• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • قصہ ایک آن لائن موبائل فون کی خریداری اور واپسی کا/محمد وقاص رشید

قصہ ایک آن لائن موبائل فون کی خریداری اور واپسی کا/محمد وقاص رشید

 

      فاطمہ بیٹی کے لیے پہلا موبائل خریدنا تھا۔ میانوالی کی مارکیٹ چیک کی جا چکی تھی۔ موبائل گوگل پکسل فائیو اے فور جی پسند کیا گھر کے موبائل ایکسپرٹ نے۔ جی جی فیضان صاحب نے اور اپنی بہن کو اور ہم ماں باپ کو ایسے شاندار انداز میں قائل کر لیا اس پر کہ ویڈیو بنا کر گوگل پکسل والوں کو بھیجی ہوتی تو شاید برانڈ ایمبیسڈر ہی رکھ لیتے جوان کو۔

    آنلائن موبائل خریدنے کا فیصلہ ہوا اور راولپنڈی میں کئی موبائل دیکھنے کے بعد ایک دکان سے موبائل اچھی کنڈیشن میں ہونے پر پوری قیمت کی ادائیگی پر تین دن کی چیک وارنٹی کے ساتھ خرید لیا گیا۔ موبائل پنڈی میں بھانجے عبدالمعید ہی کے پاس تھا جس نے اسے چیک کرنا تھا۔ موبائل میں ایک فالٹ نظر آیا کہ یو ٹیوب کی ویڈیو میں آواز تصویر کے ساتھ سنکرونائزڈ نہیں تھی۔ معید نے ہمیں بتایا تو فیصلہ ہوا کہ فوراً دکاندار سے رابطہ کیا جائے۔

     اگلے دن جب معید موبائل لے کر دوکاندار کے پاس گیا تو سامنے بیٹھے شخص کا ہارڈوئیر تو وہی تو لیکن سافٹ وئیر بدل چکا تھا۔ اس نے موبائل لے کر اینڈرائیڈ 14 سے اسے اینڈرائیڈ 12 پر شفٹ کر کے کہا کہ یہ لو۔ شاید جب سافٹ وئیر اپ ڈیٹ ہو تو مسئلہ حل ہو جائے فی الحال اینڈرائیڈ 12 پر ہی چلا لو۔ معید نے میری اس سے بات کروائی تو یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوئی کہ یہ محض ایک دن پہلے والے صاحب ہی نہیں تھے۔ میں نے بڑی لجاجت سے کہا دیکھیے آپ نے تین دن کی چیک وارنٹی Latest Android Version کے ساتھ دی تھی۔ اب اگر ہمیں موبائل پرانے سافٹ وئیر کے ساتھ نہیں لینا تو آپ یا واپس کیجیے یا اسے نئے سافٹ وئیر ورژن کے ساتھ چلا کر دیجیے تو اسی بد تہزیب سے لہجے میں کہنے لگا بھائی سافٹ وئیر کی وارنٹی نہیں ہوتی یہ آپ گوگل سے پتا کریں۔ عرض کی بھائی پیسے گوگل کو نہیں آپ کو دیے ہیں وارنٹی کارڈ گوگل نے نہیں آپ نے دیا ہے۔ کہنے لگا جو کچھ بھی ہے موبائل واپس نہیں ہو گا یا پھر 35 فیصد کٹوتی ہو گی۔ میں نے کہا دیکھیں سر اور اس نے موبائل معید جو تھما دیا۔ میں نے عبدالمعید سے کہا آپ  موبائل لے کر گھر پہنچیں بس۔

      شدید غم و غصّے میں، میں نے اپنے پیارے دوست اور بہنوئی (رشتے کے) عاطف سے بات کی جو کہ ایک پریکٹسنگ لائیر ہے۔ اس نے کہا کوئی مسئلہ نہیں ۔ اب آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ بس ڈاکومینٹڈ ریکارڈ مجھے بھیجیں۔ اور پھر اس نے اپنی لا فرم سے ایک لیگل نوٹس اس دکان والے کو بھیجا جس اعلی قانونی انگریزی زبان پر یہ درج تھا کہ “آپ میرے موکل سے موبائل کی خریداری میں اپنی لکھی ہوئے دعویٰ سے مکر کر دھوکہ بازی کے مرتکب ہوئے اور اگر آپ نوٹس موصول ہونے کے پندرہ دن میں رابطہ نہیں کرتے تو ہم آپکو تعزیراتِ پاکستان کی فلاں فلاں دفعات کے تحت کنزیومر کورٹ یا کسی بھی عدالت میں مقدمہ دائر کریں گے جسکے اخراجات آپکو برداشت کرنے ہونگے۔

    اس نوٹس کے چند دن بعد باریش دکاندار کا سافٹ وئیر دوبارہ پہلے والا ہو چکا تھا اور اس نے معید کو ایک معزرت کا میسیج بھیجا اور کہا کہ آپ آ کر اپنے پیسے لے جائیں۔ مجھے بہت افسوس تھا کہ نہ تو اس شخص کو دیانتداری کا باطنی دین کو بال بنا کر چہرے پہ اگانے کا کوئی خیال تھا۔ نہ میری منت سماجت کا۔ نہ میرے بھانجے کے انکل پلیز  کا۔ اور ایک لیگل نوٹس نے اسکی داڑھی کا خزاب اور گردن کا سریا اتار دیا۔

      بحرحال وکیل صاحب نے کہا “دل توڑنے والے دیکھ کے چل ، ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں “۔۔۔انہیں بتایا گیا کہ میاں یہ تب تھا جب آپ انکی منہ زبانی گزارش پر عمل درآمد کرتے۔ اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قانون حرکت میں آ چکا ہے اور آپ دونوں پارٹیوں کو وکیل صاحب کے چیمبر میں آکر معاملہ قانونی اور دستاویزی طور پر رفع دفع کرنا ہو گا۔

    یہ بتانا ضروری ہے کہ عبدالمعید کی سائن شدہ کاپی اور موبائل وصول کرتے ہوئے دکاندار کو موبائل کی قیمت کے ساتھ ساتھ وکیل صاحب کی فیس بھی بھرنی پڑی۔ جو پیسے پنڈی میانوالی کے درمیان کشت اور اس تمام کارگزاری کے میں نکلوا سکتا تھا وہ میں نے اس لیے نہیں لیے کہ بھئی ایک بغیر داڑھی کا گناہگار سا بندہ ہوں اور بس۔

     کاش کہ جو قدردانی انگریزی کی کی گئی وہ اردو کی کی جاتی ، جو تابعداری قانونی دھمکی کا کی گئی وہ شخصی منت سماجت کی کی جاتی ، جو لحاظ کالے کوٹ کا کیا گیا وہ شلوار قمیض کا کیا جاتا ، جو عہد دوسرے کی قانونی یاد دہانی پر نبھایا گیا وہ خود سے نبھایا جاتا اور۔۔۔اور جو اسلام ظاہری صورت میں سمایا گیا وہ کردار میں بسایا جاتا۔ کاش کہ یہاں کی عدالت سے ڈر کر پیسے واپس کرنے کی بجائے وہاں کی عدالت سے ڈر کر لوٹا دیے جاتے۔ کاش۔۔۔۔۔

     پسِ تحریر ! مفادِ عامہ کے لیے لکھی گئی اس تحریر میں دکان و دکاندار کے نام تب ضرور لکھے جاتے کہ اگر اس کو سزا مل نہ گئی ہوتی۔ پاکستان میں گو کہ “چاہیے” کے ضمرے میں پوری ریاست ہی آتی ہے تو چلو ایک اور چاہیے کا اضافی سہی کہ آن لائن مارکیٹ اب پاکستان میں بہت بڑا کاروبار ہے اور کنزیومر رائیٹس کی حفاظت کے لیے خصوصی قانون سازی اور اقدامات کے ذریعے دھوکہ دہی ، فراڈ اور حق تلفی کا تدارک کیا جانا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 ایک اور موبائل خریدنے کا واقعہ اس سے کوئی ہفتہ بعد ہوا۔ اس روداد کے ساتھ حاضر ہوتا ہوں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply