گزشتہ اقساط کا لنک
سیدالاوصیاء حضرت علی ابن ابی طالب(ع) نے خطبہ قاصعہ -جو نہج البلاغہ میں مرقوم ہے- میں بنی اسرائیل کے فرعون کی قید میں ہونے کو بندگی و عبودیت سے تعبیر فرمایا ہے۔” اتخذتھم الفراعنة عبیدا”
ترجمہ: فرعون نے بنی اسرائیل کو اپنے غلام بنا رکھا تھا۔پھر آپ جناب نے اس کی تشریح فرمائی کہ فساموھم العذاب وجرعوھم المرار فلم تبرح الحال بھم فی ذل الھلکة وقھرالغلبة ، لایجدون حیلة فی الامتناع ولا سبیلا الی دفاع”(1)
ترجمہ : “فراعنہ نےبنی اسرائیل کو اپنےبندے بنا لیا تھا۔ ان کو سخت ترین عذاب دیتے تھے۔تلخاب حیات ان کو پلاتے تھے۔اور بنی اسرائیل ذلت و مجبوری کے اس عالم میں تھے کہ اپنی نجات یا دفاع کا کوئی ذریعہ ان کے پاس نہیں تھا”۔
اسی خطبےمیں آپ نے ذریت اسماعیل اور اولاد اسرائیل(2) پر قیصروکسری(3) کے تسلط و غلبہ کا ذکر کرتے ہوئے اس کو عبودیت قرار دیا۔
کانت الاکاسرہ والقیاصرہ اربابا لھم یجتازونھم عن ریف الافاق و بحرالعراق الی منابت الشیح۔۔۔
” قیصر وکسری بنی اسرائیل کے ارباب بنے ہوئے تھے۔ اور ان کو عراق کے سرسبز و شاداب میدانوں سے بنجر زمینوں کی طرف دھکیلتے رہتے تھے”۔
اسی طرح ایک اور خطبےمیں آپ نے عراقی لوگوں کی نافرمانی اور منافقت کا ذکر کرکے ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا۔اور انہیں خبر دی کہ وہ بہت جلد بنی امیہ کے اسیر وغلام بن جائیں گے۔ ” و یسومونکم سوء العذاب” ۔اس کے بعد فرماتے ہیں۔
وایم الله لتجدن بنی امیة ارباب سوء من بعدی۔۔”
“قسم بخدا میرے بعد بنو امیہ تمھارے ارباب بن بیٹھیں گے، جو بہت برے ارباب ہوں گے”۔
امام علی(ع) کے کلام میں والی کی بجائے “ارباب” کے لفظ کا استعمال یہی بتلاتا ہے کہ وہ ملت کے ولی نہیں بلکہ ارباب یعنی مالک بننے کی کوشش کریں گے۔اور یہی معنی اس حدیث نبوی سے معلوم ہوتا ہے
جو پہلےبیان ہوچکی ہے۔
اسی طرح مظلومین ِجہان کے سردار یعنی امام حسین بن علی (ع) نے یزید کی بیعت و اطاعت کو بندگی کی ذلت قرار دیا تھا۔ اور جب کوفہ کے بعض آوارہ لوگوں نے آپ سے کہا کہ یزید آپ کا چچا زاد ہے(4)اس کی بیعت کرلیں۔ تو امام حسین(ع) نے فرمایا: لا اعطینکم بیدی اعطاء الذلیل و لا اقر لکم اقرار العبید۔ (5)
میں کسی بے کس و لاچار شخص کی طرح اپنا ہاتھ تمھارے ہاتھ میں نہیں دوں گا، نہ ہی غلاموں کی طرح تمھاری اطاعت کروں گا
ھیھات منا الذلة ابی الله ذلک لنا و رسوله والمومنون و جدود طابت وحجور طھرت و انوف حمیة و نفوس ابیة من ان توثر طاعة اللئام علی مصارع الکرام۔(6)
ذلت (ظالم کی فرمانبرداری) ہمارے لئے ممکن نہیں۔
خدا، رسول ؐ ، پاکیزہ اجداد اور پاک دامن گودیں جن میں ہم نے تربیت پائی ہے ،ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتے کہ ایک پست انسان کی اطاعت قبول کریں “۔
اس پرجلال و باوقار خطبے میں امام حسین(ع) نے ظالموں اور کمینوں کی اطاعت کو ان کی عبادت و بندگی کے برابر قرار دیا ہے۔
(یعنی جو ظالموں کی اطاعت کرتا ہے وہ گویا خدا کی بجائے ان ظالم حکمرانوں کی عبادت کرتا ہے)
سیدنا علی ابن ابی طالب(ع) نے کیا خوب فرمایا کہ ” جو گردن اللہ کے علاوہ کسی کے آگے نہ جھکی ہو، وہ کیسے کسی پست شخص کے سامنے جھک سکتی ہے؟
امام حسین(ع) جیسی پاکیزہ و قدسی ہستی نے ظالم کی اطاعت سے انکار کیا، اور اپنی حریت و آزادی کی حفاظت اور توحیدِ پرودگار کے لئے اپنی ذات قربان کردی، اپنا سب مال و اسباب لٹا دیا۔
اور امت کے حریت پسندوں کے لئے ایک شاندار مثال قائم کردی۔
اور حسین ابن علی کی پیروی میں ظلم کے سامنے ڈٹ جانے والے حریت پسندوں کو تاریخ نے ” آزادخ پسند سورما” قرار دیا۔ ظلم کے سامنے استقامت دکھانے والے سب حریت پسند حسین بن علی(ع) کے خرمن کے ہی خوشہ چین ہیں، جنہوں نے آنجناب سے فداکاری و جرات کا سبق سیکھا ہے۔
چنانچہ جب حر بن یزید ریاحی نے بنو امیہ کی غلامی کا طوق اتار کر ، آزادی و حریت کی وادی میں قدم رکھا اور شہادت سے سرفراز ہوئے تو امام حسین بن علی(ع) نے ان کی حریت پسندی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئےانہیں دنیا و آخرت میں آزادی کی نوید سنائی اور فرمایا:
انت الحر کما سمتک امک انت الحر فی الدنیا و انت الحر فی الآخرة”
اے حر! جیسا تیری ماں نے تیرا نام “حر” رکھا تھا، تو واقعا دنیا بھی آزاد ہے اور آخرت میں بھی آزاد رہے گا۔
مزید برآں جب ہم قرآن مجید کی سورہ نور کی آیت 55 (7)کی تفسیر میں منقول احادیث کو دیکھتے ہیں، اور دعائے افتتاح(8) کے آخری جملات پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امام مہدی (عج) امام آخرالزمان بھی( امام حسین کی طرح) حریت کی کرامت سےمکرَّم ہیں۔
اور مذکورہ آیت میں جس شرک سے اللہ نے سخت نہی فرمائی ہے، اس سے مراد غیر آئینی جابر حکمران کی اطاعت و بندگی ہے۔ امام مہدی(عج) -جیسا کہ آپ نے خود بھی فرمایا تھا- ان کی گردن کسی جابر حاکم کی بیعت نہیں اور یہ ان کی ایک ممتاز صفت ہے۔
سورہ توبہ(9) کی آیت 31 میں ارشاد ہوا ہے کہ نصرانیوں نے احبار و رھبان کو اپنے ارباب بنا لیا ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں منقول احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پاپائے اعظم اور پادریوں کی بلاچون و چرا اطاعت کی وجہ سے ان کو کہا گیا کہ انہوں نے اللہ کی بجائے اپنے احبار و رھبان کو اپنا رب مان رکھا ہے۔
واضح سی بات ہےکہ جس طرح ملکی سیاست میں غیر آئینی حکمرانوں کی اطاعت کرنا اور ان کی خواہشات کے تابع ہوجانا درحقیقت ان کی بندگی و عبادت ہے، اسی طرح مذاہب کے بانیان اور سربراہوں کے ایسے احکام کا تابع ہوجانا، جو ہوتے تو ان کے من پسند ہیں، لیکن وہ انہیں دین کے طور پر پیش کرتے ہیں، یہ بھی بندگی و عبادت ہے۔
احتجاج طبرسی میں ایک حدیث مروی ہے جس میں دنیا پرست و جاہ طلب علماء سوء کی تقلید کی مذمت کی گئی ہے، وہ حدیث بھی اسی حقیقت کیطرف اشارہ کرتی ہے۔
یہ فرق ذہن میں رہے کہ غیر آئینی بادشاہوں کا لوگوں کو اپنا بندہ و غلام بنالینا، طاقت و قوت کی وجہ سے ہے۔ جبکہ علماء سوء دھوکہ وفریب سے لوگوں کو اپنا مطیع بنا لیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کے حوالے سے آیات و احادیث کا انداز بیان تھوڑا مختلف ہے۔ چنانچہ جہاں بادشاہوں کا تذکرہ ہے وہاں ایسے الفاظ ہیں :
عبدت بنی اسرائیل
” تم نےبنی اسرائیل کو اپنا بندہ بنا رکھا ہے۔
“اخذتھم الفراعنة عبیدا” یعنی فرعونوں نے ان کو اپنا بندہ بنا لیا۔
(یعنی حکمران اپنی طاقت سے عام لوگوں کو مغلوب کرکے انہیں بندگی پہ مجبور کرتے ہیں)
جبکہ علماء سوء کے تذکرے میں اس طرح کا انداز بیان ہے کہ
“اتخذوا احبارھم و رھبانھم اربابا ”
لوگوں نے اپنےپادریوں کو رب بنا رکھا ہے”۔
(گویا اس صورت میں عام لوگ فریب میں آکر پادریوں کو رب بنا لیتے ہیں)
دراصل جابر بادشاہوں کی بندگی جسموں کی ملکیت ہے جبکہ مذہبی پادریوں کی بندگی قلوب کی ملکیت کا نام ہے۔
یہاں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جن علماء نے استبداد کو استبداد دینی اور استبداد سیاسی میں تقسیم کیا اور یہ بتایا ہے کہ یہ دونوں استبداد جڑواں اور ایک دوسرے کا محافظ و حامی ہیں، ان کی بات کس قدر درست ہےاور ان ک تجزیہ کس قدر ذہانت پر مبنی ہے!؟۔
اور یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اس خباثت کا خاتمہ اور اس حقارت آمیز غلامی سے نجات صرف ملت کی بیداری و آگاہی سے ہی ممکن ہے۔
البتہ سیاسی استبداد سے نجات پھر بھی آسان ہے۔ لیکن دینی استبداد سے نجات بہت ہی مشکل ہے اور ان دونوں کے جڑواں ہونے کی وجہ سے سیاسی استبداد سے نجات بھی مشکل ہوجاتی ہے۔
حواشی و توضیحات:
(1): نہج البلاغہ ، خطبہ قاصعہ
(2): حضرت ابراھیم کے دو بیٹے تھے۔ اسماعیل اور اسحق، حضرت اسماعیل کی اولاد جو عرب اور موجودہ اردن کے خطے میں آباد ہوئی، ذریت اسماعیل کہلاتی ہے، بعض تاریخوں میں انہیں نبطی(نبتی) بھی کہا گیا ہے۔
جبکہ حضرت اسحاق کے بھی دو بیٹے تھے۔ عیص یا عیسو، اور حضرت یعقوب۔ عیسو کی اولاد ادومی کہلائے یہ فلسطین و شامات میں آباد تھے۔ اور حضرت یعقوب کے بارہ بیٹے تھے، جناب یعقوب کا لقب اسرائیل تھا، اس لئے ان کے بارہ بیٹوں کی اولاد بنی اسرائیل کہلاتی ہے۔
(3): قیصر (Cisar) روم کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ اور کسری/ خسرو ایرانی بادشاہوں کا لقب۔
جبکہ “فرعون” مصر کے بادشاہوں کا لقب تھا۔
(4):بنی امیہ اور بنوہاشم کا شجرہ ایک سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ ہاشم و عبدشمس آپس میں بھائی تھے۔ ہاشم کی اولاد بنو ہاشم کہلاتی ہے۔ حضرت محمد(ص) بنو ہاشم میں سے تھے۔ جبکہ عبدشمس کی اولاد بنوامیہ کہلاتی ہے۔ کیونکہ عبدشمس کے بیٹے کا نام امیہ تھا۔اور یزید بنو امیہ میں سے تھا۔
اسی وجہ سے روز عاشور، میدان کربلا میں شبث ابن ربعی اور حجار ابن ابجر نے یزید کو امام حسین(ع) کا چچا زاد قرار دیا اور کہا کہ اپنے چچا زاد کی بیعت کرلیں۔ جس پر امام نے وہ جلالی خطبہ ارشاد فرمایا جو میرزا نائینی نے بھی نقل کیا ہے۔
( بعض مورخین کے نزدیک امیہ، عبدشمس کا بیٹا نہیں تھا۔ بلکہ آزاد کردہ غلام تھا۔ جس کو عبدشمس نے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا)
(5): بحار الانوار جلد 45صفحہ 7۔
(6):احتجاج طبرسی ج٢ ص٢٤،حماسہ حسینی ج١ ص٢٠٨)
(7): پوری آیت یہ ہے؛
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۪-وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًاؕ-یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْــٴًـاؕ-وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ
ترجمہ ؛ تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم
کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیزکو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں۔
ترجمہ از شیخ محسن علی نجفی۔
(8): شیعہ عقیدے کے مطابق ، غیبت صغری کے زمانہ میں امام مہدی(عج) کے چار خاص نائب تھے۔ جن میں سے ایک ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید عَمری تھے۔ دعائے افتتاح انہیں سے منقول ہے۔ اور یہ دعا رمضان کی راتوں میں پڑھی جاتی ہے۔
(9): پوری آیت درج ذیل ہے۔
ٱتَّخَذُوٓاْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَٰنَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ ٱللَّهِ وَٱلْمَسِيحَ ٱبْنَ مَرْيَمَ وَمَآ أُمِرُوٓاْ إِلَّا لِيَعْبُدُوٓاْ إِلَٰهًا وَٰحِدًا ۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ عَمَّا يُشْرِكُونَ۔
ترجمہ: انہوں نے اللہ کے علاوہ اپنے علماء اور راہبوں کو اپنا رب بنا لیا ہے اور مسیح بن مریم کو بھی، حالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ خدائے واحد کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ذات ان کے شرک سےپاک ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں