وہاں پہنچے گا۔

اس کے علاوہ پائنیر گیارہ جس ستارے کی طرف بڑھ رہا ہے وہ ہم سے بہت ہی دوری پر واقع ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کہا جاتا ہے کہ مذکورہ اسپیس کرافٹ اپنے قریبی ستارے تک چالیس لاکھ سال کے بعد ہی پہنچ پائے گا۔۔۔۔۔ لیکن کیا یہ صحیح سلامت وہاں تک پہنچ پائے گا، اس سلسلے میں وثوق سے کچھ نہیں جا سکتا، کیوں کہ وہاں سے “ریڈیو” سگنلز وصول ہونے میں دشواری پیش آرہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔رہنمائی کے لیے بتاتا چلوں کہ یہ ہمارے قریبی ستارے ہیں۔۔ جہاں تک ان اسپیس کرافٹس کو پہنچے میں اتنا لمبا عرصہ درکار ہے۔ جبکہ یہ وہ ستارے ہیں۔ جو ٹیلی سکوپ کے بغیر ہی “زمین” کے مختلف “پوزیشن” پر بڑی اسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ملکی وے سے نکلنے کے لیے ان “اسپیس کرافٹس” کو کم از کم ایک ہزار کلو میٹر فی سیکنڈ کی ولاسٹی چاہیے، ، جب کہ اتنی زیادہ سپیڈ حاصل کرنے کے لئے ان اسپیس کرافٹس کے پاس کوئی طریقہ نہیں ہے۔۔۔ مطلب یہ کہ مذکورہ اسپیس کرافٹس کبھی بھی ملکی وے کہکشاں سے نہیں نکل سکیں گے “
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں