پاکستان میں جبر اور ظلم کی تاریخ روز اول سے لکھی جانا شروع ہو گئی تھی۔ اس ظلم اور بربریت کو آج تک کوئی شخص بھی لگام نہیں دے سکا۔ اس خونچگاں داستان کے ڈانڈے جس اصل حاکم ادارے سے ملتے ہیں ان سے اب ہم سب واقف ہو چکے ہیں۔ عمران خان کا اس ملت پر سب سے بڑا احسان یہی ہے کہ اس نے پاکستان کے عوام کو اصلی حاکموں اور ان کے مکروہ گماشتوں عدلیہ، افسر شاہی، پولیس، میڈیا، صحافی، مذہبی علما الغرض سسٹم کے ایک ایک پرزے کو مکمل عریاں کر کے دکھا دیا۔ اس بہتی گنگا میں کون کون اپنے ہاتھ دھو رہا ہے، یہ اب پاکستان کے بچے بچے کو معلوم ہو چکا ہے۔ سلیمانی ٹوپی پہنے ہر شے غائب کر لینے والے سارے جادوگر اور ان کے بچے جمہورے اور تماشائیوں کے بہروپ پہنے گماشتے مزید منہ نہیں چھپا سکتے۔
اب بھلے عمران خان کو پھانسی دے دی جائے یا ناروا عمر قید دے کر نشانہ عبرت بنا دیا جائے، ہماری تاریخ اسے ایسا سچا محب الوطن ہیرو ہی لکھے گی جس نے قوم کو دوستوں دشمنوں کی پہچان عطا کی۔ ان لٹیرے اور چور جنرلوں، ججوں، صحافیوں اور ان کے سبھی گماشتوں کے سیاہ کرتوتوں کی بدولت ان پر لعنتیں ہی برسائی جاتی رہیں گی۔ یہ لوگ پاکستان کی بربادی، کرپشن، دگرگوں حالات، غربت، عزلت، مہنگائی، چور بازاری اور ذلت کے اصل ذمہ دار ہیں۔ یہ عوام کے نام پر آئی ایم ایف سے بھاری سود پر قرضہ جات لے کر ساری رقم اپنی اونچی تنخواہوں، مفت مراعات، فضول خرچیوں، عیش و عشرت، عالیشان بنگلوں، محلوں، غیر ممالک میں خریدے جزیروں پر ضائع کر دیتے ہیں اور عوام کو بجلی کے بڑے بلوں، مہنگائ کی عفریت کے جبڑوں میں جکڑ کر ان کی زندگی عذاب کر دیتے ہیں۔ عوام کی بجلی، پانی، گیس، خوراک، تعلیم و صحت جیسی بنیادی ضرورتوں کو بھی پورا نہیں کرتے اور سارا خزانہ دن دھاڑے لوٹ کر اپنی جیبیں بھر لیتے ہیں۔ انھوں نے مملکت کے اندر اپنا ایسا ملک بنا رکھا ہے جہاں بلڈی سویلین پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ پاکستان میں دو ہی طبقے ہیں: حاکم اور محکوم، امیر اور غریب۔ ان دونوں کے لیے نام نہاد قوانین بھی مختلف ہیں اور منشور بھی۔ امیر حاکموں کے لیے عدالتیں آدھی رات کو کھل جاتی ہیں، غریب محکوموں کے لیے انصاف دن کو بھی سویا رہتا ہے اور عمر بھر پیچھے بھاگنے کے باوجود کہیں اور کبھی نہیں ملتا۔
پاکستان کے دانشوروں پر کم از کم ہمیں تو بے حد حیرت ہوتی ہے۔ خدا معلوم اب وہاں عقل نام کی کوئی چڑیا ہی ناپید، عنقا اور نایاب ہو چکی ہے یا سب دماغوں میں ہی بھوسہ بھر دیا گیا ہے۔ شاید سب کی عقل گھاس چرنے چلی گئ ہے۔ ہر طرف پھیلے اندھیروں کی سیاہی، دھندلکوں اور ظالموں، چوروں و وطن فروشوں کی حمایت میں دانشور سر عام رات کو دن کہنے میں بالکل شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ شعوری یا غیر شعوری طور ہر اس ظلم اور جبر کا ایک کل پرزہ بننے سے بہتر ہے کہ انسان خاموش رہے۔ یہ آخری درجے کا جہاد ہے جس میں ان وطن فروشوں، ملک کو لوٹ کر کھا جانے والوں کو برہنہ کرنے اور جبر کے خلاف سیسہ پلائ دیوار کی طرح متحد ہونے کی بجائے انھیں دل ہی دل میں برا کہہ لیا جائے۔ جب ہم آپ جیسے دانش ور ہی کسی روشنی کی کرن کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے اندھیروں کا ساتھ دینے لگ پڑیں تو آخر گلہ کس سے کیا جائے؟
بدقسمتی سے اپنے یہاں اب بچہ بچہ ہی بکاو مال بن چکا ہے۔ لوگ بریانی کی پلیٹ سے لے کر موٹر سائیکل تک کھلی بولی دے کر ووٹ جیسی قیمتی قومی امانت خرید لیتے ہیں اور کسی کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ملک کی مقبول ترین جماعت کو جس بے دردی، بے رحمی سے نیوٹرل ہونے کے دعوی داروں سے کچل کر اپنی طرف سے ختم کر دیا ہے، اس تماشے کا گواہ ساری دنیا بن چکی ہے۔ اب نام نہاد الیکشن کا ڈرامہ کرنے کی کوئی ضرورت کم از کم ہمیں تو نظر نہیں آتی۔

بدقسمتی سے اپنے ہاں آوے کا آوا بگڑ گیا ہے۔ “جس کی لاٹھی اس کی بھینس” کہتے چور اب بھینس کے ساتھ ساتھ اس کی بچھیا بھی کھول کر لے چلے ہیں۔ لوگوں کو چوری کرتے سیاسی و مذہبی لیڈر، جنرل، صحافی، جج بالکل نظر نہیں آتے کیونکہ پاکستان کا ہر شخص ہی اب چھوٹا موٹا چور بن چکا ہے۔ پاکستان اب ایسی برائیوں کا گڑھ بن کر ایک عالمی لطیفہ بن چکا ہے جس پر ہنسی کے بجائے رونا آتا ہے۔ ہمیں غربت، عزلت، بربادی، بدنامی اور تباہی کے مزید گہری کھائی میں نیچے گرنے کے لیے پاتال بھی کم پڑ چکا ہے۔ ہمارے بدمعاش بے شرم سیاسی و مذہبی لیڈر، حاکم، جج، صحافی اور ان کے دیگر کل پرزے اپنی ساری شرم و حیا، شرافت اور انسانیت کھو چکے ہیں۔ ایک نام نہاد مسلم ملک میں خواتین اور بچوں سمیت بے بس عوام پر اتنا ناجائز ظلم و ستم، قتل و غارت، جبر و جدل ہونے کے باوجود عقل کے اندھے گانٹھ کے پورے دانشور، لکھاری، شاعر، ادیب، قوم کو جگانے والے چپ شاہ کا روزہ رکھے، گونگے کا گڑ کھائے، منہ میں گھنگنیاں اور کان میں تیل ڈالے غفلت کی ایسی نیند سوئے پڑے ہیں کہ انھیں اب روز محشر ثور پھونک کر ہی جگایا جائے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں