حُسن تنوع /یوحنا جان

جب بھی اس لفظ کہ ساخت کا عکس میرے سامنے آتا ہے تو ایک دم وہ تصویر سامنے آتی ہے جس کا دور دور تک اس سے تعلق نہیں ملتا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تعلق نہ تو قائم ہوتا ہے اور نہ ہی اس راستے پر رواں دواں ہونے کے لیے آمادگی۔ اس کا ردعمل نفسیاتی پیچیدگیاں اور مسائل کے انبار جو بلاوجہ وہم کا روپ لیے ایک وبائی شکل اختیار کر لیتے ہیں جہاں سے یہ نسل در نسل وراثتی تاثرات منتقل ہونے کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے۔ ایک سرسری بات کا خیال کریں ایک پھل فروش کے پاس چند سیب پڑے ہیں جو ظاہری خوبصورت اور چمک دمک میں نمایاں ہیں لیکن کاٹتے ہی اُن میں کیڑے اور خرابی کا نقص اُبھر آئے ، کھانا تو دُور کی بات فوراً ہاتھ پیچھے ، دُھونے کو ترجیح اور کنارہ کشی کی کوشش ہو گی۔ یہی اُس حُسن تنوع اور نزاکت کی کیفیت ہے جو کچھ آج بناوٹی اور مصنوعی رنگوں کی ہے۔
جتنا بھی رنگوں اور زیبائشوں کا سہارا لیا جائے صرف ایک پانی کا چھٹا سب بہا کر لے جائے گا۔
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ دولت کا دورانیہ محدود جو صرف سانسوں کی رفتار تک ہے۔ پھر اس مصنوعی حُسن کا ڈھنڈورا قبر اور کفن کا منظر ہے۔ جس نے اس کی خبر گیری کا ذمہ لیا ہے۔ یہ وہ ورائٹی اور اقسام ہیں جن کی بنیادی اہمیت صرف پانی کا ایک بُلبلا ہے۔ اپنی اصلیت کو چُھپانے کے لیے پیسوں کا جتنا مرضی سہارا لے لیا جائے مگر یہ تمام فطرت کے ردعمل اور قانون کے غلبہ کے نیچے آ کر ہمیشہ کے لیے منوں مٹی میں جا کر دفن ہوں گے۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصلیت کی پہچان ، اصل خوبصورتی اور اس کی تضاداتی کشمکش کا معیار کیوں غالب آیا ؟
اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی قلم ہاتھ میں پکڑا اور کاغذ کا سہارا لے کر ایک عبادت گاہ کے صدر دروازے پر جا پہنچا جہاں پر شیطان بنگڑا ڈال رہا تھا۔ چند سکینڈز کے لیے خاموش دیکھتا رہا جہاں بڑی تعداد میں نمازی نماز پڑھنے جوق در جوق آ رہے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں تسبیح ، سر پر ٹوپی اور اگلی صف کے پُجاری زیادہ ملے۔ عبادت کے بعد واپسی کے وقت کیا دیکھتا ہوں کہ وہی لوگ جاتے وقت فرفر جارہے ہیں۔ محبوب سے مُلاقات کا وقت ہے جبکہ واپسی پر ردعمل قنوطیت کا شکار ملا۔
ماتھے پر مایوسی کے بل ، چہرے پر نااُمیدی کا میدان ، ویران کھیت کا مرتبان ، مُرجھایا ہوا دھیان اور داغوں کا دابستان ایک مجموعہ تاثرات بکھیرے ہوئے قطار در قطارد واپس آ رہے ہیں۔ ذاتی مشاہدہ اور تجزیہ سے اس کو نوٹ کیا کہ ان کی اندر ایک ایسی بیماری موجود ہے جس نے تضاد کا اربعہ برپا کیا ہے۔ محبوب نے بات نہیں سُنی ، مکالمہ نامکمل ہوا ہے ، خواہشات کے بادلوں نے ستیاناس محبت کے نام میں داغ دے ڈالا ہے۔
تو پھر مطلب کیا سمجھے؟ اگر نہیں جان سکے تو جان لیں رنگ ہے پر خوشبو نہیں۔ جسم ہے مگر روح نہیں ، پیسا ہے لیکن سکون نہیں ۔ آواز ہے دم نہیں ۔ خون ہے وفاء نہیں ، چال ہے کردار نہیں ، عقیدہ ہے تاہم ایمان نہیں۔ محبوب ہے محبت نہیں ۔ عقل ہے پتا نہیں ، چہرہ ہے مسکراہٹ نہیں۔ رب ہے خُدا نہیں اور سب ہے لہذا اعتماد نہیں۔
سارے کا سارا تضاد کی بھنیٹ چڑھ کر بناوٹی چہروں اور خواہشات کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ کافی عرصہ سے دب جانے کی وجہ سے سانس لینا محال اور دم گُھٹنے سے موت واقع ہو چکی ہے۔
رشتے ہونے کے باوجود کوئی گردش نہیں ، سچ سُننے کی سکت نہیں کیونکہ کہنے کی عادت نہیں ۔ مقصد کے حصول کے لیے کوشش ضروری ہے جبکہ یہاں تو سازشیں ہیں۔ اس سازش بازی کا اور کیا ثبوت دوں زندہ کو ایک روٹی دینے کے لیے تیار نہیں مگر مرے ہووں کے ناموں پر دیگیں بانٹتے ملے ہیں۔ کپڑے پر سلوٹیں نظر آتی ہیں تو وقار مجروح سمجھتے ہیں پر دل پر میل کی تہیں جم کر کئی قسم کے بل اور خراشیں پڑ چکی ہیں وہ نظر نہیں آتیں۔ عبادت گاہ سے نکلنے والوں میں سے ایک سے پوچھ بیٹھا کہ
” جناب آپ کو کچھ نظر آ رہا ہے ؟
اس نے قدرے حیرانی سے جواب دیا
” نذر ماما لگدا اے ”
جیسے ہی یہ الفاظ اس کے منہ سے نکلے شیطان نے ڈھول کی تھاپ پر نعرہ بلند کیا۔
” دما دم مست قلندر سموسہ پیٹ کے اندر “

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply