منصف اور مصنّف کے ہجوں کی ترتیب میں اگرچہ ذرا سا فرق ہے لیکن اُن کے منصب کی نوعیت میں ذرا سا بھی فرق نہیں۔ مصنّف اگر اپنے الفاظ کے ساتھ منصفی نہ کرے تو مصنّف بننے کا اہل نہیں رہتا۔ اسی طرح منصف اگر فریادی کے ساتھ انصاف نہ کرے تو اپنے منصب کے لائق نہ ٹھہرے گا۔ وہ منصف جو اہلِ اختیار کے ہاتھ میں کٹھ پتلی ہو، وہ مظلوموں کو بھلا کیا انصاف دلوائے گا …… ایسا منصف ظالموں کا سہولت کار ہوتا ہے۔ سقراط سے لے کر منصور حلاج تک سب کے سب علمبردارانِ حق اپنے دَور کے منصفوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ظالم قانون کا سہارا لے کر مظلوموں کو تہہ تیغ کرتا ہے۔ منصف کا فرضِ منصبی یہ ہے کہ وہ قانون کو ظلم کے خلاف ڈھال بنائے۔ منصف قاضی شریح نہ ہونا چاہیے کہ قانون کو ظالموں کے ہاتھ میں بطور تلوار تھما دے۔
منصف کے ہاتھ میں قلم ہے اور مصنّف بھی قلم کی پاسداری کا عَلم اٹھائے ہوئے ہے۔ عدل و انصاف کے باب میں مصنّف کے فرائضِ منصبی بھی منصف سے مختلف نہیں۔ مصنّف کو چاہیے کہ وہ اپنے دَور میں حق کا ساتھ دے، مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرے۔ اس حوالے سے مصنّف منصف بھی ہے اور مجاہد بھی …… اس کا جہاد باالقلم ہے۔ منصف اور مصنف اگر مصلحت اندیش ہوں گے تو دیس میں عدل و انصاف اور حق گوئی کا سورج ڈوب جائے گا۔ منصف کا اپنی نوکری بچانا دراصل اہلِ اقتدار کی چاکری ہے۔ مصنّف کا اپنے قاری کو لفظوں کے گورکھ دھندے میں الجھائے رکھنا، حق کو حق اور باطل کو باطل نہ لکھنا، مصلحت اندیشی ہے۔ مصلحت اندیشی حق گوئی کے باب میں ایک جرم ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں: ”درویش مصلحت اندیش نہیں ہوتا“۔ منصف اور مصنّف اگر درویشی کے مقام پر قائم نہ ہوں تو حق و انصاف کی آوازیں سہم جاتی ہیں۔
مصنّف کو چاہیے کہ وہ ہمہ تن گوش بہ سروش رہے۔ وہ دیکھے کہ حق کی آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ اِس سے پہلے کہ اُس کا قلم قرطاس پر لکھے۔ اُس کے گوشِ قلب میں نوائے سروش سرگوشی کر چکی ہوتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مصنّف اپنے قلم کو حق کی آواز کا ترجمان بناتا ہے، یا اپنے دَور کی زر آلود اور زور آور قوتوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ مصنّف اگر اپنے فرضِ منصبی سے منحرف ہو جائے تو لفظ اور معنی کا رشتہ بے ترتیب ہو جاتا ہے۔ ایسے بے ترتیب ماحول میں شرپسند قوتیں پاک اسماء اور نیک الفاظ ہائی جیک کر لیتی ہیں، اور عوام الناس کے عقل و شعور کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ منصف اور مصنّف اپنی مسند سے انصاف نہ کریں تو معاشرے میں حق اور باطل کے درمیان فرق فراموش کر دیا جاتا ہے۔ مصنّف اگر اپنے قلم کا سودا کر لے تو دلوں میں قائم مسندِ انصاف اٹھا دی جاتی ہے اور انسان اندر کے بجائے باہر کی آوازوں کا شیدا ہو جاتا ہے۔ اب باہر کی دنیا میں بلند آواز اور تلخ لہجہ، مدھر دلیل پر غالب آ جاتا ہے۔ ایسے میں قلم اور آواز کی بولی لگائی جاتی ہے، اور سستے لوگ مہنگے داموں بک جاتے ہیں۔ سچے لوگ گوشہ نشین ہو جاتے ہیں۔ جھوٹے سرِ بازار دھما چوکڑی مچاتے ہیں۔ امام موجود ہوتا ہے لیکن مقتدی گھروں سے نکلتے نہیں۔
منصف کو اگلے وقتوں میں قاضی کہا جاتا تھا۔ سنا ہے، آج کل بھی قاضی ہی کہتے ہیں۔ منصف کا قلم جو فیصلہ لکھتا ہے، وہ فتویٰ کہلاتا ہے۔ فتویٰ بجائے خود ایک قانون بن جاتا ہے۔ بعینہ مصنّف کا قلم جملے نہیں، فتوے تحریر کرتا ہے۔ یہ فتاویٰ قاری کی سوچ میں ایک میزانِ فکر نصب کر دیتا ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مصنّف کا قلم کیسے کیسے بھاری فتاویٰ تحریر کر سکتا ہے۔ منصف کا قلم صرف عہدِ حاضر کا میزان ہوتا ہے، مصنّف کا نصب کردہ میزان ہر دَور میں قائم رہتا ہے۔
ہمیں بہترین اُمّت بتایا گیا ہے۔ ہمارے پاس احسان کا نصاب بھی موجود ہے، لیکن مقامِ تاسّف ہے کہ ہم ابھی انصاف کے عہد تک بھی نہیں پہنچ پائے۔ ”جابر سلطان کے سامنے کلمہئ حق کہنا بہترین جہاد ہے“۔ ایک ملّت ساز سبق تھا۔ افسوس! ہم بھول گئے۔ ہم نے اوائل ہی میں ملوکیت کے دستِ شقاوت پر بیعت کر لی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انصاف کا ترازو بھی بادشاہوں کے محلات کی زینت بن گیا۔ تاریخ میں عدلِ جہانگیر کی تعریف لکھی گئی ہے، ہمیں بتایا گیا کہ اس کے دربار میں ایک زنجیرِ عدل نصب تھی۔ یہاں تاریخ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ عدل کی زنجیر قاضی کی کچہری کا سامان ہے، بادشاہ کے دربار میں اس کا کیا کام؟ کیا بادشاہانِ وقت قاضی کو پا بہ زنجیر کر چکے ہیں؟ قاضی کا فرضِ منصبی ہے کہ وہ رعایا کو بادشاہ سے انصاف لے کر دے۔ بادشاہِ وقت کو قاضیِ وقت کے ہاں پیش ہونا تھا لیکن گنگا جمنا کے دیس میں اُلٹی گنگا بہنے لگی۔ گویا بادشاہ نے اپنے دربار میں قاضی کو طلب کر لیا۔ پہلے قاضی گیا، پھر اس کا میزان اور کچہری کا سامان گیا۔ اقتدار کی راہداریوں میں منصف اور مصنّف دونوں گم ہو گئے۔ مؤرخ اپنی تاریخی دستاویزوں سمیت بک گیا۔ مؤرخ بھی مصنّف ہوتا ہے۔ اسے تاریخی واقعات سے انصاف کرنا ہوتا ہے۔ بادشاہوں کی توصیف میں سرکاری گزٹ بیان کرتے رہنے کو تاریخ نویسی نہیں کہتے۔ مؤرخ بطور مصنّف ایک منصف بھی ہے۔ تاریخ تحقیق کرنے کے بعد بیان ہونی چاہیے۔ اسی طرح معاشرے کے مسائل بیان کرنے سے کوئی مصنّف نہیں بن جاتا۔ مصنّف اور صحافی میں فرق ہوتا ہے۔ مسائل کی نشاندہی کے بعد اُن سے نکلنے کا راستہ دکھانا بھی مصنف کے فرائض ِ منصبی میں شامل ہے۔ اُس کے ہاتھ میں لفظوں کی شمع ہے، لازم ہے کہ وہ دانشِ برہانی کی روشنی میں مسائل کا حل بھی پیش کرے۔
اِنصاف، عدل اور احسان ایک ہی عمارت کی تین منزلیں ہیں۔ ہم ابھی انصاف کا دروازہ نہیں کھول سکے۔ انصاف کے بعد عدل ہے، اور عدل کے بعد احسان کی منزل آتی ہے۔ انصاف میں روحانی اقدار شامل ہو جائیں تو یہ عدل کہلائے گا۔ روح ہمارے بدن کا تسویہ کرتی ہے۔ انصاف کو بھی انصاف کی ضرورت ہوتی ہے۔ عدل انصاف کا تسویہ و تصفیہ کرتا ہے۔ قانون اندھا ہوتا ہے، منصب ِ عدل پر فائز قاضی کو اندھا نہیں ہونا چاہیے، کہ عدل اپنی تعریف میں دانا بھی ہے اور بینا بھی!
حسبِ دستور اور حسب ِ حال تمہیدی کلمات طویل ہو گئے ہیں، اب ہم اس تقریب اور صاحبِ تقریب پر گفتگو کرتے ہیں۔ صاحبِ تقریب، ہمارے موصوف، محمد محسن کموکا، مصنف بھی ہیں اور منصف بھی۔ اِن کی کتاب ”رقصِ خیال“ ہے، جس کے اَوراق میں اِن کا وجدان رقص کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اِنہوں نے جس خیال کا اظہار کیا، وہ منصبِ احسان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ یہ انصاف اور عدل دونوں کے تقاضے پورے کر چکے ہوں گے۔ یہ اپنے ضمیر کی عدالت سے سرخرو ہو چکے ہوں گے، اسی لیے منصفی کے منصب پر فائز ہونے کے حق دار ٹھہرے ہیں۔ اب یہ لفظوں کا ترازو پکڑ کر حقِ مصنفی بھی ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
الفاظ کا میزان ہمیں بتاتا ہے کہ انصاف تنصیف سے ہے اور عدل تعدیل سے۔ عدل ظلم کو تعدیل کر دیتا ہے …… درست کر دیتا ہے، زائل کر دیتا ہے۔ ہر چیز کو اس کے اصل مقام پر رکھنے کا نام عدل ہے۔ جسم، روح اور نفس کے تقاضے اپنے درست مقام پر رکھنے والا ہی عادل کہلاتا ہے۔ جسم کے تقاضے روح کے تقاضوں کا پامال کر دیں تو انسان اپنے نفس پر ظلم ڈھاتا ہے …… ظالم کہلاتا ہے۔ اِس ظلم پر اگر ضمیر کے چوراہے سے کوئی صدائے احتجاج نہ اُٹھے تو یہ ظلمتِ نفس کا مقام ہے۔ عدل کا تقاضا ہے کہ ضمیر کی آواز سنی جائے …… اِس ظلمت گاہِ نفس میں روح کے حقوق پامال نہ کیے جائیں۔
عدل روحِ انصاف ہے۔ عدل کے بعد اِحسان کا درجہ ہے۔ تصوّف درجہِ احسان ہے۔ اِنصاف کا تعلق افعال سے ہے، عدل کا صفات سے …… اور احسان کا تعلق ذات سے۔ اِحسان محسن شناسی کا باب ہے۔ محسن نے ”رقصِ خیال“ میں حضرت واصف علی واصفؒ کو مرشدِ خیال سے موسوم کیا ہے۔ محسن اپنے خیال کے مرکز، منبع کو جانتا ہے۔ محسن قبلہ رُو ہے، وہ اپنے خیال کا قبلہ اور قبیلہ خوب پہچانتا ہے۔ ”رقصِ خیال“ کا انتساب ہمیں بتا رہا ہے کہ مصنّف اپنے محسن کو پہچان چکا ہے۔

(حاضر سروس جج، محمد محسن کموکہ، کی کتاب ”رقصِ خیال“ کی تقریبِ رونمائی پر اظہارِ خیال کے لیے لکھا گیا)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں