آج کل بچوں کو میٹرک کے نتیجے کا انتظار ہوتا ہے،بلکہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں پچانوے فیصد سے کم نمبر نہ آ جائیں۔مجھے میٹرک میں خوف تھا کہیں ریاضی میں فیل نہ ہوجائے۔ایسا نہیں کہ میں نالائق طالبعلم تھا،مگر پھر بھی سپنوں میں ہمیشہ میرا حساب کا مضمون فیل ہوجاتا تھا۔یہ خانہ خراب سپنے بھی اتنے آئے کہ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میں سارا پرچہ غلط حل کر کے آیا ہوں،اب ناکامی میرا مقدر ہے۔اس ناکامی کے خوف سے زیادہ ڈر یہ بھی تھا کہ کہیں پاس ہی نہ ہوجاؤں۔ریاضی کے پیپر میں فیل ہونے کے ساتھ دوسرا بُرا سپنا سرگودھا شہر کا ہاسٹل تھا،جو مجھے اڈیک رہا تھا۔جب بھی ہاسٹل بارے سوچتا تو دل ڈوب سا جاتا۔کون پنڈ چھوڑ کے،کون کھلے ڈھلے گھر چھوڑ ڈربوں میں جا کے بند ہو،کون ہر رات تاروں سے باتیں کرتے کرتے تارے دیکھنے کو ترس جائے،کون پنڈ کی بہار اور برسات چھوڑ کے جائے؟
ہمارے وقتوں میں میٹرک کا نتیجہ اگست کے شروع میں آتا تھا۔عین وہی دن ہوتے جب پنجاب میں برسات کا موسم ہوتا۔کہیں سے اچانک بادل اُٹھتے،تتی لو ٹھنڈی ہوا میں بدل جاتی،ہوا جھکڑ میں،اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلہ دھار بارش شروع ہو جاتی۔بارش سے ذرا پہلے گھر سے دو کِلے دور گزرتی وڈی سڑک سنسان ہوجاتی،دور تلک بس فصلیں نظر آتیں،اور اس پہ سیاہ بادل جیسے کسی دوشیزہ نے ہرے سوٹ پہ کالا دوپٹہ لیا ہو۔پنڈ کی یہ برسات چھوڑ کے جانا میرا سب سے بڑا خوف ہوتا تھا۔جیسے جیسے نتیجے کے دن قریب آ رہے تھے میرا من اداس ہورہا تھا۔
نتیجہ آیا،میں پاس تھا۔میرا خوف اب حقیقت بننے جارہا تھا۔چند دنوں میں پنجاب کالج میں داخلہ ہوگیا۔اب کلاسز شروع ہونے سے پہلے سرگودھا جانا تھا۔پہلے وقتوں میں بیٹیاں بیاہ کے پرائے گھر جاتی تھیں،اب لڑکے پرائے کیے جاتے ہیں۔میں جب گھر کی دہلیز سے نکلتے اماں کو لکڑی کے پرانے دروازے پہ ٹیک لگائے کھڑا دیکھ رہا تھا تو مجھے پتہ تھا کہ اب اس دہلیز پہ ندیم مہمان بن کے ہی آئے گا۔اب میں اس گھر کے مکینوں میں سے نہیں،آج سے میں پرایا ہوں۔میں رونا چاہ رہا تھا،آنسو حلق میں تھے مگر ہم ٹھہرے جٹوں کے بال،ہمیں بلاوجہ کی بہادریاں سکھائی جاتی ہیں ۔جٹاں دے منڈے تگڑے ہوندے نیں،او روندے نہیں،روندیاں تے کُڑیاں نیں۔پھر میں بھی بہادر ہی اس گھر سے نکلا۔
اگلے روز شام کے کھانے کے لیے سٹیلائیٹ ٹاؤن کے ابراہیم ہسپتال کے سامنے ایک سٹوڈنٹ ہوٹل پہ کھانا کھانے بیٹھے۔پہلا دن تھا،مہمان تھے،سو مرغی کا سالن منگوایا۔ذہن میں ابھی تک ماں کے ہاتھوں کا بنا مرغ قورمہ ہی تھا۔جب یہ مرغی سامنے آئی تو بس کچے پانی میں دو چھوٹی چھوٹی بوٹیاں ہی تھیں۔ایک نوالہ لگا کے سالن واپس کردیا۔پھر سبزی منگوائی،وہ اس سے بدتر۔اب مجھے رہ رہ کے ماں کی چنگیر یاد آرہی تھی،اپنے نخرے یاد آرہے تھے۔اوّل تو کبھی ایسا ہوتا نہیں تھا کہ گھر میں کُچھ ایسا بنتا جو صاحبوں کو پسند نہ ہوتا،جو کبھی بھولے بن جاتا تو اپنے لیے الگ سے دودھ گرم ہوکے آتا،کڑاہی(حلوہ) بن جاتا،گُڑ والے چاول بن جاتے،مگر یہاں تو پیٹ بھرنے کو دو نوالے کھانے پہ بھی دل نہیں کر رہا تھا۔تنگ آکے دال ماش منگوائی،دال تھی یا جیسے کسی نے گتے کو مسالہ لگا کے پکایا ہو۔صبر جواب دے گیا،ہوٹل والے سے سوال کرنے سے رہے،پنڈ سے آئے سولہ سالہ بچے کی اتنی جرات کہاں تھی۔بس منہ نیچے کرکے رو دئیے۔میرے آنسو جو کل سے حلق میں تھے باہر آگئے۔

یہ پہلی اور آخری بار تھی،جب پردیس نے مجھے رُلایا تھا۔اس کے بعد ہم کتنا کُچھ ہنستے ہنستے جھاگ گئے،کہاں کہاں سے جھومتے گاتے گُزر گئے۔ہم اپنے نصیب سے آگاہ ہوگئے تھے،ہمارے بختوں میں پردیس تھے،ہم بہادر ہوگئے،ہم کٹھور ہوگئے۔کہاں گئی وہ پنجاب کی بہاریں؟وہ گہرے کالے بادلوں والی برساتیں؟کہاں اماں کی چنگیر اور وہ گُڑ والے چول؟اب کُچھ یاد نہیں آتا۔اب ٹفن میں کل کا کدو کا سالن ہو تو بھی چل جاتا ہے،اب پراٹھے کیا،عرب کے خُبس ہوں یا برطانیہ کے پیٹے سب چل جاتے ہیں۔اب کوئی گلے نہیں،اب شکرانے ہیں،اب جٹوں کے بال تگڑے ہیں،اب پردیس جاگ گئے ہیں۔اب ہم نے مان لیا ہے کہ ہم اپاہج ریاست کے لاوارث بچے ہیں،اب ہمارا جیون پردیس ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں