ارض فلسطین سے شکوہ/حبیب شیخ

اے ارض فلسطین

اے مقدس خاک، اے نبیؤں کی زمین
اے خون میں نہائی ہوئی زمین

بتا مجھے، بتا
کب بجھے گی تیری پیاس
کب آئے گا تجھے چین
کب تیرے بچے کھیلیں گے تجھ پہ بے فکر
کب تیری بچیاں اچھلتی کودتی اسکول آئیں جائیں گی
کب تیرے جوان اپنے خوابوں کی کر سکیں گے تکمیل
کب تیری بیٹیاں اک خوشگوار زندگی گزار پایئں گی
کب تیرے بزرگ مسکرائیں گے حسین ماضی کو یاد کر کے
کب تیرے نشین بے خوف و خطر تجھ پہ سفر کریں گے
کب تیرے کسان کسی دہشت کے بغیر اتاریں گے زیتون درختوں سے
کب تیرے مزدور کسی غاصب کی مرضی کے بغیر مشینیں چلایئں گے

بتا مجھے تیری پیاس کس مشروب سے بجھے گی
بتا کب آئے گا چین تجھے

بتا کتنا اور خون چاہیے تجھے
بتا کتنی اور نسلوں کا خون چاہیے تجھے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے میری فلسطینی قوم، ناز ہے مجھے تجھ پہ
گو کہ نگوں ہوں میں، میرا سر بلند ہے فخر سے
تیرا بہا ہوا خون میری خاک سے زیادہ ہے مقدس

میرا زیور ہے یہ تیرے خون کے دھبے
تیرے حوصلے چھو رہے ہیں عرش کو
بلبل گا رہی ہے گیت تیری جرات کے
بھرے جارہے ہیں صفحات تیری شجاعت سے

قابضوں کے قدموں سے مجھے پاک کرنے کا عزم بن گیا ہے اک مثال
تو نے دور حاضر کے فرعونوں کے آگے جھکنے سے کیا ہے انکار

آنے والی نسلیں کھائیں گی تیری قربانیوں کی قسمیں

کونے کونے سے فنکار تجھ پہ نچھاور کریں گے اپنا فن
لکھاری تیری کہانیوں کو کریں گے ہمیشہ کے لئے قلمبند
گلوکار اپنی آواز سے پہنچا دیں گے تیرا پیغام گھر گھر

تو نے سوتی ہوئی انسانیت کو کر دیا ہے زندہ
تو نے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑ دیا دوبارہ

یہ تیرا خون رائیگاں نہیں جانے دوں گی
تجھے مجھے ضرورت ہے صرف استقامت کی

Advertisements
julia rana solicitors

تجھے مجھے ضرورت ہے صرف استقامت کی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply