جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ لانگ مارچ میں شریک ماؤں، بہنوں اور نوجوانوں کے اوپر بدترین ظلم اور تشدد کےمناظر دیکھ کرجانے کیوں قطعا ًدکھ نہیں ہوا ۔ دکھ ہوتا بھی کیوں ، سردی میں ٹھٹھرتے بلوچ شرکا ءجانے کیا سوچ کر اسلام آباد کا رخ کر رہے تھے ، کہ انہیں پھولوں کے ہار پہنائے جائیں گے ؟ ہماری بہن ماہ رنگ بلوچ اگر یہ سمجھ کر اسلام آباد داخل ہوئیں کہ انہیں ریاست اسی طرح ٹریٹ کرے گی ، جس طرح 2014 میں 126 دن کا پڑاؤ ڈالنے والے سابقہ لاڈلے کے ساتھ سلوک کیا گیا ، تو ان کی معصومیت پر افسوس ہی کیا جا سکتا تھا۔ لگتا یوں تھا کہ بلوچ یکجتی مارچ کے شرکا ءکو یہ بھی غلط فہمی تھی کہ انہیں نومبر 2017 کے دھرنے کے شرکا ء کی طرح ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا ، ریاست نا صرف ان کے مطالبات تسلیم کرے گی ، بلکہ مطالبات کی ضمانت دینے والا بھی ریاست کے “فیض یابوں “میں سے کوئی ہو گا ۔پر ایسا ہوتا کیوں ؟
یہ سہولت تو صرف ریاست میں بسنے والے ان افراد کے لیے تھی جنہیں ریاست “اشرف المخلوقات” کا درجہ دیتی ہے ۔ لاپتہ افراد کی بازیابی ، ماروائے عدالت کارروائیوں کے خاتمے اور بالاچ بلوچ کی ہلاکت پر انکوائری کرنے والوں کے نزدیک بلوچ مارچ کے شرکاء نہ تو “اشرف “تھے اور نہ ہی ان کو خدا کی “مخلوقات” میں شمار کیا گیا، جس کا انجام یہ نکلا کہ شرکاء کو لاٹھی چارج، واٹر کینن اور آنسو گیس کی شیلنگ کا سامناکرنا پڑا ۔ ریاست کی اس مہمان نوازی کےباعث عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں کی چیختی آوازوں سے یقیناً عرش تو ہلا ہو گا لیکن فرش پر بسنے والے اقتدار کے نشے میں چُور حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ۔ وجہ یقیناً اس کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ انسان نہیں تھے ۔
لانگ مارچ میں شریک ماؤں ، بہنوں ،بچوں اور بزرگوں کو اگر” اشرف المخلوقات” اور مملکت خداداد کامعزز شہری سمجھا جاتا تو یقیناً ریاست انہیں پُر امن احتجاج کا حق ضرور دیتی ۔ احتجا ج کے لئے ایک مقام کا تعین کیا جاتا اور ان کی حفاظت کے لیے سکیورٹی تعینات کی جاتی ،لیکن افسوس پُر امن شرکا ء کے ساتھ ریاست نے غیرا نسانی سلوک کا مظاہرہ کیا ۔ انسان نہ ہونے کی ایک پختہ نشانی تو یہ بھی تھی کہ چند کلومیٹر دور واقع انصاف کے مرکز سے بھی ان کی کوئی داد رسی نہیں کی گئی ،میرے خیال سے اعلیٰ عدلیہ کے اس اقدام کی جتنی تحسین ہو سکے اتنی کرنی چاہیے ۔ خدانخواستہ اس طر ح کی کوئی کاوش غلطی سے ہو جاتی تو یقینا ًعالمی فہرست پر 128 ویں نمبر پر آنے والے ادارے کی فہرست تیار کرنے والوں کو کچھ اشاریے اوپر نیچے کرنے پڑ جاتے ۔
خواتین اور بچوں پر مشتمل ان شرکا ءکے انسان نہ ہونے کی ایک نشانی تو یہ بھی تھی کہ ان کو مذاکرات کے قابل بھی نہیں سمجھا گیا ، ورنہ تو 25 ، 26 دن سٹرکوں پر احتجاج کرنے والے اگر انسان ہوتے تو یقیناً ریاست ماں کا کردار اد ا کرتی ، لیکن جانے کیوں یہاں ایک دفعہ پھر دہرانا پڑ رہا ہے کہ ماں کی ممتا کے لئے بھی جاندار ہو نا ضروری ہے ۔
اور تو اور سیٹھ کا میڈیا ، جس کا پیٹ ہمیشہ خبروں سے خالی رہتا ہے ، جو ماضی میں لانگ مارچ کی ایک ایک سیکنڈ کی اپ ڈیٹ اپنی اسکرینوں پر دکھاتا رہا ہے ، اگر انہیں بھی شرکاء نظر نہیں آئے تو اس میں بھی کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہونی چاہیے ۔ کیونکہ جس چیز کو جزوی یا کلی طور پر آپ پہلے سے ہی جانتے ہوں اسے خبر کہلانے کا حق حاصل نہیں ہوتا اور ہم سب جانتے ہیں کہ بلوچ ہماری ریاستی ڈکشنری کی تعریف میں انسان کہلائے جانے کی تعریف پر پورا نہیں اُترے ۔

ہاں اگر اب یہ بات کی جائے کہ بلوچ انسان کیسے بن سکتے ہیں ، تاکہ انہیں ریاست وہی حقوق دے جو دوسروں کو مہیا ہیں ،تو اس کا حل بھی صرف بلوچ قوم کے پاس ہے ۔ انسان بننے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ریاست کے ظلم و جبر پر ناراض ہونا چھوڑ دیں ۔ حقو ق نہ ملنے کی شکایات کرنا چھوڑ دیں ۔ احتجاجی تحریکوں سے گریز کریں۔ ما ورائے عدالت کارروائیوں کو قدرت کا نظام سمجھیں ۔ پیاروں کی بازیابی جیسے مطالبات کو وقت کا ضیاع سمجھیں ۔ یوں ریاست کی ڈکشنری میں بلوچ بھی انسان کی تعریف پر پورا اُتر سکتے ہیں ، لیکن لگتا یہ ہے کہ بلوچ ریاست کی لغت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ،اس لیے ریاست بھی ان کو انسان نہیں مان رہی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں