فلسفہ کیا ہے ایک خیال کی دنیا جہاں خیال کے گھوڑے پر بیٹھ کر انسان ایک بے تکی اور غیر حقیقی خیالی دنیا میں اپنا سر پٹختا رہتا ہے اپنے خیالی گھوڑے دوڑاتا رہتا ہے اس وادی میں انساں نے کہیں رخت سفر باندھے مگر نسل انسانی کی تاریک رات میں کبھی سحر نہ ہو سکی تاریخ میں آج تک انسانی دنیا کو اپنی زندگی کے مسائل کا کوئی مستقل حل نہ مل سکا ایک کے بعد ایک جہالت کا سفر ایک کے بعد ایک ماڈل پیش کیا تم نے مگر وہ ماڈل چند قدم چلا بھی نہ تھا کہ زمین بوس ہو گیا۔
ہر بار انسان کو شیطان یہ امید دلاتا رہا کہ تمھیں تمہارے ارمانوں کی منزل مل گئی ہے مگر ہر دور میں یہ ثابت ہوا کہ یہ محض ایک فریب تھا ایک سراب تھا جسکا پیچھا کیا تم نے تم سے تمھاری منزل آج بھی اتنی ہی دور ہے جتنی کہیں صدیاں پہلے تھی۔
شیطان نے خیال کی دنیا میں سب سے پہلے انسانی ذہن میں اپنی موجودگی کا احساس مٹانے کے لیے خود اپنے ہی وجود پر سوال اٹھایا اور اسے بتایا کہ ایسا کوئی بھی یہاں موجود نہیں ہے یہ بس تمھارا وہم ہے یہاں فقط تم ہی تم ہو میرا تو کہیں وجود ہی نہیں ہے۔
یہاں سے گزرا تو پھر خیال ہی خیال میں رب کا بھی انکار کروایا اس نے تم سے اور تمھی تھے جو کہنے لگے کہ ہم نے خدا کو مار دیا کسی نے پوچھا کہاں مارا کہیں نہ کوئی جھگڑے کے آثار نہ کوئی دھکم پیل ہوئی نہ کوئی گھتم گھتا ہوا پھر کہاں مارا اسے تم نے کہا میں نے خیال ہی خیال میں مار دیا اسے اب اس سے بڑی جہالت پر مبنی بے تکی بات بھلا اور کیا ہو سکتی ھے جس کا اصل حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔

پھر جب تمھیں اپنے خیال کے بے سروپا ہونے کا احساس ہوا اور خیال پر سوال اٹھایا تم نے تو شیطان نے تمھیں مٹیریل ازم کے گھوڑے پر بٹھا دیا جو اپنے آخری تجزیے میں تھا تو خیال ہی مگر اس نے تمھیں تسلی دی کہ اب کی بار منزل پا لی ہے تم نے اور یوں مٹیریل ازم کی آئیڈیالوجی کا آغاذ ہوا پھر اسی وادی میں سرگرداں تمھیں کہیں سے سائنس مل گئی مگر وہ صرف تمھاری مادی ترقی میں ہی معاون ثابت ہو سکی آج بھی تم مٹیریل ازم کے گھوڑے پر سوار خیال کی دنیا میں ہی موجود ہو مگر تمھیں لگتا ہے مٹیریلسٹ ہو تم لیکن ایسا ہے نہیں تم آج بھی خیال کی وادی میں گم ہو اور یہ سفر جہالت اور تاریکی کا سفر ہے یہاں صرف گھوڑا بدلا ہے تم نے میں بھی تمھاری طرح ایک عرصہ تک اسی وادی میں گم تھا حقیقت کا متلاشی رہا مگر تاریک رات تھی ایک جس میں سفر کیا میں نے اور پھر مجھے ایک چراغ مل گیا اور میں نے وہ چراغ جلا کر اپنا راستہ پا لیا اور خیال کی دنیا سے اس جہالت کی تاریک وادی سے نکل آیا اور میں نے شیطان کو جا لیا اپنے رب کے حکم سے اسے اپنے دماغ سے نکال کر نیچے زمین پر پٹخ دیا سنو میں نے شیطان کو سر میدان شکست فاش دی ہے اب وہ میرا سامنا نہیں کرتا کنی کترا کر گزر جاتا ہے مگر اب میں اسکے پیچھے ہوں اور اسے اپنی ذریت کی فکر ہے اسے یہ فکر ہے کہ کہیں میں تمھیں بھی اسکے چنگل سے آزاد نہ کروا دوں سنو اپنی سوچ کا تجزیہ کیا کرو اور اپنے عمل پر نظر رکھو تمھیں وہ اپنی سوچ میں پوشیدہ خیال کی صورت میں کہیں مل جائے گا جو تمھیں کسی بھی بات کا درست تجزیہ نہیں کرنے دیتا جو تمھیں غیر انسانی عمل کرنے پر اکساتا ہے سنو اب میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے وہی جو سچ ہے اور جو حقیقت ہے جو اصل میں موجود ہے جو اپنا حقیقی وجود رکھتا ہے آو اب تم بھی نکل آؤ اس جھوٹ کی دنیا سے اس فریب کی وادی سے جہاں آج بھی تاریکی کا راج ہے وہاں دھوکے اور فریب کے سوا کچھ نہیں تم بھی یہ چراغ تھام لو تمھیں بھی روشنی ملے گی آو میرے ساتھ چلو مجھے میری منزل کا نشاں مل گیا ہے اور مجھے معلوم ہے کہ تمھاری بھی یہی منزل ہے ہم سب کی ایک ہی منزل ہے کیونکہ ابن آدم ہیں ہم جس نے خیال کی دنیا میں داخل ہو کر اپنی جنت کھو دی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں